... loading ...
سمیع اللہ ملک
پانچ سال قبل تین جنوری کوٹرمپ ہی کی صدارت کے دوران قاسم سلیمانی کوامریکی فوج نے بغدادمیں ہلاک کردیاتھا۔قاسم سلیمانی ایران کی قدس فورس کے کمانڈرتھے جو پاسداران انقلاب کی وہ شاخ ہے جوغیرملکی سرزمین پرکاروائیاں کرتی ہے۔قاسم سلیمانی خطے میں ایرانی اثرورسوخ اورعسکری حکمت عملی کی بنیادرکھنے والوں میں شامل تھے۔3 جنوری2020کوامریکی ڈرون سے ان کونشانہ بنائے جانے سے تین ماہ قبل قاسم سلیمانی نے پاسداران انقلاب کے کمانڈرزسے ایک خفیہ خطاب میں مزاحمت کے اتحادمیں کامیاب اورناقابل شکست وسعت کی بات بھی کی تھی۔ایسامحسوس ہوتاہے جیسے قاسم سلیمانی اپنی موت کی توقع رکھتے تھے اورقدس فورس کی سربراہی کی دودہائیوں پرایک رپورٹ پیش کرناچاہتے تھے۔انہوں نے اس خطاب میں کامیابیوں کوذکرکرتے ہوئے کہاتھاکہ”پاسداران انقلاب نے معیار اور مقدارکے حساب سے مزاحمت تیارکی ہے،جنوبی لبنان میں دوہزارسکوائرکلومیٹرکے علاقے سے پانچ لاکھ سکوائرکلومیٹرتک وسعت دی ہے۔ مزاحمت کے بیچ زمینی کامیاب رابطہ قائم ہوگیاہے،یعنی ایران کوعراق،عراق کوشام،اورشام کولبنان سے جوڑدیاگیا۔آج آپ تہران سے اپنی گاڑی میں روانہ ہوکربیروت کے جنوبی مضافات تک پہنچ سکتے ہیں”۔مزاحمت کے اس اتحادکوقاسم سلیمانی کی اہم کامیابی کے طورپردیکھاگیالیکن گزشتہ ایک سال میں اس اتحاد کوشدیددھچکا پہنچاہے اوریہ تکبرحالات کے ہاتھوں چکناچورہوگیا۔
خطے میں ایرانی اثرورسوخ میں وسعت1980کے اوائل میں شروع ہوئی جب تہران نے لبنان میں امریکااوراسرائیل کے خلاف حزب اللہ کے قیام میں مددفراہم کی۔بعدازاں خطے میں عدم استحکام کی وجہ سے امریکانے2003میں عراق پرحملہ کیااور2011 میں عرب دنیامیں عدم استحکام کے بعددولت اسلامیہ جیساانتہاپسندگروہ سامنے آیاتوایران کو اپنا اثرورسوخ بڑھانے کاموقع مل گیا۔ شام میں پاسداران انقلاب کوبھیجنااورعراق سمیت لبنان میں عسکری گروہوں کی وجہ سے ایران کی سرحد سے لبنان تک ایک زمینی اورعلاقائی رابطہ قائم ہوگیاجواسرائیل کی سرحدتک پہنچتاتھا۔
2003میں عراق پرامریکی حملے سے قبل ایساعلاقائی اتحادممکن نہیں تھا۔عراق جنگ نے ایران کواس قابل بنایاکہ وہ نکتوں کو جوڑ سکے، عراق،شام اوروہاں سے لبنان تک راستہ بنا سکے۔یہ بہت اہم تھاکیوںکہ لبنان میں حزب اللہ خطے میں ایران کاسب سے اہم اتحادی تھا۔ دوسری جانب یمن میں خانہ جنگی کی وجہ سے متعددشہر ان باغیوں کے قبضے میں چلے گئے جوایران کے قریب تھے ۔حالیہ برسوں کے دوران مزاحمت کااتحادشیعہ اورچندسنی گروہوں کے درمیان اتحادکی علامت بھی بن گیا،جیساکہ حماس اور اسلامی جہاد،جس کا مقصد مشرق وسطی میں مغربی اوراسرائیلی اثرورسوخ کوروکناتھا۔یہ اتحادجس میں حزب اللہ،عراق کے عسکری گروہ،یمن کے حوثی باغی،شام میں بشارالاسدکی حکومت شامل تھے، ایران کے ہاتھ میں ایک طاقتورہتھیاربن گیا۔اس اتحاد کی غیرموجودگی میں ممکن ہے کہ بشارالاسدکی حکومت بہت پہلے ہی گرجاتی،یوں اس اتحادنے اسرائیل کے گرد”آتشیں گھیرا”قائم کرلیا۔ادھرامریکاکی عراق اورافغانستان میں جنگوں نے تہران کی پوزیشن اورمزاحمت کے اتحادکومزید مضبوط کردیا۔
ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران امریکی قومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن کے مطابق”ایران نے کامیابی سے اتحادکووسعت دیتے ہوئے اپنی عسکری طاقت بھی بڑھائی”۔ان کے مطابق”ایران نے مزاحمت کے اتحادکوقائم کرتے ہوئے،جسے قاسم سلیمانی اسرائیل کے گرد”رنگ آف فائر”کی حکمت عملی کانام دیتے تھے،بہت سنجیدہ کام تھا۔انہوں نے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کی جس کاآغازلبنان میں حزب اللہ سے ہوا۔ایران کاجوہری اوربیلسٹک میزائل پروگرام بھی دیکھیں توانہوں نے کافی اہم کامیابیاں حاصل کیں”۔
پانچ سال قبل ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیکرایرانی مزاحمت کے اتحادکے زوال کی بنیاد ڈال دی۔اب جب ٹرمپ ایک بار پھروائٹ ہاس میں لوٹ رہے ہیں توایران دو دہائیوں میں خطے میں سب سے کمزورحالت میں ہے۔ٹرمپ نے اپنے گزشتہ صدارتی دور میں ایران پرکافی دباڈالاجس میں سخت پابندیوں کی بحالی سمیت جوہری معاہدے سے دستبرداری بھی شامل تھی۔ گزشتہ سات سال میں ان پابندیوں نے ایران پرمعاشی دبامیں اضافہ کیاہے۔قاسم سلیمانی کی موت اوراس دباؤکی وجہ سے ہی ایران کاکردارکمزورہوا۔
تاہم 7/اکتوبر2023کوحماس کے اسرائیل پرحملے کے بعدمزیدمسائل پیداہوگئے۔حماس کے رہنماں کی ہلاکت اورغزہ میں حماس کی عسکری طاقت میں کمی کے ساتھ ساتھ بیروت میں حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ سمیت متعددکمانڈرزکی ہلاکت نے اسرائیل کے خلاف ایرانی صلاحیتوں کوگہری چوٹ پہنچائی ہے۔خطے میں ایران کے سب سے مضبوط اورطاقتوربازوحزب اللہ کی عسکری مشینری کوچوٹ پہنچنے سیخطے میں اسرائیل کاپلڑابھاری ہوگیاہے۔بہت سال تک حزب اللہ نے خودکومزاحمت کے اتحاد کے سب سے طاقتوررکن کے طورپرمنوارکھاتھا۔اب ہم ایک ایسی صورت حال دیکھ رہے ہیں جس میں اس اتحادکے باقی رہنے کی بحث ہورہی ہے جوحیران کن ہے۔
مزاحمت کے اتحادنے طاقت کاپلڑاایران کے حق میں کردیاتھا لیکن اب صورتحال یکسربدل چکی ہے۔دوسری جانب شام میں بشار الاسدکی حکومت کے خاتمے،جسے”مزاحمت کے خیمے کااہم ستون”قراردیاجاتاتھا،نے اس ایرانی اتحادکوناقابل یقین چوٹ پہنچائی ہے۔بشارالاسدکی حکومت کاخاتمہ،جس کی کسی کوتوقع نہیں تھی،ایران کیلئے بہت بڑی چوٹ ہے،اس میں کوئی شک نہیں،حزب اللہ کوبھی اس سے نقصان ہواکیونکہ اب میزائل،اسلحہ اوردیگرسامان،جوایران سے پہنچتاتھا،نہیں پہنچ سکے گاتوحزب اللہ،جواسرائیل کی جانب سے شدیددباؤکاسامناکررہی ہے،اب رسدکے مسائل کابھی شکارہے۔
ایرانی اتحاد کے بہت سے رہنمانہیں رہے اورزمینی رابطے بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ ایسے میں ایران کومشکل صورت حال کاسامنا ہے۔عراق میں چندعسکری گروہوں کے علاوہ اس وقت یمنی حوثی باغی ہی خطے میں باقی بچے ہیں لیکن وہ بھی امریکااور اسرائیل کے حملوں کی زدمیں ہیں۔ ایران کی جانب سے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری اورلاکھوں افرادکاخون بہنے کے باوجودخطے میں ایک زمانے میں طاقتورسمجھاجانے والا اتحاداب غیرمعمولی مشکلات کی زدمیں ہے۔ادھردوسری طرف ٹرمپ کی واپسی سے ایسالگتاہے کہ اگرایران اورامریکاکے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہواتوشاید وائٹ ہاس اپنی توجہ چین اورعراق کی جانب کردے گا تاکہ ایران کوتیل سے حاصل ہونے والامنافع بھی نہ مل سکے۔
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پرایران کے رہبراعلی آیت علی خامنہ ای نے دسمبرمیں کہاتھاکہ”مزاحمت پرجتنادباؤڈلے گا،یہ اتنا پرعزم ہوگا۔ مزاحمت کااتحادپہلے سے زیادہ پھیلے گا”۔ان کابیان اس بات کاعندیہ ہے کہ ایران اس اتحادکوازسرنوبحال کرنے اور اپنے کھوئے ہوئے رابطے دوبارہ قائم کرنے میں سنجیدہ ہے۔اسرائیلی فوج کے سابق انٹیلیجنس افسر ابراہیم لیون کے مطابق “مزاحمت کے اتحادمیں بدلے کاعزم عروج پرہے۔شام کھودینے کے باوجودایران رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا،شاید موجودہ رہنماسے رابطہ قائم کرکے، شام کی زمین کواستعمال کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔مشرق وسطی میں حالیہ صورت حال سیاسی جدت کیلئے اہم ہے۔ شاید اسرائیل اورفلسطین کا تنازع حل کرنے کاایک موقع ہے۔سیاست دانوں کوچاہیے اس وقت کواستعمال کریں،جنگ کے نتائج کاجائزہ لیں اورخطے میں بہترمستقبل کیلئے متبادل راستوں پرغورکریں۔
یاد رہے کہ ایران اوراسرائیل دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے عسکری اہداف پرکامیاب حملوں کادعویٰ توکیامگریہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکاکہ فریقین کے نقصان کی حدکیاہے اورکہاں کہاں ان کونشانہ بنایاگیاہے۔دونوں فریق حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کابھی دعوی توکرتے ہیں لیکن عالمی میڈیاکوان علاقوں سے کوسوں دور رکھا جارہاہے اورکسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں مل رہی کہ سچائی سامنے آسکے تاہم ایران کی فضائی دفاعی افواج نے ایک بیان میں کہاہے کہ اسرائیل نے تہران،خوزستان اورایلام صوبوں میں اس کے فوجی اڈوں پرحملے کیے ہیں جس کاکامیابی سے مقابلہ کیاگیالیکن کچھ مقامات پرمحدودنقصان ہواہے لیکن اسرائیل نے ابھی تک اپنے نقصان کی بھنک تک نہیں پڑنے دی۔اس صورتحال میں دونوں ملک اپنی اپنی جگہ پربظاہریہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں توسوال یہ ہے کہ آخران میں سے عسکری اعتبارسے زیادہ طاقتورکون ہے؟
ایران اوراسرائیل کے درمیان تقریبا2152کلومیٹرکازمینی فاصلہ ہے اورایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچاکریہ توثابت کردیاہے کہ جس میزائل پروگرام پروہ کافی عرصے سے کام کررہاہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ایران کے میزائل پروگرام کومشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑااورمتنوع سمجھاجاتاہے۔2022میں امریکی سینٹرل کمانڈکے جنرل کینتھ میکنزی نے کہاتھاکہ ایران کے پاس3000سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں۔دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطی میں اگرکسی ملک کے پاس جدیدترین میزائلوں کاذخیرہ ہے تووہ اسرائیل ہے۔
میزائلوں کایہ ذخیرہ اس نے گزشتہ چھ دہائیوں میں امریکاسمیت دیگردوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یااپنے طورپرملک ہی میں تیارکیے ہیں۔سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کئی ملکوں کومیزائل برآمدبھی کرتا ہے۔ اسرائیل کے مشہورمیزائلوں میں ڈیلائلا،جبریئل،ہارپون،چریکو1،جریکو2، جریکو3، لورااورپوپیئی شامل ہیں لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کاآئرن ڈوم سسٹم ہے جوکہ کسی بھی قسم کے میزائل یاڈرون حملے کوبروقت روکنے کی صلاحیت رکھتاہے۔غزہ سے حماس اورلبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کومتواترفضامیں ہی تباہ کرکے وہ آج تک اپنالوہامنواتارہاہے۔اسرائیلی میزائیل ڈیفنس انجینئراوزی روبن کے مطابق آئرن ڈوم کی طرح کادنیامیں کوئی اوردفاعی نظام نہیں اوریہ بہت کارآمدشارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران،اسرائیل سے بہت زیادہ بڑاملک ہے اوراس کی آبادی اسرائیل سے دس گنازیادہ ہے لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگاناقطعی درست نہیں ہوگاکہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتورملک ہے۔اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مدمیں خرچ کرتاہے اوراس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔اگرایران کادفاعی بجٹ 10ارب ڈالرکے قریب ہے تواس کے مقابلے میں اسرائیل کابجٹ24ارب ڈالرسے ذرازیادہ ہے۔جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضرسروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباچھ گنازیادہ ہیں۔ایران کے فعال فوجیوں کی تعدادچھ لاکھ دس ہزارجبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعدادایک لاکھ سترہزارہے۔
اسرائیل کے پاس جس چیزکی برتری ہے وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اوربہترین جدیدطیاروں سے لیس فضائیہ ہے۔اس کے پاس 241 لڑاکاطیارے اور48تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹرہیں جبکہ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد186ہے اوراس کے بیڑے میں صرف13جنگی ہیلی کاپٹرہیں۔دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کامظاہرہ تونہیں کیالیکن اگرچہ وہ جدیدبنیادوں پرنہ بھی ہو،پھربھی ایران کی بحری فوج کے پاس101جہازجبکہ اسرائیل کے پاس67ہیں۔ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعدسے اپنے میزائل سسٹم اورڈرونزپرزیادہ کام کیااورشارٹ اورلانگ رینج میزائل اورڈرونز بنائے جومبینہ طورپراس نے مشرقِ وسطی میں اپنے حریفوں کوبھی مہیاکیے ہیں۔حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھاکہ وہ ایرانی ساخت کے تھے۔ایران کے میزائلوں میں شہاب ون میزائل ہے جس کی رینج تین سوکلومیٹرہے جبکہ اسی کادوسراورژن شہاب ٹو500کلومیٹرتک مارکرسکتاہے۔شہاب سیریزکاتیسرامیزائل شہاب3دو ہزارکلومیٹرتک مارکرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں700کلومیٹرتک مارکرنے والا ذوالفقار،750 کلومیٹرتک مارکرنے والاقائم1بھی شامل ہیں۔ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح-110ہائپرسونک میزائل ہیں جو 300سے 500کلومیٹرتک ہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی ادارے پیس انسٹیٹیوٹ کے مطابق مشرق وسطی میں ایران کے پاس سب سے بڑااورمتنوع بیلسٹک میزائلوں کاذخیرہ موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایران خطے کاواحدملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیارتونہیں لیکن اس کے بیلسٹک میزائل دوہزار کلو میٹرکے فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ بیلسٹک ٹیکنالوجی تودوسری عالمی جنگ کے وقت بن چکی تھی،تاہم دنیامیں صرف چندہی ممالک کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود اس ٹیکنالوجی کی مددسے بیلسٹک میزائل بناسکیں۔
ایران نے گزشتہ دودہائیوں کے دوران شدیدنوعیت کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی حاصل بھی کی اوربیلسٹک میزائل بھی تیارکیے۔ایرانی رہبر اعلیٰ نے حال ہی میں ایک خطاب میں کہاتھاکہ جس عسکری اورمیزائل پروگرام سے مغرب پریشان ہے،وہ سب پابندیوں کے دوران بنا۔2006میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قراردارمنظورکی جس کے تحت کسی بھی قسم کی جوہری ٹیکنالوجی یا مواد کی ایران کوفروخت پرپابندی عائدکردی گئی۔اس میں ایساسامان بھی شامل تھاجسے کسی اورمقصدکے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کیلئے بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔تین ہی ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک اورقرارداد میں ایران سے روایتی ہتھیاروں یااسلحہ کی لین دین پربھی مکمل پابندی لگادی جس میں عسکری ٹیکنالوجی بھی شامل تھی۔اس قراردادکے تحت لگنے والی پابندیوں کی زدمیں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام بھی آیا۔ایسے میں ایران کیلئیروس اورچین جیسے ممالک سے بھی اسلحہ خریدناآسان نہ رہا جن سے وہ عراق جنگ کے وقت سے سامان خریدرہاتھا۔
بیلسٹک میزائل جوہری وارہیڈ(یعنی جوہری ہتھیار)لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورمغربی ممالک کے مطابق چونکہ ایران نے
بیلسٹک ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے اس لیے وہ جوہری توانائی کے حصول اورجوہری ہتھیار بنانے کیلئے ضروری سطح تک یورینیم کو افزودہ کرنے کی کوئی کوشش ترک نہیں کرے گا۔جولائی 2015 میں ایران اورچھ عالمی طاقتوں کے درمیان مشترکہ جامع پلان آف ایکشن معاہدے کے اختتام اورپھرقرارداد2231کی منظوری کے بعد،ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام پابندیاں ہٹادی گئیں۔ تاہم’ ‘ٹرگر/ سنیپ بیک میکانزم”کے نام سے جانی جانے والی شق نے ہتھیاروں کی پابندیوں کوبرقراررکھاجس کے تحت خاص طور پرپانچ سال تک ایران کے میزائل پروگرام کی نگرانی ہونی تھی۔یہ ایران پردباؤڈالنے اوراس کے میزائل پروگرام کوکنٹرول کرنے کاایک حربہ تھا۔
تاہم ایران نے اپنامیزائل پروگرام اس حد تک بڑھایاکہ مارچ 2016میں امریکا،برطانیہ،فرانس اورجرمنی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ایک مشترکہ خط لکھتے ہوئے ایران پرمیزائل تجربات کرنے کاالزام لگایااورکہاکہ اس نے”جے سی پی او اے”معاہدے کے بعد سلامتی کونسل کی قرارداد2231کی خلاف ورزی کی ہے۔بالآخر2020میں ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کافیصلہ کیا۔ امریکاکے اس معاہدے سے دستبرداری کی ایک وجہ ایران کے میزائل پروگرام کے خطرے سے نمٹنے اوراس پروگرام کامعائنہ اورتصدیق کرنے کیلئیدرکارطریق کارکی کمی تھی۔اگرچہ ایران نے یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی کہ وہ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کاحصہ ہے لیکن قرارداد2231میں طے شدہ ڈیڈ لائن کے خاتمے کے ساتھ ہی،ایرانی حکومت نے اکتوبر2021میں روس اورچین سے ہتھیاروں کی خریداری کیلئے اشتہارات دیے لیکن پابندیاں ابھی تک برقرارہیں اورانہوں نے ایران کواب تک اس خواہش کے حصول سے باز رکھا ہے۔
ایران اس وقت 50سے زیادہ قسم کے راکٹ،بیلسٹک اورکروزمیزائلوں کے ساتھ ساتھ عسکری ڈرونزتیارکرتاہے،جن میں سے کچھ روس اوریوکرین کی جنگ جیسے عالمی تنازعات میں استعمال بھی ہوئے ہیں۔ایران،عراق جنگ کے دوران ایران کے توپ خانے کی مار کرنے کی حد35کلومیٹرتھی جبکہ عراقی فوج کے پاس300کلومیٹرتک مارکرنے والے”سکِڈ بی”بیلسٹک میزائل تھے،جو ایران کے اندر مختلف شہروں کونشانہ بناتے تھے۔جب عراقی فوج نے میزائل حملوں کی بنیاد پربرتری حاصل کی توایران نے بھی میزائل استعمال کرنے کا سوچااوراس وقت رہبر روح اللہ خمینی نے عراق کے میزائل حملوں کامقابلہ کرنے کی اجازت دی۔اسی سلسلے میں نومبر1984میں حسن تہرانی مقدم کی سربراہی میں”پاسدرانِ انقلاب میزائل کمانڈ”کاآغازکیاگیا۔ایران نے1985میں پہلی بارلیبیاسے روسی ساختہ”سکڈ بی” میزائل خریدے اور30میزائلوں کی کھیپ کے ساتھ ہی لیبیاسے تکنیکی مددکیلئے مشیربھی ایران آئے اورایران کامیزائل آپریشن ان کی مدد سے ہی سرانجام پایا۔
اس وقت پاسدارنِ انقلاب کی ایروسپیس فورس کے کمانڈر،امیرعلی حاجی زادہ،میزائل یونٹ کی تشکیل کے ذمہ داربنے اورمیزائل سرگرمیوں کیلئے ایران کے مغرب میں واقع شہرکرمان میںپہلااڈہ تیارکیاگیا۔عراق پرایران کی جانب سے پہلامیزائل حملہ21مارچ 1985کوہواجس میں کرکوک شہرکونشانہ بنایاگیا۔دودن بعد،دوسراایرانی حملہ بغدادمیں عراقی آرمی آفیسرزکلب پرکیاگیاجس میں تقریباً 200عراقی کمانڈرمارے گئے۔
اگرچہ ایران نے سینکڑوں میزائل اسرائیل پرداغے ہیں لیکن دوسرے ملک میں جاکرگوریلاآپریشن کرنے کازیادہ تجربہ اسرائیل کا ہے اور وہ ہمیشہ ہی اس میں کامیاب ہواہے لیکن جب بات ہوتی ہے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کی توایران کے رقبے اورفوج میں زیادہ تعدادکودیکھتے ہوئے یہ صاف نظرآتاہے کہ اسرائیل ایسانہیں کرے گا۔اس کی برتری فضائی طاقت،میزائل اور ڈرونزہیں اوراگراس نے ردِعمل ظاہرکیاتوممکنہ طورپران ہی کے ذریعے ہی کرے گا۔ویسے ماضی میں ایران کے ہائی پروفائل فوجی اورسویلین شخصیات بھی اسی طرح کے حملوں میں ہلاک کی گئی ہیں اگرچہ اسرائیل نے اکثر اوقات اس کا باقاعدہ اعتراف نہیں کیالیکن اس سے انکاربھی نہیں کیا ہے۔ اس جنگ کاایک اورپہلو سائبراٹیک بھی ہوسکتاہے اوراس جگہ اسرائیل کافی ولنرایبل (کمزور)لگتاہے۔وجہ صاف ہے کہ ایران کا دفاعی نظام اسرائیل کے دفاعی نظام جتناایڈوانس نہیں ہے،اس لیے اسرائیل کے نظام پرسائبرحملہ زیادہ آسان ہے۔
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بشارالاسدکی حکومت کے خاتمے کے بعدآیت اللہ علی خامنہ ای چارمرتبہ اپنے ملک،شام اور مشرق وسطی کے مستقبل کے حوالے سے تقاریرکرچکے ہیں۔ان کی تقاریرکامواداتناہی اہم ہے جتنے وہاں بیٹھے سامعین۔ایرانی رہبر اعلی کوسننے والوں میں ایرانی سپاہی،ایرانی حمایت یافتہ ملیشیایاحکومت کے حامی تھے۔یہ تمام افرادکسی نہ کسی طرح شام میں ایک دہائی قبل خانہ جنگی کے واقعات سے جڑے تھے۔عراق کے خلاف1980سے1988تک جاری رہنے والی8سالہ جنگ میں ان ایرانی فوجیوں کواپنی شناخت ملی تھی۔حالیہ تقریرخطے میں ہلاک ہونے والے ایرانی فوجیوں کے اہل خانہ کوبھی سنائی گئی جنہیں ایرانی حکومت”شہید”کہتی ہے۔
اس صورتحال کے دوران آیت اللہ خامنہ ای پردباہے کہ وہ حسن نصراللہ اورقاسم سلیمانی جیسی اہم شخصیات کی عدم موجودگی میں اپنے حامیوں کوجواب دیں کہ:اسدحکومت کے دفاع کیلئے ایران شام کیوں گیا؟اس بارشام کادفاع کیوں نہیں کیاگیا؟اورایران کے ”مزاحمت کے محور”کامستقبل کیاہوگا؟بظاہرایسالگتاہے کہ ایران عسکری اورسفارتکاری دونوں میدانوں میں ناکام ہوگیاہے۔
بین الاقوامی امورکے بیشترایرانی ماہرین اس بات پرمتفق ہیں کہ ایران کوعلاقائی تنازعات پرناکامی کوتسلیم کرناچاہیے اوراب وقت آ گیاہے کہ ایک نئی حکمت عملی اپنائی جائے۔ ایرانی حکومت کو”فتح کے ادب”کی عادت ہوچکی ہے مگراب اسے”شکست کے ادب” کو سیکھنا پڑے گا۔عراق کے خلاف جنگ کے اختتام پراس وقت کے ایرانی رہبرِاعلی آیت اللہ خمینی نے واضح طورپرجنگ بندی کی قراردادکی منظوری کو”زہرکاپیالہ پینے”سے تشبیہ دی تھی۔ تاہم موجودہ ایرانی رہبراعلی آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی پے در پے تقریروں میں تاحال صاف گوئی کااظہارنہیں کیااورنہ ہی ایرانی حکمت عملی کے کمزورہونے کااعتراف کیاہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ انھوں نے پیغمبرِاسلامۖکاحوالہ دیتے ہوئے”جنگ احد”کاذکرکیاجوکہ اسلامی تاریخ کی سب سے اہم جنگوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔اس جنگ میں مسلمانوں کوعارضی شکست ہوئی تھی۔خامنہ ای نے اپنی تقریرکے دوران کہاکہ ”اسلام کی آمد کے ابتدائی عرصے میں احدکے میدان میں مسلمانوں کوبھاری نقصان اٹھاناپڑااورامیر المومنین حمزہ شہیدہوئے۔امیر المومنین علی ابن ابی طالب سرسے پیرتک زخمی ہوئے۔اس جنگ میں پیغمبراسلام زخمی ہوئے اورکئی لوگ شہیدہوئے۔جب وہ مدینہ واپس آئے تو منافقین نے دیکھا کہ یہ فتنہ پھیلانے کااچھاموقع ہے اورانہوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے پروپیگنڈا شروع کردیا”۔
بظاہرایسالگتاہے کہ ایرانی رہبراعلی کوناکامی کی وضاحت کرنے سے زیادہ”فتنے ”اوراپنے حامیوں میں ابھرتے شکوک وشبہات کی فکر ہے۔ شام کی ناکامی کے بعدخطے میں ایران کی پوزیشن کمزورنظرآرہی ہے۔نئی نسل میں ایران کی اسلامی جمہوریہ کی حمایت کرنے والوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے علاقائی جنگوں اور”مزاحمت کے محور”کے ذریعے اپنی پہچان پائی۔ایرانی حکومت کے بہت سے حامیوں کوخدشہ ہے کہ جوشام کے سابق حکمرانوں کے ساتھ ہوا،وہ ایران میں دہرایاجاسکتاہے۔
قاسم سلیمانی کی پانچویں برسی کے موقع پرآیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریرمیں ان خدشات کاجواب دینے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہاکہ”بعض ممالک کی بڑی غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ استحکام اورحاکمیت کے اہم عوامل کومنظرسے ہٹادیتے ہیں۔ (مگر) نوجوانوں کاگروہ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیاررہتاہے۔یہ کسی قوم میں حاکمیت کے سب سے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔انہیں منظر سے ہٹایانہیں جاناچاہیے۔ہمارے لیے بھی یہی سبق ہے۔خداکاشکرہے یہاں یہ محفوظ ہیں۔کچھ دوسرے ممالک کوبھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔انہیں معلوم ہوناچاہیے کہ ان کے استحکام کے عوامل کیاہیں۔جب انہیں نکالاجاتا ہے توخطے کے بعض ممالک میں ایساہی ہوتا ہے۔ (جب) وہ استحکام اور حاکمیت کے عوامل کوباہرنکال دیتے ہیں تووہ شام بن جاتاہے”۔
ایرانی رہبر اعلی نے یہ کہہ کردراصل اپنے حامیوں کودعوت دی ہے کہ وہ اس مشکل مرحلے میں انہیں ان کی ضرورت ہے۔اسد حکومت کے خاتمے کے بعداپنی پہلی تقریرمیں انہوں نے کہاتھاکہ ان کی اس تقریرکامقصدرائے عامہ کے سوالات اورابہام کا جواب دیناہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حامیوں کے خدشات دورہوں اوران کے حوصلے بلندرہیں۔اسی لیے انہوں نے ایک ماہ کے عرصے میں چوتھی مرتبہ خطے میں ایران کی حکمت عملی اورمزاحمت کے محورپر بات کی۔
سقوط دمشق کے صرف تین دن بعدایرانی رہبراعلی نے اپنی پہلی تقریرمیں بغیرکسی تمہیدکے شام کے مسئلے کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ جاہل اورنادان تجزیہ کارجوان واقعات کو ایران کوکمزورکرنے کے مترادف سمجھتاہیانہیں سمجھ لیناچاہیے کہ ایران مضبوط ہے یہ طاقتورسے مزیدطاقتورہوجائے گا۔دراصل شام کی موجودہ صورت حال اورمصائب شامی فوج کی مزاحمت اورمزاحمت کے جذبے کی کمزوری اورکمی کا نتیجہ ہیں۔ شام کی کمزوری کے برعکس ایرانی مسلح افواج کے اعلی حکام کے حوصلے بلندہیں۔
ایران کے رہبراعلی نے ان تمام تقاریرمیں بشارالاسدکانام لینے سے بھی گریزکیا۔حالیہ برسوں کے دوران ایران اوربشارالاسدکے بیچ تعلقات اتنے قریبی نہیں تھے جتنے شام میں خانہ جنگی کے دوران ہواکرتے تھے۔شام کی تعمیرنوکے برسوں میں اورخاص طورپرپچھلے چار سالوں میں بشارالاسدنے اقتصادی دبااورسخت پابندیوں کے باعث ایران کے علاقائی حریفوں بشمول متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب کے ساتھ تعلقات کوبہتربنایاتھا۔اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے پے درپے حملے اورشام میں سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ایرانی افواج کی موجودگی کمزورپڑ گئی تھی۔
ایسالگتاہے کہ آیت اللہ خامنہ ای اچھی طرح جانتے ہیں کہ بشارالاسدکی حکومت کاخاتمہ ایران کیلئے ایک نئے دورکاآغازہے۔یہ ایک ایسانیادورہے جس میں خطرات کے ساتھ ساتھ دوست،دشمن اورجنگ کی لکیروں کونئے سرے سے متعین کیاجائے گا۔یہ دیکھنا باقی
ہے کہ آیاآیت اللہ خامنہ ای”زہرکاپیالہ” پیئیں گے اورمغرب کے ساتھ مذاکرات کریں گے یا”جنگ احد”کی طرح شکست تسلیم کرنے کاانتخاب کریں گے۔