... loading ...
ماجرا/محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔
مریم نواز کے یو اے ای کے صدر محمد بن زید النہیان سے مصافحہ کے پس منظر میں نون لیگی دانشوروں کی شرمناک منافقت کو کھوجنے کی کوشش کی تھی کہ آخر یہ اسلام سے اپنی وابستگی کا کوئی معیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟
ہمیںبحث کا یہ مرحلہ ٔ فکر ایک ایسے تناظر سے منسلک کرتا ہے جو پاکستانی معاشرے میں طبقہ اشرافیہ کا پیدا کردہ ہے۔ جس میں اسلام ہی نہیں کفر اور طاغوت کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے تحت استعمال کرنے کی روش ہے۔ ہماری پوری سیاسی جنیالوجی کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ پورا سماج مائل بہ اسلام ہے، اور اس سماج پر گرفت رکھنے والے تمام عناصر، طاقت کے محور کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ طاقت کا محور ایک مخصوص اور چھوٹے طبقہ اشرفیہ کے ہاتھ کی جنبش پر منحصر ہے جو خود کو ریاست کا حصہ نہیں بلکہ خود ریاست تصور کرتا ہے۔ یہ ہولناک طرزِ فکر اسلام پر گزشتہ سات دہائیوں سے حملہ آور ہے اور اس ہولناک طرز ِ فکر کی بھی سب سے بہیمانہ روش یہ ہے کہ خود اہلِ اسلام اس محور کی گردش سے باہر نہیں نکل پارہے۔ کیونکہ یہاں پورے اسلامی ڈسکورس کو جو کنٹرول کرتے ہیں، وہ ذہنی طورپر ہی نہیں مالیاتی طور پر بھی کرپٹ ہیں۔ اس میں مذہبی جماعتوں کے قائدین ہی نہیں علمائے کرام کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ بڑے بڑے اکابرین معمولی طاقت کے چھوٹے چھوٹے بتوں کے آگے سجدہ ریز رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ ذہناً اور قلباً مائل بہ اسلام طبقہ نہیں بلکہ طاقت سے مغلوب ہے اوراُسی جانب کشش رکھتا ہے۔ تقسیم سے قبل استعمار کے سلوک میں ہی اس کی جڑیں پیوست نہیں ۔ بلکہ قدیم برصغیر کی تاریخ میں نسلی اور صلبی کے ساتھ رہن سہن سے لے کر حیات گری کے جملہ محرکات تک اس رویے کے صورت گر ہے۔ جس کے باعث خود سماج کا اپنا کوئی اقدامی شعور نہیں ، بلکہ یہ ایک خاص طبقے کے رہین منت رہتا ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی جب مفتی تقی عثمانی صاحب نے گورنر سندھ کی پوری زندگی کو نظرانداز کرتے ہوئے اُن کی ایک سرگرمی کو حضرت عمرفاروق کی پیروی قرار دے دیا تھا۔ تب گورنر سندھ بھی مسکرا رہے تھے۔یہ مفتی صاحب کی کوئی ٹھوکر نہیں تھی، کوئی فہم کی غلطی نہیں تھی۔ درحقیقت علمائے کرام اسی محور میں زندگی بھر سرٹکراتے رہے ہیں۔ چنانچہ عمر کے اس حصے میں بے نقاب بھی ہو رہے ہیں۔ سوال مفتی صاحب کے طرز ِفکر کا نہیں۔ جس طرح سوال محترمہ مریم نواز صاحب کے مصافحہ کا بھی نہیں۔ درحقیقت اصل نکتہ ہی یہ ہے کہ پورا دایاں بازو اسی طرز ِ فکر کی رکاکت وخباثت میں حیلہ جوئیوں پر آمادہ رہتا ہے۔ یعنی اگر کسی موقع پر کامران ٹیسوری کو طاقت کے مراکز راندۂ درگاہ کرتے ہوئے اپنے نشانے پر لے لیں گے تو اچانک یہی علمائے کرام اس کی مذہبی تاویلیں بھی کرنا شروع کردیں گے۔ جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکمرانی پر عورت کی سربراہی کا اسلامی تناظر بناتے ہوئے کتابیں لکھی گئیں اور بے نظیر بھٹو کے ہاتھ ملانے پر ”غیرت کے جنازے” اُٹھائے گئے۔ مگر مریم نواز کی حکمرانی پر زبانیں گنگ رہیں اور اُن کے یواے ای کے سربراہ سے ہاتھ ملانے پر کوئی ”غیرت” کو خطرہ بھی لاحق نہیں ہوا۔ کیا یہ ایک سادہ مسئلہ ہے؟ مریم نواز پر ہماری تنقید کا یہی ایک نکتہ نہیں کہ محترمہ نیب کی پیشیوں سے بچنے کا یہ حیلہ تراشتی تھی کہ وہاں نامحرم ہوتے ہیں۔ اور اب وہ شیخ زید بن النہیان سے ہاتھ ہی نہیں ملا رہی بلکہ اسے سیاسی طور پر اس طرح استعمال بھی کر رہی ہیں کہ وہ خود اپنی ہی تصویر کو پھیلا کر یہ بھی چاہتی ہیںکہ تحریک انصا ف کا سوشل میڈیا اس پر خوب تنقید کرے تاکہ اس تنقید کو یواے ای کے حکمرانوںکے سامنے عمران خان کے خلا ف استعمال کیا جائے۔ یہ حکمت عملی ظاہر ہے کہ مریم نواز اختیار نہیں کر سکتی ، کوئی بڑا ذہن اس میں صرف ہو رہا ہے جو صرف ایک ذہن نہیں بلکہ اس پورے طرزِ فکر کو ادارتی انداز وتیور سے دہائیوں سے اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی ذیل میں ”مذمت کیوں نہیں کرتے” کی مہم بھی شامل ہے جو ایک بالکل الگ موضوع بننے کے قابل ہے۔ اس تناظرمیں مذہب اور مشرقی روایات کا ڈھنڈورا پیٹنے کا مطلب باقی کیا رہ جاتا ہے۔ مگر ان افراد کی پزیرائی کا تناظر یہی بنایا جاتا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کی بے شمار تحریروں کو ہم چھوڑ دیتے ہیں جو سالہا سال سے اس خاندان کی مشرقی روایات کے جعلی تذکرے سے تعفن زدہ ہیں۔ ذرا سہیل ورائچ کی 17فروری ، 2024 کی ایک تحریر کی چندھیا دینے والی سطریںتو پڑھیں:۔
”شریف خاندان کنزرویٹو روایات کا حامل ہے اب بھی مغرب کے بعد گھرسے باہر رہنے کو اچھا نہیں سمجھا
جاتا۔ اگر کوئی شام کے بعد گھرسے باہر ہو تو نواز شریف خود بار بار فون کرکے اسے کہتے ہیں جلدی گھر آئو۔
ایسے ماحول میں پلی بڑھی مریم کو مردوں کے معاشرے میں کام کرنے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا ہوگا”۔
سہیل ورائچ تو اس طبقے میں شامل نہیں جو بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کا ناک میں دم کیے رکھتے تھے، وہ یہاں کی طرح وہاں بھی ڈھیڑ تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ طبقہ بھی کوئی اور تھا۔ یہ تونواز شریف کے دسترخوان کی برکت ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے (الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی، عرفان صدیقی) ہی نہیں بلکہ انتہائی بائیں بازو کے (بشمول نجم سیٹھی ) بھی ایک ہی گھاٹ سے گھونٹ گھونٹ پانی پیتے (بلکہ بھرتے) نظر آتے ہیں۔ مگر اس طبقے کی پوری بنت میں محض” کشش” کا اثر شامل نہیں بلکہ وہی” طاقت کے محور” میں گردش کا پاپی تصور ہے۔ اس طبقے نے بے نظیر بھٹو کو ایسا ہدف بنایا تھا کہ پنکی کہلانے والی اس الٹرا ماڈرن خاتون نے اپنے بائیں بازو کی حمایت کو نظرانداز کرتے ہوئے ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی۔ حبیب جالب نے ایک موقع پر بے نظیر سے طنزاً کہا تھا کہ”محترمہ ڈارھی بھی رکھ لیتی”۔ سوچئے تنقید کا یہ طوفان کیسا ہوگا؟جس میں اس طبقے کا ہدف بننے والے اپنے تصورات تج کر اور اپنی زندگی چھوڑ کر بالکل الگ زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہونگے؟ ایسی تنقید کرنے والے اپنے تصورات کے ساتھ منافقانہ وابستگی رکھتے ہوں اور اپنے ممدوحین سے اسلامی روایات پر سوال نہ پوچھ سکتے ہوں تو ان کی پہلی ترجیح شریف خاندان، طاقت کی پرستش ہوا یا پھر مذہب اورروایات۔ فیصلہ کر لیجیے!
درحقیقت یہ سارا کھیل شریف خاندان سمیت ایک بڑے کھیل میں حرکت کرتا ہے۔ جو طاقت کے محوری نکتے کے گرد ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ یہ محور ایک محدود طبقہ اشرافیہ کے ہاتھ کی جنبش پر ہے۔ جن کی پولیٹیکل جنیالوجی اسلام دشمن ہے۔ مگر تمام(تمام کا مطلب تمام ہی ہے) اسلامی جماعتیں، علمائے کرام اور سیاسی صوفی اُن سے براہ راست یا بالواسطہ وابستگی رکھتے ہیں۔ بس سب کا اپنے اپنے وقت پر اور ضرورتوں کے تحت استعمال ہوتا ہے۔ یہ طبقہ، اس انگڑ کھنگڑ کو اپنی ضرورتوں کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ البتہ کچھ ایسے بھی لوگ اور جماعتیں ہیںجو خود کو ہر دور کے مطابق تبدیل کرنے پر تیار ہیں۔ نون لیگ اس میں شامل ہے۔ جو مشرقی روایات کو ایک ہاتھ میںرکھتی ہے اور دوسرے سے شیخ زید کا ہاتھ بھی پکڑے رکھتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حافظ طاہر اشرفی سے ملتی جلتی نفسیات ہے۔ یوں مسلم لیگ نون کے کردار کا اختصار طاہر اشرفی ہے اور طاہر اشرفی کا پھیلاؤ نون لیگ کی شکل میں سامنے ہے۔ ان سے ہاتھ ملائیں، یہ ہے مشرقی روایات کاآئینہ دار ، بے مثال خاندان ، شاعر نے جن کے متعلق کہہ رکھا ہے
ساقی و واعظ میں ضد ہے بادہ کش چکر میں ہے
توبہ لب پر اور لب ڈوبا ہوا ساغر میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔