وجود

... loading ...

وجود

قانون کی حکمرانی کے تقاضے

پیر 13 جنوری 2025 قانون کی حکمرانی کے تقاضے

ایم سرور صدیقی

بلاشبہ پاکستان کے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزنے قیام ِ عمل کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔یہ قربانیاں تاریخ کا ناقابل ِ فراموش باب ہے ۔ان قربانیوںکو کوئی جھٹلانابھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتا۔ عوام جب اپنے گھروںکے نرم گرم بستروںپر آرام کررہے ہوتے ہیں تو ہمارے فوجی جوان سرحدوںکی حفاظت کیلئے سینہ سپرہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ کرحالات کا مقابلہ کرتے ہیں ۔اسی طرح پولیس کے جوان بھی عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے اپنے فرائض انجام دینے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یقینا یہ بڑا مقدس کام ہے عام آدمی کے لئے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکی خدمات قابل ِ تحسین ہیں۔عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے حکومت نے پولیس میں کئی محکمے بنارکھے ہیں، جن میں زیادہ تراہلکاروںکی کاکردگی مثالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تلک بہت سے پولیس افسراور سپاہی اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے وطن اور اہلیان ِ وطن پر قربان ہوگئے ۔یقینا یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ عوام ان کو ہمیشہ خراج ِ تحسین پیش کرتی رہے گی۔ کیونکہ یہ قر بانیاں وطن پر قربان ہونے والوںکی یاددلاتی ہیں۔یہاںایک سوال یہ پیدا ہوتاہے ان بیش قیمت قربانیوںکے باوجود وطن عزیزمیں ابھی تک جرائم کا قلع قمع نہیںکیاجا سکا یا جس طرح یورپین اور خلیجی ممالک میں امن و امان کی صورت ِ حال کومثالی کہاجاتاہے ،ایسا پاکستان میں نہیں ہے ۔اس کاایک مطلب صاف صاف یہ ہے کہ جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی، مثالی امن و امان کاخواب پورانہیں ہو سکتا اور جب تک”قانون سب کیلئے”نافذنہیں ہوتا حکومت جتنے بھی پولیس میں نئے محکمے یا فورسز تشکیل دے دے بات نہیں بنے گی ۔اس لئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرناہوںگے پولیس کے تمام اداروں اور محکموں میں اختیارات سے تجاوزکرنے والوںکے خلاف سخت ایکشن لیناہوگاکیونکہ اختیارات سے تجاوزکرنے کے اثرات انتہائی بھیانک مرتب ہوتے ہیں۔ اسے کرپشن کی سب سے خوفناک صورت بھی کہاجا سکتاہے۔ کئی مرتبہ ناکے لگا کر پولیس اہلکار گاڑیوںکے کاغذات چیک کرتے ہیں، کوئی انہیں پوچھنے کی جرأت نہیںکرسکتا، حضور آپ ایسا کیونکرکررہے ہیں؟اس ملک میں ٹریفک اہلکار ون وے کی خلاف ورزی کرے یا ہیلمٹ پہنے نہ پہنے اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔ محافظ پولیس بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے، ان سے بھی عام آدمی کو بہت سی شکایات ہیں۔ اب تو یہ بھی اطلاعات ہیں مضافاتی علاقوں میں ڈولفن اہلکار، محافظ ،اور عام پولیس ملازمین نیم تاریکی میں ناکے لگا تے ہیں نوجوان ان کا خاص ہدف ہیں۔ اب کیاکہا سکتاہے ان کو حکومت کی طرف سے کوئی خاص ٹاسک دیا گیاہے یا وہ اختیارات سے تجاوز کرکے اپنے طورپر ایسا کررہے ہیں۔ دونوںصورتوںمیں انسانی وشہری حقوق کے خلاف ورزی ہے، اس طرح عام شہریوںکو ہراساںکیاجارہاہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب ، متعلقہ تھانوںکو اس کا نوٹس لیناچاہیے۔ جب بھی کوئی نئی فورس قائم ہوتی ہے اس سے لوگوںکا متاثرہونا یقینی ہے ۔اہلکار ایفی شنسی دکھانے کے چکرمیں عوام کا ناطقہ بندکردینے سے بھی گریزنہیں کرتے۔ عام آدمی تو پہلے ہی حالات کی چکی میں پس رہاہے ،پڑھے لکھے نوجوان روزگارنہ ہونے سے مایوسی کے شکارہیں،مہنگائی،غربت نے عوام کی مت ماررکھی ہے اوپر سے ناکے لگاکر شہریوںکو ہراساں کرناکہاںکانصاف ہے؟اور تو اور ٹریفک پولیس کو شہریوں کو ہتھکڑی لگانے کا اختیار ملنا بھی انتہائی خوفناک ہیں ۔موٹرسائیکل سوار اور رکشہ ڈرائیور وںکو ٹریفک اہلکار پہلے ہی تیسری درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ یہ طرز ِ عمل انتہائی برے اثرات مرتب کررہاہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ای مرکز اور خدمت سینٹرز بنانے سے عوام کی مشکلات کافی حد تک کم ہوئی ہیں۔ ایسے ہی مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ ہمیشہ کہاجاتاہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، اس کا بڑا سبب پولیس کا رویہ خیال کیاجاتاہے شایدوہ خودکو لوگوںسے برتر سمجھتے ہیں۔ اسی لئے پبلک سرونٹ کا تصور پاکستان میں بڑاخوفناک بن گیاہے یعنی اختیارات رکھنے والا جو چاہے کر سکتاہے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آج ملک کے حالات کے پیش ِ نظرضروری ہے کہ عوام اورقانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ تمام اداروںکوپابندکیا جائے کہ وہ شہریوںکی سیلف ریسپکٹ کو ہرحال میں مقدم رکھیں گے۔ عوام کو یہ جاننے کاحق ہے کہ پولیس کے جتنے بھی محکمے ،ادارے یا محافظ، ایلیٹ، ڈولفن فورسز بنائی گئی ہیں، ان کے قیام کے اغراض و مقاصدکیاہیں؟ ان کا دائرہ ٔ کار اور اختیارات ،ضرورت و اہمیت کیاہے ؟ اس کیلئے اخبارات میں مفید معلومات دی جائیں اور ایک سے متعلق ایک ویب سائٹ بھی بنا دی جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔پاکستان کے شہری اپنے وطن سے شدیدمحبت کرتے ہیں اور خاص طور پرجن اداروںتعلق پبلک ڈیلنگ سے ان کی تربیت اس اندازسے کی جانی ناگزیرہے کہ وہ انسان کو انسان سمجھیں، جب تک بلا امتیاز سب کااحتساب یقینی نہیں بنایا جاتا، بہتری کی امید بھی عبث ہے پاکستان کے تمام شہریوں،اداروں اور سرکاری و غیرسرکاری افسران و اہلکاروںکو آئین اور قانون کا پابندکیاجائے اپنے اختیارات سے تجاوزکرنے والوںسے بازپرس اور خوداحتسابی کا طریقہ ٔ کار وضع کیاجائے جب سب کو احتساب کا خوف ہوگا تو وہ کبھی اپنے اختیارات سے تجاوزنہیںکرسکتا ۔
موجودہ حکومت نے اس ضمن میں عوام سے وعدے بھی کررکھے ہیں ان کی تکمیل بھی ضروری ہے کوئی حکومت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تلک وہ عوام کیلئے آسانیاں پیدانہیں کرتی۔پولیس سے متعلق عوامی شکایات اور ان کے ازالہ کیلئے بھی حکومتی ترجیحات کا تعین کیا جائے ،پولیس کو عوام پر اپنا اعتمادبحال کرناہوگا مجرموں اور عام آدمی کے درمیان فرق پولیس کا طرہ امتیازہونا چاہیے۔ہر حکومت نے پولیس کلچرکی تبدیلی کے بے شمار وعدے کئے ۔ حکمرانوںنے ہمیشہ پولیس کو سیاسی دبائو سے آزاد کرکے عوامی امنگوںکے مطابق ڈھالنے کااعلان کیاہے ا س پر سنجیدگی سے عمل کیا جانا ناگزیرہے کیونکہ حالات متقاضی ہیں ،جرائم کے خاتمہ اور عام آدمی کی جان ومال کے تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ۔یہ بات طے ہے کہ جب تک پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم نہیں ہوں گے، مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
قانون کی حکمرانی کے تقاضے وجود پیر 13 جنوری 2025
قانون کی حکمرانی کے تقاضے

خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام وجود اتوار 12 جنوری 2025
خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف وجود اتوار 12 جنوری 2025
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف

مریم نواز کا مصافحہ! وجود هفته 11 جنوری 2025
مریم نواز کا مصافحہ!

ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ وجود هفته 11 جنوری 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر