... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
خواجہ معین الدین چشی کی درگاہ پر چادر بھیجنے کا اعلان کرکے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوتوا نوازوں کو زبردست صدمہ دے دیا ۔ درگاہ اجمیر شریف نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ یہاں ہر سال 6رجب المرجب کو “عرس کے موقع پر لاکھوں زائرین جمع ہوکر خواجہ غریب نواز قدس سرہ سے محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ خواجہ غریب نواز کے مزار پر چادرچڑھانے کو عقیدت و احترام کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ عرس کے دوران اس رسم کو باعثِ برکت خیال کیا جاتا ہے منتیں مانی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی بیساکھی پر سوار سرکارکو منت و برکت کی جتنی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ ویسے پچھلے سال انہوں نے رام مندر پران پرتشٹھان کی تیاریوں کے درمیان مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کو جمال صدیقی کے ساتھ اپنا نمائندہ بناکر 812 ویں عرس میں اپنی جانب سے چادر پیش کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ امسال کمبھ میلے کی تیاریوں کے دوران یہ خدمت مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو کو سونپی گئی ۔ جمعرات کی شام 6 بجے کرن رجیجو اور دیگر حضرات کے ساتھ تصویر کھنچواکر وزیر اعظم نے یہ چادر ان کے حوالے کردی تاکہ وہ بہ نفس نفیس دورانِ عرس درگاہ پرجاکر چادر چڑھائیں ۔
کرن رجیجو کو روانہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے نریندر مودی اجمیر شریف درگاہ پر 10 بار چادر بھجواچکے ہیں ۔ یہ 11ویں بار روایت کو آگے بڑھایا گیا ہے لیکن پہلی مرتبہ مودی کا یہ قدم ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بن گیا کیونکہ ہندو سینا نے راجستھان کی ایک عدالت میں اجمیر شریف درگاہ کو شیو کا مندر قرار دے کر اس کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کررکھی ہے ۔ دیوانی عدالت نے بھی اسے مسترد کرنے کے بجائے نہایت سعادتمندی سے منظور کر کے اپنے دیوانے پن کا ثبوت پیش کردیا ۔ 27 نومبر کو تین فریقوں کے نام نوٹس جاری فرما کر کورٹ نے اگلی سماعت کے یوم جمہوریہ سے دو دن قبل 24 جنوری کی تاریخ مقررکر دی ۔اس معاملے میں 20 دسمبر کو، اجمیر شریف درگاہ کمیٹی نے عدالت میں 5صفحات پر مشتمل ایک درخواست دائر کرکے اجمیر کی درگاہ کے نیچے مندر کی موجودگی کا الزام لگانے والی درخواست کو خارج کرنے پر زور دیا۔ اس کی دلیل ظاہر ہے عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون ہے مگر ہندو سینا کے سربراہ وشنو گپتا کی دلیل ہے کہ مزار یا قبرستان پر مذکورہ بالا قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ بیچارے وشنو گپتا نے ہندو ہردیہ سمراٹ وزیر اعظم کو چادر بھیجنے سے روکنے کی خاطر وزیر اعظم کو خط لکھا پھر دہلی سفر کیا مگر کسی نے اس کو گھاس نہیں ڈالی۔ اب چادر کے ساتھ مودی جی کاہنستا ہوا نورانی چہرا دیکھ کر وشنو گپتا یہ شعر پڑھ رہا ہوگا
پھیلا کے سر پہ درد کی چادر چلا گیا
اک شخص میری روح پہ نشتر چلا گیا
وشنو گپتا اب ٹیلی ویژن پر کہہ رہا ہے کہ اس کی مخالفت محض اس لیے ہے کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ عدلیہ کا فیصلہ اگر درگاہ کے حق میں آجائے تو اسے وزیر اعظم کے بذاتِ خود جاکر چادر چڑھانے پر بھی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ عدالت میں رام مندر کا فیصلہ ہوجانے تک وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نہ ایودھیا گئے اور نہ کوئی پوجا پاٹ کا سامان بھجوایا ۔ اس نظیر کے پیش نظرانہیں چادر بھجوانے سے احتراز کرنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم کی اس حرکت سے عدلیہ پر دباو پڑے گا اور اس کا کیس کمزور ہوگا ۔ مندر کا دعویٰ کے سوا وشنو گپتا کی ساری باتیں درست ہیں مگر وزیر اعظم نے یہ پیغام دیا ہے کہ جب بنیاد ہی کمزور تو اس پرچادر ڈال کر اسے چھپا دینا ہی بہتر ہے۔ صوفی فاؤنڈیشن کے چیئرمین اور اجمیر درگاہ کے سجادہ نشین، حاجی سید سلمان چشتی نے اس موقع پر کہا ، ”یہ روایت 1947 سے جاری ہے کہ ہر سال ملک کا وزیر اعظم درگاہ کے لیے چادر بھیجتا ہے اور امن، بھائی چارے کے لیے دعا کا پیغام بھی دیتا ہے ۔” وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے بھیجی گئی چادر کا خیر مقدم کرتے ہوئے وہ بولے موصوف کی طرف سے بھیجی گئی چادر ملک کے 140 کروڑ ہم وطنوں کے لیے محبت، امن، اتحاد کا تحفہ ہے ۔
یہ تو خیر روحانی معاملہ ہے لیکن وزیر اعظم نے پنجابی فنکار دلجیت دوسانجھ سے ملاقات کرکے اس کی تعریف میں کہہ دیا وہ کثیر جہتی صلاحیتوں کی مالک شخصیت ہے اور(ہندوستانی) روایت کا مرقع ہے ۔ ایکس پر دلجیت دوسانجھ کی ایک پوسٹ کے جواب میں مودی نے لکھا: ”دلجیت دوسانجھ کے ساتھ زبردست بات چیت! ہم موسیقی، ثقافت اور بہت کچھ سے جڑے ہیں”۔ مودی جی جس دلجیت دوسانجھ کے حق میں رطب اللسان ہیں اس پر ان سے ملاقات کے ایک دن قبل بھی لدھیانہ میں شکایت درج ہوئی۔ فی الحال اپنے ‘دل،لومیناٹی ٹور’ میں مصروف ِ عمل دلجیت کے خلاف مبینہ طور پر شو میں شراب نوشی کو فروغ دینے والا گانا گانے پر چنڈی گڑھ کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر پنڈت راؤ دھریناور نے شکایت درج کرائی ہے ۔ انہوں نے اس طرح کے گانوں سے نوجوان نسل پر ہونے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کیاجبکہ مودی اس کو سراہتے ہیں۔ دلجیت کو سب سے پہلے کو تلنگانہ حکومت نے اپنے شو کے دوران شراب، منشیات یا تشدد کو فروغ دینے والے نغمے گانے سے منع کیا پھر پونے اور اندور میں بجرنگ دل نے احتجاج کیا۔ اس کے جواب میں احمدآباد جاکر دلجیت نے کہا کہ ”جب حکومت شراب پر ملک گیر پابندی عائد کر دے گی تو وہ شراب کے بارے میں گانا گانا بند کر دیں گے” ۔ اب مودی جی نے اس کی حوصلہ افزائی کرکے بجرنگ دل کے کارکنان کا دل توڑ دیا ہے ۔
ویسے بجرنگ دل والے تو ایک ہفتہ قبل اس وقت بھی پریشان ہوگئے تھے جب وزیراعظم نریندر مودی نے عظیم گلوکار محمد رفیع کو ان کی 100 ویں یوم پیدائش پر یاد کیا تھا ۔ اٹل جی کے 100 ویں یوم پیدائش سے دو دن قبل وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ محمد رفیع صاحب ایک میوزیکل جینیئس (عبقری)تھے ۔ان کا ثقافتی تاثر اور اثر پذیری نسلوں کی محدودیت سے بالاتر ہے ۔ رفیع صاحب کو نغموں میں مختلف جذبات و احساسات پیش کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے سراہا جاتا ہے ۔ ان کی ہمہ جہت صلاحیت بھی غیر معمولی تھی۔ میری تمنا ہے کہ ان کی موسیقی لوگوں کی زندگیوں میں خوشیوں کا اضافہ کرتی رہے ۔ مودی جی اس نئے سال میں جس کشادہ دلی کا مظاہرہ اور جو دانشمندانہ اقدامات کیے ہیں ان سے بی جے پی کے ناعاقبت اندیش بھگتوں کو بہت دکھ ہورہا ہے ۔ وزیر اعظم کوان کی مطلق پروا نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ
یہ بیچارے جا بھی کہاں سکتے ہیں؟ اس لیے مودی جی اپنے بھگتوں کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ سرسنگھ چالک کے اچھل اچھل کر مندر والے بیان کی مخالفت کرنے والے ایودھیا کاسادھو راجو داس فی الحال یہ کہتا نظر آتاہے ‘ وزیر اعظم پورے ملک کے قائد ہیں اس لیے ان کا بلا تفریق و امتیاز چادر بھیجنا درست قدم ہے ‘۔
خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ کے سربراہ نصیر الدین چشتی نے بڑی حکمت کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال سے اسے جوڑتے ہوئے فرمایا عرس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے پیش کی گئی چادر کا خیرمقدم ہے ۔ اس سے ان لوگوں کو جواب ملے گا جو گزشتہ کچھ دنوں سے مندر مسجد تنازعہ پیدا کرکے ملک کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا ہندوستان کی یہ روایت رہی ہے کہ آزادی کے بعد سے ملک کے تمام وزرائے اعظم عرس کے موقع پر درگاہ پر چادر بھیجتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی 2014 سے اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور جب سے وہ پی ایم بنے ہیں پوری عقیدت کے ساتھ چادر بھیج رہے ہیں۔ موصوف نے زور دے کہا کہ یہ ہندوستان کی تہذیب اور ثقافت ہے کہ تمام مذاہب، سبھی دھرم، تمام مذہبی رہنماؤں و مذہبی مقامات کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ پی ایم مودی کی طرف سے بھیجی گئی چادر کومرکزی وزیر کرن رجیجو نے خواجہ غریب نواز کے دربار میں پیش کی تو عزیز میاں کی وہ مشہور قوالی یاد آگئی
نیاز و ناز کا کتنا حسین منظر ہے
اِ دھر غریب کھڑے ہیں اُدھر غریب نواز
اس موقع پر اقلیتی امور کے وزیر نے میڈیا اہلکاروں اور زائرین کے سامنے وزیر اعظم کا مندرجہ ذیل پیغام بھی پڑھ کر سنایا”غریب نواز کے 813ویں عرس مبارک کے موقع پر دنیا بھر میں ان کے پیروکاروں اور اجمیر شریف میں آئے سبھی زائرین کو دلی مبارکباد۔ مختلف ادوار میں ہمارے پیروں، فقیروں اور عظیم شخصیات نے اپنے نظریات سے عوام کی زندگی میں تبدیلی لائی۔ اس سلسلے میں خواجہ معین الدین چشتی کے عوامی فلاح اور بھلائی سے جڑے پیغامات نے لوگوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ۔ ان کے تئیں دنیا بھر میں لوگوں کی گہری عقیدت ہے ۔ سماج میں محبت اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے وقف ان کی زندگی ہماری رہنمائی کرتی رہے گی۔ ان کے سالانہ عرس کی تقریب نے آپسی میل جول کو تقویت دینے میں بڑا کردار نبھایا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ موقع ملک اور سماج کی ترقی کے لیے ہر ممکن کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ سالانہ عرس کے موقعے پر میں چادر بھیجتے ہوئے میں خواجہ معین الدین چشتی کو نمن(سلام پیش) کرتا ہوں اور اہل وطن کی کامیابی اور خوشحالی کی امید کرتا ہوں۔ اس خوبصورت پیغام کو پڑھنے کے بعد دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ کاش اس ملک میں انتخاب نہ ہوتے اور عوام کو وزیر اعظم زبان سے وہ سب سننے کو نہ ملتا جن سے نہ صرف امن و چین بلکہ محبت و اخوت تک غارت ہوجاتا ہے اورنقاش کاظمی کا یہ شعر یاد آتا ہے
کابک کو خالی دیکھ کے کڑھتا ہے دل مرا
جانے کہاں سفید کبوتر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔