... loading ...
حمیداللہ بھٹی
تمام ہمسایہ ممالک سے بھارتی مراسم بگاڑکاشکار ہیں مگر بنگلہ دیش کئی دہائیوں سے واحد ایسا ہمسایہ تھاجو بھارت کاقابلِ اعتماد اتحادی تھا۔ یہاں تک کہ سارک ممالک کے اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کو روکنے کے لیے بھارتی ایماپر شرکت سے انکاربھی کرتارہاہے لیکن گزرے برس کئی ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جن سے بنگلہ دیش بھی بھارت مخالف صف میں شمارہونے لگا ہے ۔بنگلہ دیش سے تعلقات ناہموارتو ہو ئے ہی ہیں جزائر پر مشتمل مالدیپ کے نئے صدر نے بھارتی فوجیوں کو ملک سے نکالنے کے منشورپر انتخابی مُہم چلاکرکامرانی حاصل کی ۔نیپال جوکہ ایک ہندوہمسایہ ہے میں بھی بھارت کے خلاف نفرت عروج پر ہے۔ بھوٹان سے پانی کاتنازع ہے جبکہ پاکستان اور چین کوسرحدی تنازعات کے تناظرمیں دونوں کو حریف تصورکرنا ہی حقیقت ہے ۔مذکورہ حالات کی وجہ بھارتی بالادستی کا خواب ہے۔ اگر بھارتی قیادت مستقبل میں رویہ تبدیل کرنے کے بجائے برقراررکھتی اور ہمسایہ ممالک کے حوالے سے عدم مداخلت کے اصول پر عمل نہیں کرتی توخطے میںتنہائی نوشتہ دیوارہے۔
بنگلہ دیش میں بھارتی مفاد کوغیرمتوقع دھچکا لگا ہے جس کی وجہ صرف عوامی لیگ پراعتمادکرناہے۔ حسینہ واجد نے احسانات کے عوض بھارتی مفاد کا تحفظ یقینی بنایا، سات مشرقی ریاستوں میں جو امن کا قیام اور حکومتی رِٹ بھارت کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ تھاکیونکہ تنگ ودشوار اور طویل واحد زمینی راستہ سلی گری تیز رفتار آمدورفت کی ضروریات پوری نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش نے فراخ دلی سے بندرگاہیں ،ریل اور سڑک استعمال کرنے کی اجازت دے کر یہ مسئلہ حل کردیاکیونکہ یہ سامان کی ترسیل کا کم خرچ کے ساتھ کم مسافت والا محفوظ راستہ ہے۔ مگر گزرے برس اگست میں حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کے خلاف ایسی لہر چلی کہ نہ صرف وہ اقتدار سے بے دخل ہو ئیں بلکہ بھارت میں رہنے پر مجبور ہیں ۔نئی صورتحال میں بھارتی قیات کے لیے تشویش کاپہلویہ ہے کہ اگر عبوری حکومت سے تعلقات بہتر نہیں کرتی تو سفارتی کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور اگر تعلقات بہتر بناتی ہے جیسا کہ بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مشری نے بنگلہ دیش کے دورے میں عبوری حکومت میں شامل کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ اُس نے سیاسی تبدیلی کو قبول کر لیا ہے اور عبوری انتظامیہ کے ساتھ چلنے پر تیارہے تو عوامی لیگ کی صورت میں حاصل عوامی حمایت کھونے کاخدشہ ہے ۔
بنگلہ دیش کی عبوری انتظامیہ کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں کیونکہ مخالفانہ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ اِس لیے ممکن ہے ملک میں رواں برس ہی عام انتخابات کا اعلان ہوجائے جس کی کئی وجوہات ہیں،ایک تو یہ کہ عوامی لیگ کی حریف جماعتوں کا خیال ہے کہ فوری طورپر انتخاب ہونے سے وہ حسینہ مخالف لہر سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں جبکہ عوامی لیگ بھی فوری انتخاب چاہتی ہے ۔جلد انتخاب سے عبوری انتظامیہ کی مخالفانہ کاروائیوں سے جان چھڑانے کے ساتھ بہترپوزیشن پر آسکتی ہے کیونکہ طویل عرصہ اقتدارمیں رہنے کی بناپراُس کے ہر شعبے میں حمایتی موجودہیں مگر عبوری حکومت کی ساری توجہ معاشی و سیاسی اصلاحات پر ہے حالانکہ سیاسی استحکام کاتقاضاہے کہ عام آدمی کی مشکلات دور کرنے پربھی توجہ دی جائے کیونکہ بنگلہ عوام کا مزاج ایسا ہے کہ جلد سڑکوں پر آجاتے ہیں ۔اِن حالات میں نوٹوں سے شیخ مجیب کی تصاویر اور ملک میں لگے مجسمے ہٹانے ،ملک کانیابانی ضیاالرحمن کو قراردینے عوامی اطمنان کے لیے ناکافی ہے۔ اِس تناظر میں عبوری انتظامیہ کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے ۔بنگلہ دیش کے حالات بھارتی ریاستوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اِس لیے ڈھاکہ کی ہر تبدیلی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ایک ہندو مذہبی رہنما کی گرفتاری پرچند بھارتی ہندو تنظیموں نے مظاہرے کیے اور اگرتلہ میں بنگلہ دیشی قونصلیٹ میں توڑ پھوڑ کی توجواب میں ڈھاکہ مظاہروں کی لپیٹ میں آگیا۔ بھارت ہندو اقلیت پر حملوں کا الزام لگاکربھی بنگلہ دیش پر دبائوڈال رہاہے، جبکہ ایسے واقعات کی عبوری حکومت تردید کرتی ہے۔ بنگلہ دیش میں بہنے والے اکثر دریا بھارت سے ہوکر آتے ہیں۔ دونوں ممالک میں پانی کا مسئلہ بھی دیرینہ ہے ۔علاوہ ازیں بھارتی سیکورٹی فورسززکی طرف سے سرحدوں پر بنگلہ دیشیوںکومارنے کے واقعات سلسلہ بھی تھم نہیں رہا۔ اب جبکہ عوامی لیگ کا اقتدارختم ہوچکا اورحکومت عبوری انتظامیہ کے پاس ہے ۔یہ مسائل بنگلہ دیش کو بھارت مخالف صف میں لے جا سکتے ہیں۔
اندازوں اورتوقعات کے عین مطابق بنگلہ دیش نے حکومتی سطح پر بھارت سے معزول وزیرِ اعظم حسینہ واجد کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ کر دیا ہے ۔ایسا خط موصول ہونے کی بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق بھی کردی ہے ۔یہ ایسا مطالبہ ہے جس نے دونوں ہمسایہ ممالک کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ عام خیال ہے کہ حوالگی کے مطالبے میں سنجیدگی نہیں اوریہ حسینہ مخالف عوامی لہر کومطمئن کرنے کی رسمی کارروائی ہے مگر دونوں ممالک میںمجرمان کی حوالگی کا باقاعدہ معاہدہ ہونے کی بناپر اِس مطالبے کا اِتناسادہ تصورنہیں کیا جاسکتا ۔البتہ قانونی پیچیدگیوں کی آڑمیں کچھ تاخیر کی جاسکتی ہے ،عدم حوالگی کی صورت میں بنگلہ دیش سے تعلقات خراب ہونایقینی ہیں اور اگرحوالگی ہوتی ہے تو بھارت کے حامی یہ سوچ کر متنفر ہوں گے کہ اُس کے پیشِ نظر صرف اپنا مفاد ہوتا ہے وگرنہ دیرینہ اور قابل اعتماد اتحادیوں کی قربانی میں عارنہیں سمجھتا۔
سیکورٹی کے لیے خطرہ کا باعث بننے والے مجرموں اور دہشت گردوں کو حوالے کرنے کا معاہدہ کرتے وقت بھارت کا خیال تھا کہ وہ علیحدگی پسندوں کو اِس طرح بنگلہ دیش میں چھپنے کے سلسلے کو روک لے گا جبکہ بنگلہ دیش نے بھارت میں رہ کر خطرہ بننے والے سیاسی عناصر کی سرکوبی کاخواب دیکھا ۔2016میں چند ایک ترامیم کے ساتھ معاہدے کو زیادہ سخت اور قابلِ گرفت بنادیا گیا جس کی روسے دونوں حکومتیں کسی ثبوت کے بغیربھی عدالتی طلبی پرہی کارروائی کی پابند کی گئیں۔ معاہدے کا آرٹیکل چھ کسی حدتک سیاسی حوالگی کو رَد کرنے کا جواز پیش کرتا ہے لیکن معزول وزیرِا عظم حسینہ واجد پر بدعنوانی کے ساتھ لوگوں کو بلاجواز حراست میں لیکرقتل کرنے اور نسل کشی جیسے سنگین الزامات ہیں جن میں سے کئی ایک ثابت ہو چکے ہیں۔ظاہر ہے قتل اور نسل کشی جیسے جرائم کو سیاسی مقدمات نہیں کہاجاسکتا ۔حوالگی کا یہ معاہدہ ہی اب تعلقات میں رخنہ بن چکاہے جوبنگلہ دیش کو بھارت مخالف صف کی طرف لیجا نے کی بنیاد ثابت ہونے والا ہے۔
عیاں حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارتی مفادات خطرے میں ہیں جنھیں دہلی سرکار بچانے کی ہرممکن کوشش میںہے ،حوالگی سے انکار کسی کے لیے آسان نہیں یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش کے تین اطراف میں بھارت ہے ۔اِس صورت میں بھارت سے ٹکرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اگربھارت زیادہ دبائو ڈالتاہے تو بنگلہ دیش بھی چین کی طرف جا سکتا ہے جس کا بھارت کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا ۔اسی لیے توانائی کی مدمیں واجب الادا رقم کی عدم دائیگی کے باوجود رویہ محتاط ہے ،تاکہ تبدیلیوں کے باوجود دہائیوں کی محنت کے نتیجے میں بنگلہ دیش سے ملنے والے سیاسی فوائد ختم نہ ہوں۔ بنگلہ دیش کی ہندو آبادی کی اکثریت عوامی لیگ کی حمایتی ہے جس کا سرپرست بھارت ہے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک میںایسے راسخ العقیدہ مسلمان اقتدار میں آسکتے ہیں جو بھارت پر انحصار بتدریج ختم کرتے ہوئے متبادل تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔اگر ایسا ہوتاہے جس کا امکان موجودہے تو بنگلہ دیش کو بھارت مخالف صف میں شمارکرناہی انصاف ہوگا۔