... loading ...
ایم سرور صدیقی
ان دنوں ملکی سیاست میں ایک تلاطم آیاہواہے۔ عدم سیاسی استحکام نے ملک کی بنیادیں ہلاکررکھ دی ہیں۔ رہی سہی کثر معیشت کی زبوں حالی نے نکال دی ہے ۔حکمرانوںکا وہی طرز ِ عمل ہے جس نے پاکستان کو دو لخت کرکے رکھ دیا تھا۔ لگتاہے سول وعسکری قیادت، بیورو کریسی اور حزب ِ مخالف نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور کوئی سبق حاصل کرنابھی نہیں چاہتا کہ سب کے سب خودکو سقراط ، بقراط سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر جمہوری حکومت میں اپوزیشن جماعتیںاحتجاج کرنا فرض سمجھ لیتی ہیں۔ کبھی لانگ مارچ ،کبھی دھرنوں اور کبھی کسی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ الگ بات کہ پاکستان میں آج تک کسی لانگ مارچ کے نتیجہ میں حکومت کو چلتا نہیں کیا جا سکا۔اپوزیشن ہمیشہ نامراد لوٹی ہے۔ حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کو خوش کرنے کیلئے وزارتوں اور مراعات کے اتنے دلکش تحفے عنایت کردیتی ہے کہ ناراض راضی ہونے میں منٹ نہیں لگاتے۔ یہی پاکستان کی پون صدی کا سیاسی فسانہ ہے۔ اب بی اے پی، ایم کیو ایم و دیگر اتحادیوں مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری خوش باش ہیں۔ البتہ بلاول بھٹو کچھ ناراض ناراض ضرور ہیں۔ وہ شہبازشریف سرکار کے خلاف کبھی دبی دبی آواز میں کبھی الٹی سیدھی اردو بول کر اس کااظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔اس لئے حکومت نے اتحادی جماعتوں کے گلے شکوے اور تحفظات فوری دور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
تحریک ِ انصاف کے ساتھ آج جوکچھ ہورہاہے عوام اس کے لئے بہت مضطرب ہیں ۔سانحہ 9 مئی اورسانحہ26نومبر کے تناظر میں پی ڈی ایم کی حکومت سے عوام بہت سے تحفظات کا شکارہیں جبکہ تحریک ِ انصاف کے کچھ رہنمائوںکا خیال ہے کہ شہبازشریف کی حکومت میں پاکستان جمہوریت سے دور اور آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے ، قانون کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں ۔ وزیراعظم کے حکم پرڈی چوک میں پرامن احتجاجی مظا ہرین پر بے انتہا ریاستی جبرکرتے ہوئے انہیں گولیاں مارنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ ویسے اگر یہ بات حقیقت ہے تو ابھی تک کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی، ویسے جوکچھ ہوا اس کی ذمہ داری حکومت پرہی عائد ہوتی ہے۔ اس لئے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کیلئے حکمرانوںکو ضرور سوچنا چاہیے۔ ویسے بانی پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں، صرف ہم اس سسٹم کے خلاف لڑ رہے ہیں تاکہ ملک میں قانون کی بالادستی ضروری ہو۔ اس وقت معاشی بحران سنگین ہوچکاہے ۔ سانحہ9 مئی اور سانحہ26 نومبر انسانی حقوق پر حملہ کے مترادف ہے ۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن ایک بات ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد اور مفاہمت ان کے اقتدار کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ اگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کی سیاست تگڑی ہوتی تو ن لیگ بحیثیت سیاسی جماعت ختم ہوچکی ہوتی ،لیکن پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے آگ اور پانی کو اکٹھا کرکے رکھ دیاہے۔ ماضی میں ان دونوں جماعتوںکی محاذ آرائی چار دہائیوںپر محیط ہے ۔اس محاذ آرائی نے فتنہ وفساد بپا کئے رکھا اور دونوں جماعتوںکے نظریاتی ایک دوسرے کے
دشمن بن گئے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی میں ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے عمران خان دشمنی میں اکٹھے ہو چکے ہیں، اب حقیقت حال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ مل کر بھی عمران خان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔بہرحال حالات بتاتے ہیں کہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتاجارہاہے ۔لیکن کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ جب تلک اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ ہے، میاں شہبازشریف وزیر ِ اعظم رہیں گے۔ موجودہ حکومت کو اگرخطرہ ہے تو مہنگائی سے ہے حکومت کی ناقص حکمت ِ عملی، گراںفروشوں سے صرف ِ نظر،غلط منصوبہ بندی اور غیرملکی قرضوںکے باعث عوام کے لئے دووقت کی روٹی کھانا مشکل ضرور ہو گیا ہے، یہ لاوا پھٹاتو سب کچھ بہاکر لے جائے گا۔پی ٹی آئی ان حالات سے سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے لیکن وہ فی الوقت اس پوزیشن میں نہیں۔ یاسمین راشد کا کہناہے کہ ہمارے5800کارکن جیلوںمیں ہیں ،ہزاروں لاپتہ ہوچکے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی ،ان کی اہلیہ اور چوٹی کے تمام رہنمائوںکے خلاف درجنوں مقدمات ہیں۔ ان حالات میں واحد اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کوئی نیا محاذ کھولنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اسی مجبوری سے حکمران فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں موجودہ حکومت کا اپنے اتحادی کے ساتھ اتحاد غیرفطری ہے ۔لیکن پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کے خوف سے اسی تنخواہ پر گزارا کرتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔