وجود

... loading ...

وجود

غربت اور غریب

بدھ 08 جنوری 2025 غربت اور غریب

ایم سرور صدیقی

صدیوں پہلے ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ غربت کی وجہ معاشرے میں چند لوگوں کو عطا کردہ ناجائز مراعات (monopoly) ہوتی ہیں۔ ورنہ ہر بے ر وزگار جائز طریقے سے اپنی زندگی باعزت طورپر بسر کرنے کا بندوبست کر سکتا ہے۔ لیکن سماجی ، معاشی و سیاسی استحصال زدہ معاشرے میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کیونکہ بے روزگاری غربت کا سب سے بڑا سبب ہے ۔لوگ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو ملوں،فیکٹریوں،صنعتی اداروں اور دیگر افرادی قوت والے کاروباری کومالکان کو سستے مزدور کیسے دستیاب ہوں گے ۔ اسی طرح سیاستدانوں کو نعرے مارنے ،آوے ای آوے ،زندہ باد کہنے اور انتخابی جلسوں میں لڈیاں ڈالنے والے ورکرنہیں مل سکتے ، جاگیرداروں ،وڈیروں اور پیروںکی غلامی کرنے والے ناپید ہوجائیں گے کیونکہ ان سب کا کاروبار تو ان پڑھ، جاہل اور غریبوںکے باعث ہی پھل پھول رہاہے ۔ جنگ غربت کی وجوہات میں سے دوسرے نمبر پر ہے اور دنیا میں جنگ نے انسانوں کو غریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگ جس بھی وجہ سے ہو اس میں انسانی
جانوں کا بلادریغ ضیاع ہونا یقینی ہے۔ ایک مْلک ،قبیلے یا علاقے کا سارا مال و دولت دوسرے علاقوں میں چلا جاتا ہے یوں وہ لوگ غربت کا شکار ہوجاتے ہیں لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے جس سے ان کی اولاد اور وہ خود بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ بلاشبہ انسان ابھی تک قدرتی آفات پر قابو نہیں پا سکا جس کی وجہ سے اس کو بہت سا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ قدرتی آفات میں سونامی، قحط، زلززلے، سیلاب وغیرہ شامل ہیں۔ قدرتی آفات کی وجہ سے انسانوں کے گھر ٹوٹ جاتے ہیں،ان کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے ۔یوں قدرتی آفات نے ہمیشہ انسانوں کی غربت میں اہم کردار ادا کیا پھر دولت کی غیر منصفافہ تقسیم کے باعث عوام کیلئے کبھی کوئی اچھا معاشی نظام نہیں قائم کیا جاسکتا ۔پاکستان،بھارت اورترقی پذیر ممالک اس کی روشن مثالیں ہیں۔ جہاں امیر ، امیرترین اور غریب مزید غریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں علم و ہنر کی کمی ہو تو وہاں بھی لوگ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ زرعی زمینوں پربے ہنگم انداز سے دھڑا دھڑ ہائوسنگ اسکیمیں بنانے سے بھی غربت کی شرح میں اضافہ ہورہاہے ۔اس سے سرمایہ چند واتھوںتک محدود ہو جانے سے بہت مسائل جنم لے رہے ہیں ۔شہروںمیں سبزی ،پھل فروٹ اور لائیو اسٹاک کی کمی سے نہ صرف اشیائے ضرورت مہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں بلکہ لوگوںکے وسائل بھی کم ہورہے ہیں ۔اس سنگین صورت ِ حال کا حکمرانوںکو اندازہ ہی نہیں ۔یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو پاکستان جیسے زرعی ملک کو بھی خلیجی ممالک کی طرح برآمدات کی طرف جانا پڑے گا جو غربت کا مزید پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی بیشتر آبادی خوراک کی کمیابی کی وجہ سے شدید بھوک سے دو چار ہے تقریباًً آدھی دنیا یعنی تین ارب سے زیادہ لوگ روزانہ ڈھائی امریکی ڈالر سے کم آمدنی پر گزارا کرتے ہیں۔ 56 کروڑ 70 لاکھ لوگوں پر مشتمل 41 مقروض ممالک کی مجموعی جی ڈی پی (Gross domestic product) دنیا کے 7 امیر ترین لوگوں کی مجموعی دولت سے کم ہے۔ تقریباًً ایک ارب لوگ اکیسویں صدی میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے ہیں اور نہ دستخط کر سکتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کے ممالک اپنے دفاعی بجٹ کا صرف ایک فیصد تعلیم پر خرچ کرتے تو 2024ء تک ہر بچے کے لئے اسکول جانا ممکن ہو جاتا جو نہ ہو سکا ۔خوفناک بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھرکے ایک ارب بچے انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں جن کو طبی سہولیات سرے سے ہی میسرنہیںجبکہ خوراک ولباس اور تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ 64 کروڑ بچوں کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ 40 1کروڑ کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ 27 کروڑ کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق2023 تک مختلف بیماریوں کا شکار ہوکرروزانہ 5سال عمر کے لگ بھگ 29000 بچے وفات پاجاتے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کہ معاشی لوازمات زندگی کے اعتبار سے غربت کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ غربت کسی انسان (یا معاشرے) کی ایسی حالت کا نام ہے جس میں اس کے پاس کم ترین معیار زندگی (minimum standard of living) کے لیے لازم اسباب و وسائل کا فقدان ہو۔ سادہ سے الفاظ میں کہا جائے تو یوں کہ سکتے ہیں کہ ؛ غربت، بھوک و افلاس کا نام ہے۔ جب کسی کو اتنی رقم میسر نہ ہو کہ وہ اپنا یا اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھر سکے تو خط ِ غربت کے نیچے زندگی بسر کررہاہے ،ان میںاگر کوئی بیمار ہو جائے اور اس کے پاس اتنی مالی استعداد نہ ہو کہ وہ دوا حاصل کر سکے تو یہ غربت ہے۔ جب کسی کے پاس سر چھپانے کی جائے پناہ نہ ہو تو یہ غربت ہے اور جب بارش میں کسی کے گھر کی چھت ایسے ٹپکتی ہو کہ جیسے وہ گھر میں نہیں کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہو تو یہ غربت ہے۔ جب ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کی بجائے چائے پلانے پر مجبور ہو تو یہ غربت ہے۔ یہ وہ پیمانے ہیں جو کم از کم معیار زندگی کو مدنظر رکھ کر گنوائے جا سکتے ہیں۔
غریبوں کی آواز نامی ایک این جی او کے آن لائن سروے کے مطابق 23 ممالک میں 20000 افراد سے پوچھنے پر غربت کے عوامل کا جائزہ لیا گیا کہ احساس کمتری غربت کی سب سے خوفناک شکل ہے۔ ایک اوربین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ‘سیو دی چلڈرن’ کی جانب سے جاری کیے گئے تجزیے کے مطابق پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے، جہاں بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد،20فیصد سے زیادہ غذائیت کی کمی کا شکار ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ2024 میں دنیا بھر میں کم از کم ایک کروڑ82 لاکھ یا فی منٹ تقریباً 35 بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے، تنازعات اور ماحولیاتی بحرانوں نے سال بھر میں کم از کم مزید 8لاکھ بچوں کو بھوک کی طرف دھکیل دیا۔ تجزیے کے مطابق2001 میں 2 کروڑ15 لاکھ سے زائد بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے، 2018 میں یہ تعداد کم ہو کر ایک کروڑ45 لاکھ رہ گئی تاہم پھر2019 میں بڑھ کر ایک کروڑ 53لاکھ ہوگئی، ایک اندازے کے مطابق 2024 میں کم از کم ایک کروڑ82 لاکھ بچے غذائیت کی کمی کے ساتھ پیدا ہوئے اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 5 فیصد اضافہ ہوا اور پانچ سال پہلے 2019میں ریکارڈ کیے گئے ایک کروڑ 53 لاکھ بچوں کے مقابلے میں19 فیصد اضافہ ہوا ہے جب بچوں کی بھوک سے نمٹنے میں پیش رفت کم ہوئی تھی تنازعات، نقل مکانی، شدید موسمی واقعات اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عالمی سطح پر بچوں کی غذائیت میں کمی کا سبب بنایا ہے۔ اس سال بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں میں قحط یا شدید غذائی عدم تحفظ کے تباہ کن حالات کے خطرے سے دوچار ممالک میں پیدا ہونے والے بچے شامل ہیں جن میں جنوبی سوڈان، ہیٹی، مالی اور سوڈان شامل ہیں، جہاں غذائی قلت ملک کی 18 ریاستوں میں سے نصف تک پھیل چکی ہے۔ اس کے علاوہ نومبر کے اوائل میں اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ شمالی غزہ کی پٹی میں قحط پڑ سکتا ہے یا پہلے ہی جاری ہے اور آنے والے مہینوں میں فلسطینی علاقوں میں 3لاکھ 45 ہزار افراد کو تباہ کن بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے کو غذائی قلت سے متعلق ایف اے او کے سالانہ اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ انتباہ بھوک سے متعلق معروف عالمی اتھارٹی انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن کی طرف سے آیا ہے۔سیو دی چلڈرن’ میں بھوک اور غذائیت کی عالمی سربراہ حنا اسٹیفنسن کا کہنا ہے کہ اس سال ایک کروڑ80 لاکھ سے زائد نوزائیدہ بچے یعنی فی منٹ 35 بچے ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوئے جہاں ان کی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی بھوک ایک حقیقت ہے، بھوک کی کوئی حد نہیں ہوتی، یہ بچپن کو ختم کرتی ہے، بچوں کی توانائی کو ضائع کرتی ہے اور ان کا مستقبل چھیننے کا خطرہ بن جاتی ہے اس لئے بچوں کو کلاس میں کھیلنے یا اپنے دماغ کو وسعت دینے کے لئے آزاد ہونا چاہیے، کسی بھی بچے کو اس بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا اگلا کھانا کب ہوگا۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ہمیں خوراک، غذائیت، صحت کی دیکھ بھال، صاف پانی، صفائی، حفظان صحت، سماجی تحفظ اور ذریعہ معاش کی مدد کی اشد ضرورت والے بچوں اور خاندانوں کو انسانی زندگی بچانے والی خدمات کے لیے فوری فنڈنگ اور محفوظ رسائی کی ضرورت ہے، ہمارے پاس ماضی کی طرح اس وقت غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لئے اقدامات ناگزیرہیں اگر ہم بھوک اور غذائی قلت کی بنیادی وجوہات سے نہیں نمٹتے تو ہم بچوں کیلئے کی جانے والی پیش رفت کو مزید بہترکیا جائے۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ خوراک کے بحران میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں اور کھانے کے لیے کافی مقدار اور مناسب غذائی توازن کے بغیر بچوں کو شدید غذائی قلت کا خطرہ ہوتا ہے، غذائیت کی کمی سے ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے، مہلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بالآخر یہ موت کا سبب بن سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں کم از کم 20فیصد آبادی کو بھوک کا سامنا ہے، کانگو اس میں سرفہرست ہے جہاں اس سال سب سے زیادہ16 لاکھ بچوں کی غذائی قلت کے ساتھ پیدا ہونے کی توقع کی جا رہی تھی جبکہ کانگو اور عالمی سطح پر تنازعات بھوک کی ایک اہم وجہ بنے ہوئے ہیں۔ سیو دی چلڈرن عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ شدید خوراک اور غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات کو حل کریں جس میں تنازعات کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کرنا، موسمیاتی بحران اور عالمی عدم مساوات سے نمٹنے اور صحت، غذائیت اور سماجی تحفظ کے زیادہ لچکدار نظام کی تعمیر شامل ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ پوری دنیا کے پسماندہ،ترقی پذیر اور غریب ممالک میں ایک مربوط حکمت ِ عملی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غربت دورکی جاسکے ہر نسل، رنگ، مذہب،قومیت سے بالاتر ہوکر غربت کے خاتمہ کیلئے عالمی رہنمائوںکو سوچناہوگا کہ یہی انسانیت کا تقاضاہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عمران خان کی رہائی یقینی ہے ! وجود بدھ 08 جنوری 2025
عمران خان کی رہائی یقینی ہے !

بنگلہ دیش بھی بھارت مخالف صف میں وجود بدھ 08 جنوری 2025
بنگلہ دیش بھی بھارت مخالف صف میں

غربت اور غریب وجود بدھ 08 جنوری 2025
غربت اور غریب

امید کے خلاف امید وجود منگل 07 جنوری 2025
امید کے خلاف امید

ملکی سیاست میں تلاطم وجود منگل 07 جنوری 2025
ملکی سیاست میں تلاطم

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر