... loading ...
ایم سرور صدیقی
نہ جانے کتنے نفوس ساری زندگی شدید محنت کرتے ہیں حالات نہیں بدلتے، جیسے ہرکوشش عبث ہو ۔یوںلگتاہے جیسے انہوںنے انپے سارے لیل و نہار دائرے میں سفر کرتے گزار دیے ہوں۔ محبت اور محنت سبھی کرتے ہیں لیکن ہردل کو اس کا صلہ کہاں ملتاہے ۔یہی زندگی کا المیہ ہے۔
تاریخ تو یہ کہتی ہے کہ مقاصد کے حصول کیلئے قربانیاں دیناپڑتی ہے کبھی جان،کبھی مال اور کبھی جذبات کی قربانی۔کیونکہ یہی قربانی کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ یہی فلسفہ اجتماعی جدوجہدپر بھی لاگو ہوتاہے۔ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایک بات نتیجے کے طورپر گرہ دے ڈالیں کہ تحریک کبھی ہجوم نہیں چلاسکتے ۔کبھی کبھار وقتی طورپر کچھ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن دیرپا کامیابی کے لئے تخت یا تختہ کااصول سب سے بہترین ہے ۔اس میں کامیابی و ناکامی کا تناسب ففٹی ففٹی ہے۔ مگر جو اپنی کاز کیلئے مخلص ہو یقینا وہی حالات کو تسخیر کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک مثالیں موجود ہیں کہ تحریک کی کامیابی کیلئے قیام ِ پاکستان کے لئے کبھی قائد ِ اعظم محمدعلی جناح جیسی قیادت کی ضرورت پڑتی ہے، کبھی عباسی خلیفہ محمدنے قسطنطنیہ فتح کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا، کبھی قبلہ ٔ اول کی بازیابی کے لئے سلطان صلاح الدین ایوبی بننا پڑتاہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دل میں کھوٹ نہ ہو، مقصد کے حصول کیلئے دل و دماغ ایک دوسرے کے رفیق ہوجائیں، ریاکاری جن کا شعار ہو،مادیت جن کی سوچوںپر غالب آجائے یا پھر لالچ ،کینہ جن کا اڑھنا بچھونا بن جائے ۔جھوٹ جن کی میراث ہو، یا مفادات ہی جن کے مقدرکا ستارہ ہو، وہ کیونکر ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے روح ِ رواں ہوسکتے ہیں۔ سوچئے جوخود سرتاپا آسائشوں اور آلائشوںمیں گم ہوں ،وہ دوسروںکی قیادت کے اہل ہی نہیں ۔ایسے لوگ دوسروں سے قربانیوںکا مطالبہ تو کرتے رہتے ہیں جبکہ مسلم حکمرانوں کیلئے خود کوئی قربانی دینا محال ہے ۔بظاہر ایسا تو نہیں ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہی کچھ ہورہاہے ۔اس وجہ سے ہم مسلمان آج تلک دائرے میں سفر کرتے کرتے تھک گئے ہیں اور ابھی منزل کوسوں دور ہے ۔شاہین اور کرگس کے جہاں میںیہ بنیادی فرق اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن اس سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور حالات اور واقعات کی روشنی میں سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کچھ تعمیری موقف یا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لائی جاسکتی ہے اور آسکتی ہے۔
یہی ہماری بدقسمتی ہے اور شاید تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بھی ۔ایسے المیے قوموںکی زندگی میں وارد ہو جائیں تو کچھ نہیں بچتا۔ نہ جانے کتنے نفوس ساری زندگی شدید محنت کرتے ہیں حالات نہیں بدلتے۔ یوںلگتاہے جیسے انہوںنے انپے سارے لیل و نہار دائرے میں سفر کرتے گزار دئیے ہوں۔ محبت اور محنت سبھی کرتے ہیں لیکن تھک کر ،حالات کے جبر یا مایوسی کا شکار ہوکر جدوجہد ترک کرنے والوںکا نشان تک نہیں ملتا یہ بات تاریخی اعتبار سے ماننا پڑے گی کہ قوموںکا نصیب ایک فقط ایک فرد بدل کر رکھ دیتاہے جیسے کسی گھرانے میں ایک بچہ قابل نکل آئے تووہ پورے خاندان کی محرومیاں ختم کرکے رکھ دیتاہے ۔
رہنمائوںکے ہجوم میںقیادت کا حق صرف اسی کو ہے جس کی ذات لوگوںکیلئے محترم ،معتبر ہو کبھی غورکریں ۔وہ اس مہذب ترین معاشرے میں دن بہ دن تنزل پذیر کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے لیکن ہم تو سوچنے سے بھی عاری ہیں اس کی بنیادی وجہ ہر کوئی اپنے لئے آسوگیاںتلاش کرتا پھررہاہے عام آدمی ہو یا کوئی مذ ہبی رہنما ،سیاستدان ہو یا سماج کا کوئی ٹھیکیدار اکثر و بیشتر دکانداری کرتے پھررہے ہیں جیسے روپہ پیسہ ایمان بن کررہ گیاہو۔ آج کے دور میں جائز ناجائز برابرہوگیاہے۔ یوںلگتاہے ہم سب چابی والے کھلونے ہوں۔ اس بھری دنیا میںاب تو کوئی کسی پر اعتبارکرتاہے نہ اعتماد۔ اس ماحول میں اجتماعی طورپر سماجی برائیوںکے خلاف تحریک کون چلائے گا؟ خوف ہے اگر چابی والے کھلونے چابی ختم ہونے پر دائرے میں سفر کرتے کرتے منہ کے بل دھڑام سے گر پڑے انہیں کون اٹھائے گا؟ اسی بناء پر آنے والی نسلیں اداس اور اپنے مستقبل سے خوفزدہ ہیں۔ نہ جانے کتنے دردر دل رکھنے والے یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دکاندار ہیں تو ہمارے آنے والی نسلوںکا مستقبل کیاہے؟ کان گوش برآواز ہیں ،آنکھیں راہ تک تک کر تھک گئیں ہیں کسی کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی دور دور تلک کوئی ہیولہ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔اے خدا اپنے حبیب پاک ۖ کے صدقے مسلمانوںکو اس دائرے کے سفر سے عافیت عطاکر تاکہ دنیا کی طلسم ِ ہوشربا سے آزادی نصیب ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔