... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
5دسمبر کو مہاراشٹر کے اندر زبردست اکثریت کے ساتھ بی جے پی کے قائد دیویندر فڈنویس نے انتظار بسیار کے بعد وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لے لیا۔ اس کے بعد وزارتوں کی خاطر مہایوتی کے ارکان اسمبلی آپس میں بھڑ گئے اور وہ سلسلہ 15 دسمبر تک جاری رہا یہاں تک این سی پی کے دھننجئے منڈے بھی وزیر بن گئے ۔ اس درمیان ان کے دایاں ہاتھ سمجھے جانے والے والمیک کراڈ نے 9 دسمبر کو بیڑ کے مساجوگ گاوں میں سرپنچ سنتوش دیشمکھ کا نہایت بہیمانہ قتل کروادیا۔ والمیک نے دھننجئے کی حلف برداری کا انتظار تک نہیں کیا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ منڈے کو تو وزیر بننا ہی بننا ہے اور اگر نہیں بنے تو بھی کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا اس لیے کہ وہ دھننجئے وہاں کا بے تاج بادشاہ ہے۔ انسانی قتل اپنے آپ میں سب سے بڑا جرم ہے مگر جس طرح سنتوش کی جان لی گئی وہ رونگٹے کھڑی کردینے والی واردات ہے ۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی انسان اتنا ظالم کیسے ہوسکتا ہے ؟
سنتوش دیشمکھ کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ اس کے جسم پر مختلف ہتھیاروں کے نشانات تھے ۔ اسے اس طرح نذرِ آتش کیا گیا کہ آنکھیں بھی جل گئیں۔ اس سے قبل اس کی زبان کاٹ لی گئی اور منہ میں پیشاب کیا گیا ۔ اس قتل کا ارتکاب کرنے والوں کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ جس وقت یہ مظالم ڈھائے جارہے تھے اس وقت وہ لوگ سنتوش کے کے بھائی سے فون پر بات کررہے تھے ۔اناجی پنت نامی برہمن نے بادشاہ چھترپتی سنبھاجی مہاراج کا ایسا ہی ظالمانہ اور گھناؤنا قتل کیا تھا۔ عالمگیر اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کو دن رات بدنام کرنے کی سعی انہیں برہمنوں کے ظلم و جبر کی پردہ پوشی کے لیے ہے۔ اس طرح کی بے رحمی کا مظاہرہ کوئی مسلمان نہیں بلکہ صرف اور صرف اناجی پنت کی فطرت کے حامل ہی کر سکتے ہیں ۔ دیویندر فڈنویس کی پیشوائی نے ان کے حوصلے بلند کردئیے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے ایسے ہی قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ایکناتھ شندے کے لاکھ ہاتھ پیر مارنے کے بعد بھی وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے ہی پاس رکھا ورنہ یہ کیوں کر ممکن ہوتا کہ قتل 20دن بعد بھی اس قتل و غارتگری کے کلیدی ملزم والمیک کراڈے کو پولیس گرفتار نہیں کر پاتی۔یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آگئی ہے کہ سنتوش دیشمکھ کا قاتل ریاستی وزیر دھننجے منڈے کاسب سے قریبی ساتھی تھا اس لیے اسے تحفظ دینے کی ذمہ داری صوبے کے وزیر اعلیٰ نے ادا کی۔ ریاستِ مہاراشٹر کی تیز طرار پولیس کی ناک میں جب سیاست کی نکیل ڈال دی گئی تو اس کی کیا مجال تھی کہ سرکاری مقربین کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالتی لیکن مثل مشہور ہے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح سیاسی دباو کے آگے موجودہ حکومت کو جھکنا پڑا ۔ پچھلے سنیچر کو اگر بیڑ میں بی جے پی سمیت ساری سیاسی جماعتوں کے قائدین جمع نہ ہوتے ۔ ان کے ساتھ ہزاروں لوگ سڑکوں پر اتر کر قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ نہ کرتے تو موجودہ حکومت کسی طور پر والمیک کراڈ کو حراست میں نہیں لیتی ۔ ایسے میں بھی پولیس کو اسے گرفتار کرکے ناموری کا موقع نہیں دیا گیا بلکہ بھونڈے فلمی انداز میں والمیک کراڈ نے پیشوائی کے دارالخلافہ پونے میں سی آئی ڈی کے دفتر پہنچ کر خود سپردگی کا ناٹک کیا یعنی کل تک جو زیر زمین عیش کررہا تھا اب جیل کے اندر کرے گا۔
والمیک کراڈ کی ڈھٹائی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ خود سپردگی سے پہلے ایک انڈر گروانڈ ملزم ویڈیو جاری کرکے خود کو بے گناہ قرار دیتا ہے ۔ اس کے پولیس تھانے میں آنے سے قبل حواریوں کا جتھا سی آئی ڈی دفتر پہنچ کر نعرے لگا نے لگتاہے کیونکہ سیاّں بھئے کوتواال تو پھر ڈر کاہے کا؟ یہی یقین َ کامل ان کو بلا خوف و خطر ایک ملزم کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر اس کی حمایت کی ترغیب دیتا ہے ۔وہ اگر خود کو سپرد نہ کرتا اور پولیس اسے گرفتار کرکے لاتی تو بعید نہیں کہ یہ بھیڑ اسے چھڑا لے جاتی اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی۔ والمیک کراڈ کی خودسپردگی کاشوروغل پورے شہر کے اندر صبح سے تھا مگر پولیس اہلکار گھوڑے بیچ کر سور ہے تھے ۔ میڈیا اور اس کے حامیوں کو پیشگی معلوم ہوچکا تھا کہ وہ کب اور کہاں ہتھیار ڈالنے والا ہے ورنہ پونے سی آئی ڈی کے دفتر میں صبح 9 بجے سے میڈیا والوں اور والمیک کراڈ کے حامیوں کا پہونچنا ناممکن تھا۔ اس سرکاری داماد کی آمد کے خوف سے پولیس نے اپنے دفتر کے احاطے میں بندوبست سخت کر دیا کہ کہیں کوئی انہونی نہ ہوجائے ۔
صبح 10 بجے پونے کرائم برانچ کے ڈی سی پی نکھل پنگلے ، اور ڈیویژن ایک کے سندیپ گل والمیک کراڈ کے استقبال کی خاطر سی آئی ڈی کے دفتر پہنچ گئے اور تمام انتظامات کا جائزہ لیا تاکہ معزز مہمان کو کوئی زحمت نہ ہو ۔ صبح ١١ بجے کے آس پاس میڈیا میں یہ خبر آگئی کہ ایک گھنٹے بعد جہاں پناہ کی خود سپردگی ہوگی مگر اس سے قبل والمیک کراڈ نے ویڈیو جاری کرکے خودکو بے گناہ قرار دیا ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے سیاسی انتقام لینے کی خاطر قتل کیس سے جوڑا جا رہا ہے ۔ اس بیان کے برعکس پولیس کا کہنا ہے کہ سنتوش دیشمکھ کو مبینہ طور پر ایک ونڈ مل کمپنی سے رقم کا مطالبہ کرنے والے کچھ افراد نے تاوان کی مخالفت کرنے پر اغوا کر کے کراڈ کے ایماء پر بے دردی سے قتل کر دیا ۔ اب اپنے آپ کو مسیحا ثابت کرنے کے لیے وہ کہتا ہے کہ وہ خود سرپنچ سنتوش دیشمکھ کے قاتلوںکو گرفتار کرواکر انہیں پھانسی کی سزا دلوانا چاہتا ہے لیکن چونکہ اس کے خلاف اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے ا س لئے وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کر نے جا رہاہے ۔
اس کے معصومانہ بیان کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ فڈنویس سرکار ان سارے لوگوں کو پھانسی کے تختے پر پہنچا دے گی جنھوں نے گراڈ جیسے مہاپوروش کے خلاف شکایت درج کرائی ہے ۔ وقت مقررہ کے پندرہ منٹ بعد آب و تاب کے ساتھ والمیک کراڈ ایک سفید رنگ کی اسکارپیو گاڑی میں بیٹھ کر سی آئی ڈی دفتر میں داخل ہوگیا۔ اسے دیکھتے ہی وہاں موجود حامیوں نے نعرے لگانے شروع کردئیے ۔ پولیس کو شرم آئی تو اس نے نعرے لگانے والوں کو احاطے سے باہر کیا اور گاڑی سے اترتے ہی والمیک کراڈ کو حراست میں لے لیا۔ انسانی تاریخ میں کسی قتل کے ملزم کی ایسی آو بھگت نہیں ہوئی ہوگی ۔ ایک طرف پربھنی کے اندر احتجاج کرنے والے طالبعلم سومناتھ سوریہ ونشی کو پولیس حراست میں ہلاک کردیا جاتا ہے دوسری جانب قتل کے ملزم والمیک کراڈ کو ہیرو بنایا جاتا ہے ۔ یہی وہ پیشوائی ہے جس کے خلاف سو سال قبل یکم جنوری کو مہار بریگیڈ نے انگریزوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تھی اور اسے سبق سکھایا تھا مگر اب وہ پھر سے اقتدار پر قابض ہوگئے ہیں۔
اب یہ حال ہے کہ وہ سارے رہنما اور سماجی کارکنان جوکراڈ کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے اس کی خود سپردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
شیواجی کے خاندن سے تعلق رکھنے والے سمبھاجی راجے نے پوچھا کہ ایک رو زقبل دھننجے منڈے نے دیویندر فڈنویس سے ملاقات کی اور اگلے روز والمیک کراڈ خود سپردگی کر دی۔ یہ اپنے آپ میں ایک تحقیق طلب معاملہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد ہی والمیک کراڈ کو خود سپردگی کا خیال کیوں آیا؟ انہوں نے کہا کہ والمیک کراڈ پر ہفتہ وصولی کا معاملہ درج کیا گیا حالانکہ وہ سنتوش دیشمکھ کے قتل میں براہ راست ملوث ہے ۔ اس لئے اس پر قتل کا معاملہ درج کرنا ضروری ہے ۔ سمبھاجی راجے نے دھننجے منڈے کو کابینہ سے فوری طور پر برخاست کرنے کا مطالبہ کرکے انہیں بیڑ کا نگراں وزیر ہر گز مقرر نہیں کرنے کی تاکید کی۔
وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اس معاملے میں نریندر مودی کی مانند اپنا منہ موڑ رکھاہے ۔ مودی منی پور نہیں جاتے اور فڈنویس بیڑ جانے سے کتراتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران جب ان سے اس بابت سوال کیا گیا تو وہ الٹا بیڑ کا دورہ کرنے والے لیڈران اور سماجی کارکنان پر تنقیدکرنے لگے اور ان پر ایک المناک واقعے کو ‘سیاحت ‘ کا بہانہ بنانے کا الزام لگادیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے بیڑ جانے والوں میں شرد پوار کے علاوہ اجیت پوار بھی شامل ہیں ۔ ان کی اپنی بی جے پی کے سریش دھس اور ابھیمنیو پوار بھی بیڑ جاچکے ہیں ۔وزیر اعلیٰ پر اقتدار نشہ چڑھ گیا ہے اور یہی ان کی تباہی کا باعث بنے گا ۔معروف سماجی کارکن انجلی دمانیا نے کہا کہ 17 دسمبر کو والمیک کراڈ کا آخری فون پونے میں بند ہوا تھا۔ جبکہ اس نے پولیس کو خود سپردگی کیلئے 31 دسمبر کو جو فون کیا وہ بھی پونے سے کیا۔ اس سے یہ بات صاف ہے کہ وہ اتنے دنوں سے پونے ہی میں تھا۔ تو کیا پولیس اور ملزم کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوا ہے ؟ یہ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب سیاستداں اور مجرموں کے درمیان دوستی ہوگی تو عوام کو انصاف کہاں سے ملے گا؟ بقول شاعر
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے