... loading ...
ّ آج کل
حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام ہوں، گزشتہ ڈھائی سال کے نتائج سے حکومت کی بدترین ناقص حکمرانی ظاہر ہورہی ہے۔ موجودہ سیاسی منظر کاگہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس بات کے واضح آثار نظر آرہے ہیں کہ گزشتہ سال فروری میں دھاندلی زدہ انتخابات میں موجودہ حکومت کو مینڈیٹ حاصل نہ تھا، اس کے باوجود مصنوعی طور پر نافذ کردہ حکومت سے کارکردگی کی توقع کی گئی اور وہ کسی بھی توقع کو پورا کرنے میں ناکام رہی ۔بین الاقوامی محاذ پر بھی ناکامی کا سامنا رہا ۔ان وجوہات کی بنیاد پر اس کے خاتمے کا وقت بہت قریب ہے ۔
عام تاثر بھی یہی ہے کہ پس پردہ کسی نئی عبوری حکومت کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ موجودہ برسراقتدار ن لیگ اور اتحادی جماعتوںکی عوامی حمایت سے روز بروز محرومی کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی اورمعاشی بحران بھی مزید بڑھ سکتا ہے ۔بر سر اقتدار اتحاد سے بحران کے خاتمے کی توقع کرنا عقل و دانش کے خلاف ہوگا۔ مصنوعی نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش مزید پیچیدگی کا باعث ہوگی، نتائج مزید خرابی پیدا کریں گے اور حکمرانوں کو بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد یا افغانستان کے اشرف غنی کے اقتدار کے خاتمے والی صورت حال سے بچنا ہوگا ۔ان ممالک میں حکمراں جماعت کے لوگوں کو ملک سے نکلنے کے لیے جہاز تک پہنچنے کے لیے بھی جان کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف اقدامات کے نتائج سے عمران خان مسلسل طاقتور ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا بھر کے اہم ممالک اور دوست بھی پاکستان سے دور ہورہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق صرف 2024میں ایک کروڑ تیس لاکھ افراد خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر ساڑھے چھ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے جاچکے ہیں جو انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں شدید رکاوٹیں ہیں۔ 26نومبر کو اسلام آباد میں فائرنگ کے واقعات کی مسلسل پردہ پوشی پر سرکاری موقف کو عالمی سطح پرجھوٹ تصّور کرنے کی وجہ سے ہر جانب سے معاشی پابندیوں کاخطرہ ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے شکایتوں کا سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور مختلف حکومتوں کو یہ شکایتیں پہنچائی جارہی ہیں۔ حکمراں جماعتیں عوامی مینڈیٹ سے محروم ہیں۔عمران خا ن کو جیل میں رکھنے سے حکومت کو فائدہ کم نقصان بہت زیادہ پہنچ رہا ہے ۔اپریل 2022 سے جاری پی ٹی آئی کے خلاف ہر کارروائی کا منفی اثر ہوا اور نتائج عمران خان کی مقبولیت کا باعث بنتے چلے گئے۔ 9اپریل 2022 کو جب عمران خان وزارت عظمیٰ سے باہر آئے تو انتخابات کے انعقاد سے گریزکرکے حکومت نے بد ترین غلطی کی تھی۔ اس کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت پر غیر ضروری دبائو بڑھانے ،ان پر قاتلانہ حملے اور سیاسی سطح پر پی ٹی آئی کامقابلہ کرنے کے بجائے محض انتظامیہ کے ذریعے پی ٹی آئی کو کچلنے کی حکمت عملی سے حکمراں سیاسی جماعتیںغیرمقبول اور پی ٹی آئی مقبول ہوتی چلی گئی جس کی واضح مثال آٹھ فروری کے انتخابات تھے جس میں رات بارہ بجے تک پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے جیت رہی تھی کہ اچانک نتائج روک دیے گئے اور انٹرنیٹ بند ہوگیا او ر پریزائیڈنگ افسران اور مختلف جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کے دستخط شدہ فارم 45 کے نتائج کے بجائے تبدیل شدہ نتائج کا اعلان نو اور دس فروری تک جاری رہا جسے دنیا بھر کے میڈیا نے بد ترین دھاندلی قرار دیا۔ پی ٹی آئی کے مطابق ان کی جماعت دو تہائی اکثریت سے جیت چکی تھی۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی پر غیر اعلانیہ پابندی تھی ۔ان کا انتخابی نشان بلّا ان کے پاس نہیں تھا ۔انہیں ،بینگن، چمٹا،چارپائی اور دیگرعجیب وغریب نشانات دیے گئے تھے اور عمران خان کو مجموعی طور پر 24 سال سے زائد کی سزا سنائی جاچکی تھی۔ پی ٹی آئی کوانتخابی مہم بھی نہیں چلانے دی گئی تھی۔ سوشل میڈیا اور خفیہ طور پر گھر گھر مہم چلا کر پی ٹی آئی نے پوری دنیا کوحیران کردیا تھا۔ موجودہ حکومت کے لیے عمران خان کو جیل میں طویل مدّت تک رکھنا حکومت کے لیے رہائی کی نسبت زیادہ پریشانی اور نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ عمران خان کو بھی فوری رہائی سے دلچسپی نہیں ہے۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ پہلے پارٹی کے کارکنوں کی رہائی ہونی چاہیے اوروہ اپنی رہائی عدالتی حکم نامے کے ذریعے چاہتے ہیں ۔عمران خان نے جیل کی سختیوں کو جس استقامت سے برداشت کیا اور آئین وقانون کی حکمرانی کے اپنے موقّف پر قائم رہے جس کی وجہ سے انہوں نے ایک ایسا اعلیٰ مقام اوربلند درجہ حاصل کرلیا ہے جو ملک کے کسی بھی عہدے سے بڑا ہے وہ رہا نہ بھی ہوئے تو مزید بلند مقام حاصل کریں گے۔ فیصلہ ساز وں نے ان کی اس ساکھ اور عالمی سطح کی مقبولیت سے فائدہ نہ اٹھایا تو یہ ایک قومی المیہ ہوگا۔ ان کو جیل میں رکھ کر یا انہیں موت کی سزا دے کر عمران خان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا ۔البتہ ہر گزرنے والا دن بر سراقتدار جماعتوں کو عوامی حمایت سے محروم کرتا رہے گا۔ پاکستان کی کسی بھی شخصیت کے لیے اعلیٰ سطح پر ایسی تعریفی گفتگو امریکا میں کبھی نہیں کی گئی جو عمران خان کے لیے کی گئی ہے ۔
پاکستان میںمصنوعی جمہوری عمل کے جاری رہنے سے عوام کا جمہوریت ،جمہوری اداروں اور انتظامیہ سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور انتہا پسند تنظیمیں موقع سے فائدہ اٹھا کر نوجوانوںکو اپنی جانب راغب کرکے دہشت گردی کی راہ ہموار کریں گی جس سے ملک کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو شدید نقصان ہوگا ۔پاکستان میںصاف ستھری جمہوریت اور عوام کو بااختیار بنا کر ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔صاف ستھرے ،شفّاف اور منصفانہ جمہوری ماحول میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو عوام خود ہی شکست دے سکتے ہیں۔ عوامی حمایت کے بغیر حکومت ہوا میں معلّق رہتی ہے ۔موجودہ صورت حال میں ملک مسلسل زوال کا شکار ہورہا ہے۔ پارلیمنٹ کو مینڈیٹ حاصل نہیں ۔عدلیہ کی آزادی پردنیا بھرکے قانون دانوں اور اقوام متحدہ کے اعتراضات سب کے سامنے ہیں۔انتظامیہ نے خود کو تما م ضابطوں اور قانون سے آزاد کرلیا ہے۔ دنیا کے ماہرین نے اچھی حکمرانی کے جو رہنما اصول مرتّب کیے ہیں، ہمار ا نظام اس کے مکمّل برعکس ہے۔ پا کستان کو تباہی کے راستے سے نکالنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ فیصلہ سازوں اور ہمنوا مبصّرین کو موجودہ روش کو ترک کرکے کسی بڑے نقصان کا سے بچنا ہوگا۔ جہاں تک عمران خان کا تعلّق ہے، ان کی رہائی کے سواحکومت کے پاس اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ عمران خان جیل میں رہ کر غیر محسوس طریقے سے حکمراں سیاسی جماعتوں کو نگل رہے ہیں۔ فی الحال حکمراں جماعتوں کو شاید ابھی احساس نہیں ہے ۔انہیں اس کا احساس اس وقت ہوگا جب یہ اندر ہی اندر سلگنے والا آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔