وجود

... loading ...

وجود

اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب

هفته 04 جنوری 2025 اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب

حمیداللہ بھٹی

معاشی ماہرین تصورات میں گم نہیں رہتے بلکہ حقائق کے تناظرمیںایسی جامع منصوبہ بندی کرتے ہیں جو معاشی نمو کاسبب بنے۔ 1990 تک پاکستان کی معیشت بھارت بہتر تھی ،یہاں تک کہ پاکستان سے آبادی میں سات جبکہ رقبے میں آٹھ گُنا بڑے ملک بھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اگر دوارب ڈالر تھے تو پاکستان کے پاس بھی اِتناہی زرِ مبادلہ موجود تھا پھربدقسمتی سے باری باری حکومت حاصل کرنے کا کھیل شروع ہو اجس سے ملک سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہوتا گیا ۔اپوزیشن والے حکومت گرانے کے لیے دارالحکومت پر چڑھائی کرنے لگے اور حکمرانوں کی توجہ حکومت بچانے ، مضبوط اورطویل مدت کے لیے برقراررکھنے پر رہنے لگی جس سے اِداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی اور ملکی پیداوار میں اضافہ کرنے کی بجائے درآمدات سے کام چلایا جانے لگا ۔نااہل حکومتوں نے بڑھتے خسارے کاحل یہ تلاش کیا کہ قرض لینے لگیں اِس طرح ملک قرضوں کی دلدل میں دھنتاچلا گیا ۔
معاشی ترقی وعدوں ،اشتہارات اور تقریروں سے ممکن نہیں بلکہ معیشت میں بہتر ی صنعتیں چلنے سے آتی ہے جبکہ صنعتوں کو خام مال فراہم کرنے کے لیے زرعی ترقی کی اپنی اہمیت ہے معدنیات کی تلاش کا طریقہ کار بنانا بھی ضروری ہے مگرصورتحال یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے ملک نے کسی شعبے میں ترقی نہیں کی البتہ ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہواہے جس کی ذمہ دار کوئی اور نہیں موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں ہیں جو اب معاشی ترقی کے وعدے کرتیں مہنگائی کم کرنے کے اشتہار شائع کرانے میں مصروف ہیں اور تقریروں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ملک کے لیے ناگزیر ہیں ۔یہ جھوٹ ایسی طفل تسلیاں ہیں جن پر اعتبار کرنا مزیدنقصان اُٹھانے کے مترادف ہے ، اُڑان پاکستان کے اہداف جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والی بات ہے جن میں آئندہ پانچ برس کے دوران تیس ارب ڈالر کی ملکی برآمدات کو ساٹھ ارب تک لے جانے کا ہدف مقررکیاگیاہے۔ حالانکہ گزشتہ ایک دہائی پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تواِس دوران چوبیس ارب چھیالیس کروڑ ڈالر کی برآمدات محض ساڑھے تیس ارب ہی ہو سکیں۔ یہ اضافہ صرف چھ ارب ڈالر ہے۔ اِس بناپربرآمدات میں سو فیصد اضافے کا ہدف حاصل کرنا ازحد مشکل کیا ناممکن سا لگتا ہے، جب ملکی زراعت زوال پزیر اور صنعتیں بندہورہی ہیں اِن حالات میں برآمدی ہدف ساٹھ ارب ڈالر مقرر کرنے سے سیاسی قیادت کی صورت میں محض شیخ چلی کے زندہ ہونے کاتاثرپیداہواہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تصورات میں گم رہنے کی بجائے حکمران معاشی ماہرین کی خدمات لیں اور پھر لائحہ عمل بنا کر عمل درآمدکو یقینی بنائیں تاکہ اہداف حاصل ہو سکیں ۔
پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں چاروں موسم ہونے کی بناپر یہاں ہر قسم کی زراعت ممکن ہے زرعی مصنوعات کی فراوانی سے نہ صرف ملک خوراک میں خود کفالت حاصل کر سکتا ہے اور غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ برآمدات سے قیمتی زرِ مبادلہ کماسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں معدنیات تلاش کرنے پر توجہ مرکوزکریں تو صنعتوں کے لیے خام مال کی خرید پر صرف ہونے والا زرِ مبادلہ بھی بچایا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ملک میں ماہرین نایاب اور مہارت کا فقدان ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں البتہ دیانتدار ،اہل اور باصلاحیت حکمرانوں کی کمی ضرورہے، جب تصورات میں گم حکمران غیر حقیقی دعوے کرتے ہیں تو دل دُکھتا ہے کاش لفاظی سے کارکردگی ظاہر کرنے والوں سے کوئی گزشتہ تین دہائیوں کی کارگزاری دریافت کرے نیز شیخ چلی کی طرح غیرحقیقی دعوے کرنے والوں سے منصوبہ بندی کے متعلق پوچھے کہ وہ کون سے عوامل ہیں کہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ کے دوران باری باری حکمران کیونکرمالدار اور ملک کیسے معاشی دلدل میں دھنستا گیا علاوہ ازیں مختلف اِداروں کے سربراہان امیر اور اِدارے کیسے خسارے کا شکار ہوتے گئے ؟یادرکھیں آزمائے کو مزید آزمانا دانشمندی نہیں حماقت ہے۔
قرضوں میں اضافے اور ملکی پیدوار میں کمی کی وجوہات واضح ہیں گھریلو استعمال کی اشیا سے لیکر پاکستان گندم اورخوردنی تیل تک درآمد کرنے پر مجبور ہے حالانکہ خوراک میں خود کفالت بہت آسان ہے بشرطیکہ زرخیز کھیت اور مناسب موسم سے فائد ہ اُٹھایا جائے پاکستان میں چاول ،پھل،سبزیاں ،حلال گوشت اور مچھلی برآمدکرنے کی بہت صلاحیت ہے مگر ہائوسنگ کالونیاں ہر سال لاکھوں ایکڑزرعی رقبہ کم کرتی جا رہی ہیں جس سے خوراک میں خود کفالت کی منزل سے دورکرنے کااہم سبب ہے لیکن اِس حوالے سے حکومت کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں بنا سکی کہ زرعی زمین کم ہونے کا سلسلہ ختم ہو نمک سمیت دیگر معدنیات سے فائدہ بھی نہیں اُٹھایا جارہا ،صرف شیخ چلی کی طرح جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے جا رہے ہیں حالانکہ خسارہ کم کرناہے توزرعی رقبے میں اضافے کے ساتھ ملکی ساختہ اشیا کے استعمال کی حوصلہ افزائی ضروری ہے لیکن عوام اور حکمران دونوں ہی غیر ملکی اشیا پسند کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے اشرافیہ میں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے دوران رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے کا رجحان بڑھ گیاہے ۔اعلیٰ عہدوں پر براجمان ایک بڑی تعداد بیرونی شہریت رکھتی ہے۔ ظاہر ہے جن کے مفاد بیرونِ ملک ہوںگے وہ پاکستان کا سوچنے کی بجائے اپنے آقائوں کے مفاد کی ہی نگہبانی کریںگے ۔ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہی بیرون ِ ملک جانے کی روایت بھی پختہ ہوچکی ہے ۔کاش شیخ چلی کی طرح تصورات میں گم رہنے والے وعدوں اور تقریروں تک محدود رہنے کی بجائے اصل مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔
ملکی اِدارے خسار ے کا شکار ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت الگ مسائل سے دوچار ہے۔ مہنگی توانائی نے ہر شعبے پر منفی اثر ڈالا ہے کیونکہ پیداواری لاگت میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جو صنعتوں کی بندش کا بڑا سبب ہے ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ سرمایہ کارذرائع ابلاغ میں اعتراف کر چکے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران اِس شعبے سے منسلک ستر لاکھ افراد بے روزگار ہو ئے ہیں اگر سستی توانائی فراہم کرنے اوروافر ہُنر مندافرادی قوت کا تعلیمی نظام تشکیل دے لیں تو ٹیکسٹائل صنعت میں اب بھی نمو کی وسیع استعداد ہے۔ آئی ٹی کی برآمدات بڑھانے کی بھی صلاحیت ہے مگر حالات یہ ہیں کہ انٹرنیٹ سے منسلک شعبوں کو مسائل سے دوچار کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ انٹر نیٹ کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی اورعالمی گیٹ ویز تک رسائی میں دشواریاں دورکرنے سے یہ شعبہ بھی ایسے حیران کُن نتائج دے سکتا ہے جس سے برآمدی ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے۔ تیل درآمدات پر ہونے والے اخراجات میں کمی لانا بھی کوئی دشوار نہیں۔ جب ساری دنیا ذرائع آمدورفت کے حوالے سے ایسی ایجادات پر انحصار بڑھا رہی ہے ،جن میںتیل کی بجائے ماحول دوست توانائی استعمال ہو پاکستان توجہ دے تو تیل درآمدات میں کمی لاکر ملک کومعاشی خطرات سے نکالا جا سکتا ہے۔ وسیع سمندر ی ساحل ،بلند و بالا پہاڑ،اوردیگر سیاحتی مواقع آسان رسائی میں لاکر آمدن کے ذرائع میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ مختصر بات یہ کہ خوراک سمیت ہر شعبے میں خود کفالت ہی معاشی مسائل کا حل ہے ۔درآمدات میں کمی لانا ہے تو مقامی مال کی کھپت میں اضافہ کرناہوگا نیز پیداواری شعبہ کو سہولتیں دیے بغیربرآمدات میں سو فیصد اضافے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ صرف جامع منصوبہ بندی اور مستقل معاشی پالیسی سے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ شیخ چلی کی طرح تصورات میں گم رہ کرجاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے سے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
آواز جرس وجود پیر 06 جنوری 2025
آواز جرس

ہوائے نفس کی ہے حکمرانی ،لٹیرا کر رہا ہے پاسبانی وجود پیر 06 جنوری 2025
ہوائے نفس کی ہے حکمرانی ،لٹیرا کر رہا ہے پاسبانی

روشن خیالی کی مسندمسخروں کے ہاتھ! وجود پیر 06 جنوری 2025
روشن خیالی کی مسندمسخروں کے ہاتھ!

تاریخ کی سچائی وجود اتوار 05 جنوری 2025
تاریخ کی سچائی

نیاسال۔۔نئی توقعات وجود هفته 04 جنوری 2025
نیاسال۔۔نئی توقعات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر