... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نئی دنیا ہے ! کیا بالکل نئی!وقت جہاں بگٹٹ بھاگتا ہے، جسے تھامنے کی جدوجہد میںانسان گاہے جانور بن جاتا ہے۔ کامیاب لوگ، اپنے لمحۂ آخر میں سوچنے لگتے ہیںکہ یہ کامیابی کیا ہے؟ اُن کے ہاتھ سے کیا چیزیں پھسل گئیں؟ دوسری طرف ناکام لوگ ان ہی کامیاب لوگوں کی زندگیاں دیکھ کرمایوسی کے برباد لمحات اوڑھے رکھتے ہیں۔ کیا اس نئی دنیا میں کامیابی اور ناکامی کی کوئی قابل تسلیم بنیاد ہے؟ دنیا کا امیر ترین آدمی ایلون مسک کہتا ہے وقت پر مرجانا چاہئے۔ یہ تصور ایک بحث سے جڑا ہے جس میں کچھ لوگ موت کو شکست دینے اور انسان کے اندر موجودحیات کے جوہر کو دریافت کرتے ہوئے یہ سوچنے لگے ہیںکہ سائنس انسان کو ایک لمبی زندگی دے سکتی ہے۔یہ کس کی آرزو نہیں؟ سال 2024 میں میں طویل العمری ایک تحقیق کا موضوع بنی رہی ۔گزرے برس کے آخری چند دنوں کے چند گھنٹے کیمیا میں 2009 کے نوبل انعام میں شریک ماہر وینکی رامک کرشنان کی ایک کتاب کے ساتھ گزرے۔ سوال وہی ہے، جو کتاب کا نام بھی یعنی
Why We Die۔ ابھی نئے سال کے پورے پانچ دن بھی نہیں گزرے کہ چین سے ایک تحقیق اسی موضوع پر متوجہ کر رہی ہے۔ چینی سائنس دان جگر میں بننے والے ایک مادے کو درازی ٔ عمر کے محرک کے طور پر شناخت کر رہے ہیں۔ ایک سوال جس سے سائنس کو کوئی سروکار نہیں ، رواں برس بھی جسے زیر بحث نہیںآنا ہے کہ آخر انسان کیوں جینا چاہتا ہے؟ بات اتنی ہے کہ وہ جینا چاہتا ہے، بس۔پھر بات یہ بھی ہے کہ جو سانس لے رہے ہیں ، کیا وہ جی بھی رہے ہیں؟
خود انسان کے اندر اس کے مادۂ حیات سے رازِ بقا تلاشا جا سکتا ہے۔ مگر سوال ایک دوسرا بھی ہے کہ ایک قوم کی طویل العمری کا راز کہاں سے ملے گا؟ حساس پاکستانیوں کو گزشتہ چند برسوں میں خود اپنے تحفظ سے کہیں زیادہ اس سوال سے سامنا پڑا ہے۔یہ ایک غیر معمولی الجھن ہے۔ جو ریاست کبھی اپنے عام آدمی کے لیے حساسیت کا مظاہرہ نہیں کر سکی، وہی عام آدمی ریاست کے لیے بے حد حساس کیوںہے؟ منطقی طور پر اُسے لاپروا ہونا چاہئے۔ مگر وہ نہیں ۔ کیوں؟ سال 2025 کا سوال یہی ہے۔ یہ سوال ارشد ندیم کی تھرو کی طرح ہدف پر نہیں اُچھالا جا سکتا کیونکہ اس میں کامیاب ہونے پر ارشد ندیم کی طرح انعامات نہیں ملنے والے ہیں، بلکہ یہ سوال’ ڈی چوک’ والے خطرات رکھتا ہے۔ ڈی چوک جہاں ریاست نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو نہیں اپنے اعتمادکو ہدف بنایا، گزشتہ برس کے آخری ہفتوں کا سب سے سنگین واقعہ تھا۔اپنے تئیں کچھ نظریات کی باڑھ میں کچھ لوگ ریاست کے مثیل بن کر رہے، اب بے رحم سوالات کے نرغے میں ہیں۔ چوبیس کروڑ لوگوں کی تقدیر کے مالک چند لوگ جن کے پاس حب الوطنی کی سند بانٹنے کا اختیار ہے، خود اپنے ہی اختیار کے اب شکار ہیں؟ اُن کے پا س جواب نہیں، بس طاقت ہے، جس سے وہ سوالات کا راستہ روکتے ہیں۔ گزشتہ برس انٹر نیٹ کی بندش کو ہتھیار استعمال کرنے کی ذہنیت سے برتا گیا۔ چنانچہ سوال بھی محفوظ حصار کو توڑنے کے تیور سے پوچھے جاتے رہے۔ اس اعتبار سے سال 2024 سوالات کا ہی نہیں بھرم ٹوٹنے کا بھی سال تھا۔
ڈی چوک کے بعد ایک دھوکا بھی تخلیق کیا گیا جس میں تحریک انصاف کے اندر موجود لوگ مددگار بنے۔ یہ رانا مشہود کی مانند تھے، جو وزیر اعظم کی نمائشی ویڈیو کا حصہ بنے۔ جس میں ظاہر کیا گیا کہ وزیراعظم ارشد ندیم کی تھرو کا راست نظارہ ٹی وی پر کررہے ہیں۔ بعد ازوقت بنائی جانے والی اس ویڈیو کا دھوکااور نمائشی ہَوکا ہمارے سیاسی ، مذہبی، تعلیمی، سائنسی قائدین سے لے کر پورے سماج میں سرایت کر گیا ہے۔ اس طرزفکروعمل نے ایک آکاس بیل کی طرح قومی وجود کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔
گزشتہ برس صرف جعلی ویڈیو ہی نہیں کچھ حقیقی ویڈیوز بھی توجہ کا مرکز رہیں۔ ایک حیات بخش بصری فیتہ فلسطین کی مزاحمت سے اُبھرا۔ ایک حقیقی ویڈیو میں ہم نے یحییٰ سنوار کو دیکھا جو اپنی ظاہری موت کے لمحُۂ آخر میں ایک لکڑی سے ڈرون کی مزاحمت کر رہے تھے۔ زندگی کو زندگی بنانے اور موت کو شکست دینے والے اس ولولہ انگیز لمحے نے سال گزشتہ کو نہیں صدیوں کو آبرو دی۔ یہ ویڈیو مزاحمت کے معنی نہیں سمجھاتی بلکہ خود مزاحمت کو ایک معنی دیتی ہے ۔ ایسا عزم فصاحت کی زبان گنگ اور بلاغت کے دریا خشک کر دیتا ہے۔ سال 2024 کی اس ویڈیو کوتاریخ کے دوام میں ہمیشہ یاد گار رہنا ہے۔ مسلمانوں کے ملی وجود کے تصور کے درمیان ایک اور ویڈیو بھی سامنے رہی جس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کینیا کے جزیرے کے قریب گہرے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہوئے پیراکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سمندر کے اسی شور میں علامہ اقبال کا مصرعہ گونجتا ہے
مُلّا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور
ڈاکٹر ذاکر کی ویڈیو ایک علامتی تذکرہ ہے کیونکہ یہاں حافظ نعیم الرحمان کو زیربحث لانے سے پیداہونے والے خطرات کا کوئی اندیشہ نہیں۔ تمام ہی مذہبی زعماء چھلانگیں لگا رہے ہیں، اچھل کود کر رہے ہیں۔تیر رہے ہیں۔سب کا ہدف کچھ تصویریں، کچھ بصری فیتے ہیں۔ اس مرحلۂ فکر پر زندگی کے تمام معنی خیز اہداف اوندھے منہ پڑے ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ یہاں یحییٰ سنوار بھی مال تجارت بنا دیا جاتا ہے۔
کیا کچھ بدلے گا؟ سال 2025 کا ایک سوال یہ بھی ہے۔ تعلیمی میدان میں مکمل ناکام اور مذہبی شعور میں ایک اپاہج زدہ مخلوق کے رحم وکرم پر جینے والی قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔ جواب تو کجا وہ یہ سوال پوچھنے کی سکت بھی نہیں رکھتی۔ ایک قوم کا سب کچھ کسی کے رحم وکرم پر ہو، زمین و آسمان سے لے کر گردو پیش تک، سیاسی ارادے سے لے کر مذہبی ، ملی ، تاریخی اور تہذیبی شعور تک، کسی چیز میں اس کا عمل دخل باقی نہ رہے۔ مقامیت سے لے کر عالمگیریت تک کہیں کچھ بھی اس کی دسترس میں نہ ہو، وہ سال گزشتہ کا لیکھا جوکھا کیا بنائے ، اور سال نو کا منصوبہ کیا سوچے؟ایسی قوم اپنے دن کو رات اور رات کو دن کرنے میں بھی ہانپتی ،کانپتی،لرزتی ، لڑھکتی رہتی ہے۔
گزشتہ برس ایسے گزرا کہ جس کا ہر لمحہ خو دپر ترس کھانے سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ہوا۔ کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ پاکستان میں 2024 میں 14لاکھ بچے بھوک یا غذائیت کی کمی کی حالت میں پیدا ہوئے ۔ اس لرزا دینے والی حقیقت کے ساتھ ایک چونکا دینے والی سنگینی بھی ہے کہ اس معاملے میں پاکستان دنیامیں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ پہلاافریقی ملک کانگو ہے جہاں 16لاکھ نوزائیدہ بچے غذائیت کی کمی کے شکار ہیں۔ دنیا اس پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے مگر پاکستان میںکہیں تشویش کی کوئی لہر دکھا ئی نہیں دیتی۔ ہماری ترجیح کا نقطہ ٔ اول انٹرنیٹ میں خلل ڈالنا ہے۔ اس کے لیے جتنے ریاست کے وسائل استعمال کیے گئے وہ ان 14 لاکھ بچوں کے لیے زندگی بھر کے وسائل پیدا کرنے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ثابت ہو تے۔ سال2024کا سورج غروب ہوا تو یہ انٹرنیٹ کی بندش ہی تھی جس کے اثرات و نقصانات میں ہم دنیا بھر میںسرفہرست رہے۔ پاکستان کے اندر انتخابات، اطلاعات کے بہاؤپر کنٹرول اور احتجاج کے تین محرکات نے سمندر میں موجود شارک مخلوق کو اکسائے رکھا کہ وہ کیبل کی تاروں کو اپنی غذا بنا تی رہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے دیوتاؤں کو شارک کو سمجھانا آتا ہے مگر پاکستان کے عوام کو نہیں۔ انٹرنیٹ سے اس چھیڑ خانی کے سبب پاکستان پر ایک ارب 62 کروڑ ڈالر کے مالیاتی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ صورت حال خانہ جنگی سے دوچار سوڈان او رمیانمار سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 18فروری سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا جاری شٹ ڈاؤن سب سے مہنگا ثابت ہوا۔دانستہ انٹرنیٹ کی بندش کے 18واقعات میں 9,735 گھنٹے اچک لیے گئے۔ سال نو کی پہلی ہی تاریخ کو جب چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں طلب کیے گئے تو انہوں نے اس پورے سنگین منظرنامے کے جواب میں یہ زرّیں الفاظ کہے”آج پہلی بار پتہ چلا کہ انٹرنیٹ کی بندش غلط ہوتی ہے ”۔
نئے سال کا آغاز ہم نے اس گیان و عرفان کے ساتھ کیا ہے۔یہ ایسے ہی پیدا نہیں ہوا ، اس کے پیچھے فارم 47 کا خسران بھی ہے۔ جسے حالت ِ نِروان میں عوام نے قبول کیا۔ پاکستان کا سال 2024 دراصل ہمارے خوابوں کا ملک چھین لینے کا سال ہے، جس میں اس نوع کی مخلوق ہم پر مسلط کر دی گئی۔ جو پوری رکاکت سے ایک جعلی ویڈیو ہم پر تھرو کر سکتی ہے۔ ایک جعلی عدلیہ ہم پر حاوی کر سکتی ہے۔ ایک جعلی پارلیمنٹ ہم پر سوار کرسکتی ہے۔ ایک جعلی الیکشن کمیشن ہم پر غالب کرا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 2025 میں ہم اپنا ملک بازیاب کر الیں گے، جو 1958 سے یرغمال ہے؟ یقین کے خلاف ایک یقین عمران خان نے پیدا کیا جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہیبت ناک بہادری سے اس کھیل کا سامنا کرتے ہوئے زنداںکے خوف کو توڑد یا۔اور نظام کی سیاسی ، نظریاتی، مذہبی ، اخلاقی، اقداری نقابیں نوچ ڈالیں جو لفظوں کی گوٹاکناری سے بہانے بہانے ایک بہیمانہ طاقت کا تحفظ کرتی تھیں۔ سال 2025 میں داخل ہوتے ہوئے امید کے خلاف یہی ایک امید باقی رہ گئی ہے، جو اتنی بے خطر بھی نہیں۔ کیونکہ ایک انسان کی طویل العمری کا طبی حل تو مل سکتا ہے مگر ایک قوم کا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔