... loading ...
رفیق پٹیل
بعض مبصّرین کو حیرت ہے کہ آخر بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل سے باہر کیوں نہیں آنا چاہتے ہیں اور چند ماہ خاموش رہ کر دوبارہ وزیراعظم کیوں نہیں بننا چاہتے ہیںاور بار بار کیوں کہتے ہیں کہ میں جیل میں ساری زندگی رہنے کے لیے تیار ہوںلیکن موجودہ نظام کو قبول نہیں کروں گا؟ مبصّرین کو حیرت نہیں ہونی چاہیے عمران خان سمجھتے ہیں کہ آٹھ فروری کو عوام کے مینڈیٹ کو چوری کرلیا گیا تھا اور بعد میں ایک مصنوعی پارلیمنٹ تشکیل دے کر ایسے اقدامات کیے گئے جس سے پورا آئینی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ گیا اورملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے راستے بند کردیے گئے۔ پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت میں بھی خیبر پختون خواہ اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو وقت مقررہ پر نہ کراکے آئین کی خلاف ورزی بھی کی تھی ۔پی ڈی ایم دوران جو قوانین بنائے گئے ہیں اور جو ترامیم کی گئی ہیں موجودہ الیکشن کمیشن اور حکومتی نظام کے جاری رہنے کی صورت میں دہائیوں تک منصفانہ انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے رویّے سے آسانی سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ یہ سمجھ رہے ہیںکہ موجودہ نظام میں انہیں کسی مجبوری کے تحت وزیر اعظم بنابھی دیا گیا تو ان کو بے اختیار کردیا جائے گا۔ وہ وزیر اعظم ہائوس کے قیدی بن کر یا جعلی پروٹوکول لے کر عوام کے لیے معمولی اقدامات کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ آئین اور قانون کی حکمرنی انصاف پر مبنی فلاحی ریاست اور عوام کو خوشحال اور بااختیار بنانے کے کام کا آغاز بھی بانی پی ٹی آئی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اب ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ جیل سے باہر بھی آجائیں کچھ عرصے کے لیے خاموش بھی رہیںتو وہ کسی صورت بھی اسے تسلیم نہیں کریں گے چاہے انہیں عمر قید یا موت کی سزا کیوں نہ دی جائے ؟
بعض دانشور کہلانے والے مبصّرجنہیں ”دانش بند” کہنا زیادہ مناسب ہوسکتا ہے، ان کے خیال میں سیاست میں محض اقتدار اور عہدہ ہی سب کچھ ہے ملک میں طاقت کا سہارا لے کر کئی مارشل لاء لگے ان ” دانش بند ” مبصّرین کی بات سچ مانی جائے تو تمام مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہی سب سے بڑے اورعالی مرتبہ سیاستدان تھے۔ بانی پی ٹی آئی جیل میں رہ کر قومی اور بین الاقوامی سطح پرجس اعلیٰ مرتبے اور مقام کوحاصل کر چکے ہیں اس کے سامنے وزیر اعظم سمیت تمام اعلیٰ عہدیداروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔پی ٹی آئی کے بعض رہنما توموجو دہ نظام کو نیم مارشل لاء کا نظام سمجھتے ہیں ۔ اب اگربانی پی ٹی آئی کو عمر بھر بھی قید میں رکھا جائے یا موت کی سزا دی جائے تو اس سے موجودہ نظام کو ہی شکست ہوگی ۔موجودہ حکمرانوں کے ذاتی ملازمین اور اہل خانہ میں بھی ان کے لیے اچھے جذبات ختم ہو سکتے ہیں جو مبصّر یہ تصّور کیے بیٹھے ہیں کہ اقتدار میں رہ کر مسلم لیگ اور دیگر برسراقتدار جماعتوں کے خلاف عوام کی روز بروز بڑھتی ہوئی نفرت میں کوئی کمی آ سکتی ہے یا دو چار کالجوں اور اسکولوں میں بڑے پیمانے پر حفاظتی اقدامات کا سہارا لے کر تقریر کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کے بارے میں نفرت کے جذبات ختم کرلیں گے ،یہ ایک خوش فہمی پر مبنی حکمت عملی ہے جو حقائق کی عکّاسی نہیں کرتی۔ اگر یہ رہنما متعلقہ درسگاہ سے جانے کے بعد دوسرے دن طالبعلموں کے جذبات سے آگہی حاصل کر تے تو ان کو یہ معلوم ہوتا کہ شاید وہ اپنے لیے نفرت میں مزید اضافہ کرکے چلے گئے ہیں۔ یہ نفرت بڑھتے بڑھتے ان بر سر اقتدار سیاسی جماعتوں کے مکمل خاتمے کا باعث بنے گی۔ آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کو سامنے رکھنا چاہیے جیسے ہی عمران خان کو سزائیں دے دی گئیں ،پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم نہ کیا گیا انہیں انتخابی مہم نہ چلانے دی گئی ،اس کے باوجود مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف جیل میں قید کینسر کی مریضہ بزرگ خاتون ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میںشکست سے دو چار ہو گئے تھے۔ بعد ازاں نتائج میں تبدیلی کے ذریعے انہیں کامیاب قرار دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے مطابق فارم 45 کے مطابق مسلم لیگ کو صرف سترہ نشستیں ملی تھی، جب کہ ایم کیوایم کو ایک نشست بھی نہیں ملی تھی کراچی میں پیپلز پارٹی کو بھی ناکامی کاسامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی لیے وہ فارم 45 پیش کرنے میں ناکام رہے موجودہ نظام کا جاری رہنا تباہی کا باعث بن رہا ہے پورا نظا م زمیںبوس ہورہاہے اس نظام کو جاری رکھنے والوں کی خواہش ہے کہ عمران خان کو فوجی عدالت کے ذریعے عمر قید یا موت کی سزا دے دی جائے اس صورت میں برسراقتدار جماعتیں اس قومی اور بین الاقوامی ردّعمل میں اپنا وجووہی ختم کرلیں گے۔ یہ جماعتیں پہلے ہی عوامی نفرت کا سامنا کررہی ہیںاب وہ دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں اور مالیاتی اداروں کے دبائو میں آجائیں گی۔ اگر ملک میں جمہوری نظام بحال نہ ہوا تو انتہا پسند جماعتوں کو عوام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملے گا جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کرسکتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم پہلے بھی اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کا راستہ بند کیا گیا تو عوام کوئی ایسی راہ اختیار کرسکتے ہیں جو بڑی تباہی کا باعث ہوںگی ۔خود حکومت میں شامل جماعتیںاور بعض طاقتور حلقے کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان کے مدّمقابل مولانافضل الرحمان کو میدان میں اتارا جائے ۔نتیجے میں مولانا ایسے بیانات دے رہے جو دوستانہ نشانہ بازی بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس نشانہ بازی کا نقصان ایک اہم ادارے کو پہنچ رہا ہے۔ حالات ایسے رخ کی طرف بڑھ رہے ہیںجس میں حکمراں جماعتیں بے بس ہیںاور وہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی عوامی سطح پر اپنی ناکامی اور باقی ماندہ مینڈیٹ کے مسلسل خاتمے کامنظر دیکھ کر بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔حکمر اں جماعتوں کے لیے موجودہ مصنوعی اقتدار برقرار رکھنے کے بجائے فوری طور پر پی ٹی آئی سے سمجھوتہ کرنا چاہیے اور واپسی کامحفوظ راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ اقتدار کو طول دینے کی صورت میں حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ عوامی غم و غصّہ خطرناک رخ اختیار کرلے یا کوئی ایسا دبائو جس میں اچانک اقتدار سے علیحدہ ہونے کی نوبت آجائے ،ایسی کیفیت میں مزید رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہتر یہ ہے کہ ملک میں شفاف جمہوری عمل کو بحال کیا جائے ،تاکہ انتہا پسندی کے رجحانات اور دہشت گردی کو عوام کی مد د سے شکست دی جا سکے۔ پاکستان کے عوام کو موقع دیا جائے تو وہ ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں برسراقتدار جماعتیں اپنے مصنوعی اقتدار کو طول دے کر خود اپنے لیے عوامی نفرت میں اضافہ کر رہی ہیں اور عوامی حمایت سے محروم ہورہی ہیں۔مصنوعی نظام کو جاری رکھنے کی وجہ سے اپنا وجود کھو رہی ہیں۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی سے نافذکردہ موجودہ نظام کسی وقت بھی خاتمے کا شکار ہوسکتاہے ۔