... loading ...
جاوید محمود
پاکستان 1947 سے آج تک بڑی طاقتوں بیساکھیوں پر چلتا رہا ہے۔ کبھی آئی ایم ایف اپنے مفاد کے لیے پاکستان کو آنکھیں دکھاتا ہے چونکہ وہ پاکستان کو جب قرض دیتا ہے تو اپنی پالیسی بھی پاکستان پر تھونپتا ہے ،کبھی پاکستان کو ورلڈ بینک ڈانٹ دیتا ہے تو کبھی اقوام متحدہ ہدایات دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان آج تک اپنے قدموں پہ کھڑا نہیں ہو سکا۔ اس کا ذمہ دار صرف سیاست دانوں کو ٹھہرانا زیادتی ہوگی۔ اس میں پاکستان کے تمام اداروں پر کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اب بھی وقت ہے پاکستان کو اپنی سمت کو درست کرنا ہوگا۔ تصور کریں 12دسمبر1971کو جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس دوبارہ بلایا گیا تو اندرا گاندھی نے پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے ذوالفقار علی بھٹواقوام متحدہ میں امریکی نمائندے جار بش سینئر کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیر خارجہ سورن سنگھ کو بھیجا ۔سورن سنگھ نے پاکستان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا مسٹربھٹو ابھی تک انڈیا پر جیت حاصل کرنے اور دہلی پہنچنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔گہری بیس نے اپنی کتاب دی بلڈ ٹیلی گراف میں لکھا ہے کہ جب بش نے رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجرکی ہدایت پر لڑائی میں انڈیا کے ارادوں کے بارے میں پوچھا تو سورن سنگھ نے بدلے میں ان سے پوچھ لیا کہ ویتنام میں امریکی ارادے کیا ہیں؟ سوویت یونین نے تیسری اور آخری بار سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قراردادوں پر ویٹو کرتے ہوئے انڈیا کو بچایا۔ اس پر کسنجرسے اس قدر پریشان ہوئے کہ انہوں نے نکسن سے پوچھے بغیر سوویت یونین کے ساتھ ہونے والی سربراہی کانفرنس منسوخ کرنے کی دھمکی دے ڈالی، جب انڈیا پاکستان اور امریکہ کے سفارت کار ایک دوسرے کی توہین کرنے پر تلے ہوئے تھے، نکسن اور کسنجر نے فیصلہ کیا کہ وہ مشرقی پاکستان سے امریکی شہریوں کے انخلا کے بہانے امریکی بحری بیڑے کو فوری طور پر خلیج بنگال کی طرف روانہ کریں گے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک دن پہلے ہی تمام امریکی شہریوں کو ڈھاکہ سے نکالا جا چکا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ڈی کلاسیفائڈٹیپوں میں کہا گیا تھا کہ کسنجر نے بھٹو کو آگاہ کیا تھا کہ امریکی جنگی جہاز جلد ہی خلیج ملاکا سے نکل کر خلیج بنگال میں داخل ہو جائیں گے۔ نکسن نے پرزور انداز میں یہ بھی کہا کہ جب تک انڈین فوجوں کے انخلا کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، وہ انڈیا کی طرف بڑھتے رہیں گے ،جوہری توانائی سے چلنے والے امریکہ کے ساتویں جنگی بیڑے انٹر پرائز میں سات تباہ کن طیارے ایک ہیلی کاپٹر کیریئر یو ایس ایس ترپیولی اور ایک تیل کیریئر شامل تھا۔ اس کی کمان ایڈمرل جان مکین جونیئر نے سنبھال رکھی تھی۔ بلڈ ٹیلیگرام کے مصنف گہری بیس لکھتے ہیں کہ امریکی بیڑا انڈیا کے بحری بیڑے سے کہیں زیادہ بڑا تھا ۔انٹرپرائز نے میزائل بحران کے دوران کیوبا کا محاصرہ کیا۔ وہ انڈیا کے واحد طیارہ بردار جہاز ائی این ایس وکرانت سے کم از کم پانچ گنا بڑا تھا۔ یہاں تک کہ انٹرپرائز کے بیڑے میں شامل کرپیولی بھی کرانت سے بڑا تھا جوہری توانائی سے چلنے والا انٹرپرائز بغیر دوبارہ ایندھن بھرے پوری دنیا کا چکر لگا سکتا تھا ۔دوسری طرف وکرانت کے بوائلز بھی بہتر طور پر کام نہیں کر رہے تھے ۔
ایڈمرل ایس ایم نندا نے اپنی سوانح عمری دی مین وہو بامڈ کراچی میں لکھا دسمبر کے پہلے ہفتے میں بھی سوویت یونین کا ایک تباہ کن اور بارودی سرنگ صاف کرنے والا بیڑا خلیج ملا کا سے اس علاقے میں پہنچ چکا تھا۔ سوویت بحری بیڑا اس وقت تک امریکی بیڑے کے پیچھے لگا رہا جب تک جنوری 1972 کے پہلے ہفتے میں وہ وہاں سے چلا نہیں گیا ۔بہت دنوں بعد انٹرپرائز کے کیپٹن ایڈبرل جمولاٹ نومبر 1989 میں یونائیٹڈ سروس انسٹیٹیوٹ میں تقریر کرنے آئے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ بحر ہند میں ساتویں بحری بیڑے کو بھیجنے کا مقصد کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں یہ واضح نہیں کہا گیا تھا کہ ان کا مشن کیا ہے ،سوائے اس کے کہ شاید امریکہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ ہم مصیبت کے وقت دوست کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے ۔ایڈمرل جمووالٹ نے کسنجر سے یہ بھی پوچھا تھا کہ اگر اسے انڈین بحری جہاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں کیا کرنا ہوگا۔ اس کے جواب میں کسنجر کا جواب تھا کہ یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے ۔اسی دوران اندرا گاندھی نے دہلی کے رام لیلہ میدان میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا جب اندرا گاندھی کی تقریر جاری تھی انڈین فضائیہ کا طیارہ جلسہ گاہ کے اوپر منڈلا رہا تھا تاکہ پاکستان کا کوئی طیارہ اس جلسہ عام کو نشانہ نہ بنائے۔ اس جلسے میں امریکہ اور چین کا نام لیے بغیر اندرا گاندھی نے کہا کہ کچھ بیرونی طاقتیں ہمیں دھمکیاں دینے کی کوشش کر رہی ہیں جن کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ یہ تقریر اتنی اشتعال انگیز تھی کہ یہ بعد میں ان کے پریس آفس نے اس کے کچھ حصے کو اس کی تحریر شکل سے ہٹا دیا تھا۔ اسی دوران جب یحییٰ خان کو معلوم ہوا کہ ساتواں امریکی بیڑا خلیج بنگال کی طرف بڑھ رہا ہے تو انہوں نے نکسن سے گزارش کی کہ اسے کراچی کی حفاظت کے لیے بھیجا جائے ۔پیٹرک مونہان اپنی کتاب ایسٹریٹ ڈیموکریسز انڈیا اینڈ دی یونائٹڈ سٹیٹس میں لکھتے ہیں کہ یہ تاثر دینے کے باوجود کہ وہ کسی بھی وقت انڈیا سے لڑائی شروع کر سکتے ہیں، نکسن کا کسی بھی بحری جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ انٹرپرائز کو بہانے کے طور پر استعمال کر رہے تھے تاکہ سویت یونین انڈیا کو جنگ بندی پر مجبور کرے ذاتی طور پر کسنجر کہا کرتے تھے کہ ان کا فوجی حیثیت سے اس لڑائی میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ دوسری جانب نیول انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ایڈمرل مہر رائے نے اندرا گاندھی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ ساتواں بحری بیڑا انڈیا پر حملہ کر سکتا ہے لیکن ویتنام کی جنگ کی وجہ سے اس کا امکان نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ انڈین بحریہ کے ذریعے پاکستان کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔انڈین قیادت کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ویتنام میں پھنسے امریکہ کے لیے انڈیا کے خلاف جنگ میں اپنی فوج بھیجنا تقریبا ناممکن تھا۔ اندرا گاندھی نے بعد میں اطالوی صحافی اوریانہ فلاچی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا اگر امریکیوں نے ایک بھی گولی چلائی ہوتی یا امریکی خلیج بنگال میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی اور کام کرتے تو تیسری جنگ عظیم شروع ہو سکتی تھی۔ لیکن میں آپ کو سچ بتاؤں کہ ایک بار بھی میرے ذہن میں یہ خوف پیدا نہیں ہوا اس کے باوجود انڈیا نے سوویت یونین سے کہا کہ وہ امریکہ کو متنبہ کرے کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کے مہلک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کے برعکس امریکہ سے یہ خبریں لیک کرائی جا رہی تھیں کہ مشرقی پاکستان کے ساحل میں گھسنے کے لیے ایک ٹاسک فور تشکیل دے دی گئی ہے جس میں تین میرین بٹا لینزکو تیار رہنے کو کہا گیا ہے اورنکسن نے ضرورت پڑنے پر انٹرپرائز کے بمباروں کو انڈیا کے مواصلاتی مراکز پر بمباری کی اجازت دے دی ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر انڈین سفیر اس قدر پریشان ہوئے کہ انہوں نے امریکی ٹیلی ویژن پر نکسن انتظامیہ کے ارادوں کو خوب برا بھلا کہا، بعد میں منظر عام پر آنے والے وائٹ ہاؤس ٹیپس سے پتہ چلتا ہے کہ نکسن اور کسنجر دونوں ہی انڈیا کو اس طرح ہراساں کرنے میں کافی لطف اندوز ہو رہے تھے ۔اس سب کے باوجود امریکی بیڑا چٹاگانگ سے تقریبا ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر رہا ۔پینٹاگون نے اعتراف کیا کہ اس علاقے میں چار پانچ سوویت بحری جہاز موجود تھے۔ لیکن انٹرپرائز کو نہ تو ان کا سامنا کرنا پڑا، اور نہ ہی کوئی انڈین یا پاکستانی بحری جہاز کا سامنا کرنا پڑا ۔روسی بیڑے میں ایک تباہ کن طیارہ کروز اور دو جارحانہ آب دوزیں تھیں اور اس کی کمان ایڈمرل ولادیمیر کو گلیا کوف کے پاس تھی ۔سابق انڈین سفارت کار اندوہی گوش نے بعد میں کہا کہ ان دنوں کلکتہ میں یہ افواہیں تھیں کہ امریکی وہاں بم گرائیں گے، ہم مذاقا کہتے تھے گرانے دو ہمیں اس بہانے سے کلکتہ کو نیا روپ دینے کا موقع ملے گا ۔اگر انٹرپرائز بغیر رکے چلتا تو وہ 16 دسمبر کی صبح مشرقی پاکستان کی ساحل پر پہنچ سکتا تھا لیکن اس سے ایک روز قبل پاکستانی فوجی سربراہ جنرل نیازی نے جنرل مانیکشا کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ جنگ بندی چاہتے ہیں۔ انڈیا میں اس کی یہ تشریح کی گئی کہ پاکستان ہتھیار ڈالنے کو تیار ہے، جیسے ہی پاکستان نے ہتھیار ڈالے۔ انٹرپرائز نے مشرقی پاکستان سے سری لنکا کی جانب اپنا رخ موڑ دیا۔
اب بھی وقت ہے ہمیں بڑی طاقتوں سے زیادہ امید نہیں لگانی چاہیے بلکہ زندہ قوم کی طرح اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے اپنی تمام توانائی اور صلاحیتوں کو خرچ کرنا چاہیے۔ ہمارے لیے چین سنگاپور اور دیگر بہت سے ممالک ہیں جو پاکستان کے بعد آزاد ہوئے اور آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ آج ملک میں جو سیاسی بحران ہے وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں۔ بھارت کے مکروہ ارادے ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان اور افغانستان کے بارڈر کے قریب آئے دن دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سب کو آنکھیں کھولنی ہونگیں، اگر ہم ملک کی بقا و سلامتی چاہتے ہیں۔