وجود

... loading ...

وجود

ترقی کا پیمانہ

جمعه 17 جنوری 2025 ترقی کا پیمانہ

آواز
۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

میری اس سے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی کبھی کبھی حوادث ِ زمانہ سے گبھرا کر میں ایک ڈھابا ٹائپ ہوٹل میں گھنٹوں بیٹھ کر تلخی ٔ ایام کو چائے کبھی کافی کی پیالیوں گھول کر پینے کی کوشش کرتا ۔اس دن نہ جانے کیوں خلاف ِ معمول ڈھابا میں بڑا رش تھا۔ میں چائے کی چسکی لیتا ہوا فضا میں دور کہیں خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ ایک آواز سماعت پر حاوی ہوگئی۔ کسی نے بڑے مہذب اندازمیں پوچھا تھا جناب میں یہاں بیٹھ سکتاہوں وہ نہ بھی پوچھتا تومیں کون سا ڈھابے کا مالک تھا ۔میں نے ایک نظر اسے دیکھا چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا جناب تشریف رکھئے وہ ایک عام سا شخص تھا لیکن اس کی شخصیت میں عجب کشش تھی۔میں نے کہا آپ نے میری میزکاانتخاب کیا ہے تو یہ میرے لئے اعزازکی بات ہے ۔اس لحاظ سے آپ میرے مہمان ہیں کیا پسندفرمائیں گے ۔ یہاں تو سب ہی مہمان ہیں۔ اس نے کمال کا فلسفہ بگھاڑتے ہوئے کہا میں تو کبھی کبھاریہاں چائے پینے کے لئے آتاہوں آج بھی چائے ہی پیوں گا۔ آپ کا مہمان بننا خوب رہا۔ ابھی چائے سرو نہیں ہوئی تھی کہ وہ بڑبڑایا۔
عوام نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ،کس بات کا۔۔ میں نے استفسارکیا ۔اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے مٹھی بھینچتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا ۔ میرے بس میں ہو توگریڈ17سے لے کر وزیراعظم تک تمام لوگوں کی مراعات ہنگامی بنیادوں پر ختم کر دوں۔ غریبوں نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ایک سے بڑھ کر ہڈحرام، نکمے ، ویلے اس ملک کو جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔وہ بولا تو پھر بولتا ہی چلا گیا یہ ہٹے کٹے خود کفیل، کروڑ پتی ارب پتی سیاستدان، بیوروکریٹس، سرکاری افسر ان اور اسٹیبلشمنٹ کا آخرہم کب تلک بوجھ اٹھاتے پھریں گے ؟
”ہم کربھی کیا کرسکتے ہیں میں نے لقمہ دیا ۔”ہم آواز اٹھا سکتے ہیں وہ بولا لوگوںکو شعوردلاسکتے ہیں اپنے حق کے لئے آواز نہ اٹھانے والے بزدل ہیں ،منافق ہو اور انہی کی وجہ سے اشرافیہ ہمارے ٹیکسزکے پیسوں پر عیاشیاں کرتی پھرتی ہے ۔ اس نے میز پر مکہ مارتے ہوئے کہا آئی ایم ایف کے قرضوں کی ذمہ دار خود غرض بے حس اشرافیہ ہے میں اور آپ نہیں ذرا سوچئے اور مکمل سوچئے۔۔۔ایک دیہاڑی دار اپنی کمائی سے 210 روپے لیٹر پٹرول خریدیگا تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، وزیر، مشیر، آرمی افسران، ججز، بیوروکریٹس کو بھی مفت پٹرول ملنا بند ہونا چاہئے اگرمعیشت کو بہتر کرنا ہے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو اس اشرافیہ کو ملنے والی سبسڈی ختم کرنا ہو گی،کچھ تو قربانی دینا ہوگی۔ فرض کریں اگر پاکستان میں 20000 افراد کو پٹرول فری کی سہولت میسر ہے اور اگر ایک آفیسر ماہانہ 400 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لیٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے جس کو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریباً 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ یہی ہے وہ ناسور جو ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔ ہر حکمران اور اشرافیہ صرف عوام کو قربانی کا بکرابنانا چاہتی ہے وہ خود کوئی قربانی نہیں دینا چاہتی نہ کوئی اپنی مراعات سے دستبردارہونے کو تیار ہے یار یہ لوگ کچھ تو خدا کا خوف کریں ۔جناب آپ کی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ: ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہئے۔ اشرافیہ کے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہئیں۔ اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہئیں۔ اشرافیہ کا یورپ و امریکہ میں فری علاج بند ہونا چاہیے۔ اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہئیں۔ اشرافیہ کو 6، 8،10 کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہئیں۔ غیر ضروری تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہئیں۔ یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر نادرن ایریاز میں سیر وتفریح کر رہی ہوتی ہیں ۔وزیراعظم کا دوست ممالک سے ہروقت قرض مانگتے رہنا ،مراعات کا تقاضا کرتے رہنا یا پھر وقت بے وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کا راگ الاپتے رہنا عزت ِ نفس کو مجروح کرنے والی بات ہے۔ پاکستان کے معاشی بحران کے تناظر میں دوست ممالک آخرکب تلک کتنی امداد دیتے رہیں ،ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے اور جناب قرض پہ قرض لے کر معیشت کی بحالی کے امکانات کیونکر روشن ہو سکتے ہیں؟
” آج وزیرِ اعظم شہباز شریف نے نیا مژدہ سنایاہے کہ ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان کو 10سال کے سی پی ایف کے تحت 20 ارب ڈالرز کے وعد ہ کیا ہے جس پر ن لیگ کارکن اور وزیر مشیر لڈیاں ڈالتے پھررہے ہیں یہ ہوتاہے لیڈر اسے کہتے ویژن۔ ” تم بھی کمال کرتے ہو نہ یہ کوئی خوشخبری ہے نہ کوئی ویژن ،البتہ مہنگائی کی ماری ،بھوک سے بلبلاتے عوام، مسائل میں زندہ درگورقوم جس کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہواہے ،وہا ں کے ایک محکمے ایف بی آر نے ایک ہزار دس نئی کاروں کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے، یہ گاڑیاں بنیادی اسکیل اٹھارہ تک کے افسر انسپکٹرز کو سیلز ٹیکس انکم ٹیکس فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کرنے کیلئے دی جائیں گی، گاڑیاں بنیادی ا سکیل 18تک کے افسران، انسپکٹرز کو سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصولی کیلئے دی جائینگی ،کاروں میں نیویگیشن سسٹم، ریورس کیمرا، ہائی گریڈ
انٹیریئر، چار سال یا 1لاکھ کلومیٹر کی ایکسٹینڈڈ وارنٹی بھی شامل ہیں۔ یہ گاڑیاں جدید فیچرز کے ساتھ فراہم کی جائیں گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایف بی آر نے ان گاڑیوں کی خریداری کیلئے 3ارب روپے کی پیشگی ادائیگی کا اعلان کیا ہے ۔پہلی کھیپ میں500گاڑیوں کی ترسیل مکمل کی جائیگی ۔پہلے مرحلے میں جنوری 2025میں 75 گاڑیاں، فروری 2025میں 200گاڑیاں اور مارچ 2025میں 225گاڑیاں فراہم کی جائینگی۔ دوسرے مرحلے میں اپریل 2025 میں 250گاڑیاں اور مئی 2025میں 260 گاڑیاں فراہم کی جائینگی۔
وہ بڑی مریل سی آواز میں بولا اب بتائو ! جس ملک میںصرف ایک محکمہ حاتم طائی کی قبر لات مارتے ہوئے 3ارب کی عیاشی کرکے ڈکاربھی نہ مارے اسے غیرممالک سے قرض لینے کی کیا ضرورت ہے۔
”ہم کربھی کیا کرسکتے ہیں میں نے جزبز ہوکر جواب دیا اس سے پہلے ارکان ِ اسمبلی اور ججز کی تنخواہوںمیں ہوشربا اضافہ کیا جاچکاہے کوئی ادارہ، کوئی محکمہ یا کوئی شخصیت ٹس سے مس نہیں ہوئی اس ظلم کے خلاف کسی سیاسی جماعت نے احتجاج تک نہیں کیا حالانکہ بیشتر سیاستدانوں اور پارٹی رہنمائوںنے پیٹ میں اکثر غریبوںکی ہمدردی کے مروڑ اٹھتے رہتے ہیں ۔
” اس کا صاف صاف مطلب ہے یہ سب اندر سے ایک ہیں اب ملک کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اس کاسارا بوجھ عام آدمی پر پڑے گا مہنگائی بڑھے گی تو غریب خودکشیاں کریں گے اشرافیہ کے تو مزے ہی مزے ہیں۔
میرے خیال میں۔۔ وہ بولا تو پھر بولتا ہی چلاگیا اس سسٹم کو اب تیزاب سے غسل کی ضرورت ہے۔
” بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ میں نے استفسارکیا وہ گہری سوچ میں پڑ گیا پھر بولا تو پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا پھر توحکمران غیر ممالک کے یہ دورے امداد کے حصول کے لئے نہیں سیر سپاٹوںکے لئے کرتے پھرتے ہیں”۔ یہ واضح اور دوٹوک امر اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہماری قیادت کے تلوں میں تیل نہیں یہ آنیاں جانیاں ادھر ادھر چھلانگیں لگانے کی مثال تو آج کے حکمرانوں پر صادق آتی ہے یہ چھلانگیں ہی ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ترقی کا پیمانہ وجود جمعه 17 جنوری 2025
ترقی کا پیمانہ

طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت وجود جمعه 17 جنوری 2025
طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت

بھارت میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ وجود جمعه 17 جنوری 2025
بھارت میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ

لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا! وجود جمعرات 16 جنوری 2025
لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا!

مسائل کا بہتر حل وجود جمعرات 16 جنوری 2025
مسائل کا بہتر حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر