... loading ...
رفیق پٹیل
عمران خان کسی سمجھوتے کے تحت رہائی کے لیے تیار نہیں ہیں. اس لیے حکومت عمران خان کو 14 سال کی سزا دے سکتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح 8فروری2024ء کی وسییع پیمانے پر دھاندلی سے نافذ کردہ حکومت کو جائز ہونے کا تاثر دیا جائے۔ مذاکرات کابنیادی مقصد یہی ہے تاکہ آنے والے اانتخابات میں اس سے بڑھ کر دھاندلی ہو اور موجودہ حکمرانوں کی آنے والی نسلیںبھی مسلسل حکومت کرتی رہیں ۔نوکریاں برقرار رکھنے کے مقاصد پر مشتمل موجودہ مذاکرات کے نتائج میں منصفانہ انتخابات نہ ہوئے تو عوام ایسے کسی سمجھوتے کو تسلیم نہیں کریں گے اور پی ٹی آئی کو عوامی دبائو میں نئی قیادت سامنے لانی ہوگی ۔ موجودہ پاکستانی حکومت کی عوامی حمایت سے محرومی، اور جمہوری اداروں کے بے اثر ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں انتہا پسندی اور نیم عسکریت پسندی کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھنے کی راہ ہموار ہورہی ہے جس کے مستقبل میں انتہائی خوفناک نتائج برآمد ہونگے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مدارس رجسٹریشن ایکٹ مولانا فضل الرحمان کی خواہش کے تحت دبائو کے بعد منظور کرلیا گیا۔ اب مولانا بالواسطہ طور پر حکومت کاحصّہ بن گئے ہیں ۔شاید انہیں مزید نوازا جائے گا۔ بلوچستان اور کے پی کے میں انہیں اہم عہدے مل سکتے ہیں ۔اندرون سندھ بھی وہ مناسب اثر و رسوخ رکھتے ہیں جو رفتہ رفتہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اگر وہ زندہ رہے تو ہر وقت حکومت پر حاوی رہیں گے۔ شاید ہی وزیر اعظم ان کی کسی منافع بخش فائل پر دستخط کرنے سے انکا ر کر سکیں گے، جس کی وجہ سے ملک کے ایسے اہم سرمایہ دار اور تاجر بھی ان کے گرد جمع ہوسکتے ہیںجنہیں سرکاری اداروں سے کام میں بعض رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سفارش درکار ہوتی ہے۔ ایسے کاروباری لوگ سفارش کے جواب میں جے یو آئی کی اعلانیہ اور خفیہ مالی مد د بھی کریں گے ۔اس ایکٹ کی منظوری سے مولانا کی طاقت میں جس قدر اضافہ ہو چکا ہے اس کا اندازہ شاید بہت ہی کم لوگ لگا سکیں گے ۔یہ سب کام اس لیے ممکن ہوا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کی آ زادی کے خاتمے اور میرٹ کے برخلا ف حکومتی تقرریوں کا راستہ ہموار کرنے کے سلسلے میں مولانانے اہم کرداراداکیا اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کرکے دبائو ڈال کر حکومت کو خوف میں مبتلا کردیا ۔شاید اندرون خانہ یہ بھی یقین دلایا ہوگا کہ کسی بھی بیرونی دبائو کو روکنے اور پی ٹی آئی کو کچلنے میں حکومت کی کھلے عام یا خفیہ مدد کریں گے ۔ اب جے یو آئی سے مذہبی مدارس کے چندوں ،تعلیمی نصاب اور دیگر دولت کو کسی بھی ضابطے سے اس لیے آزادی ملے گی۔ وہ سیا سی طور پر وہ بہت طاقتورہو چکے ہیں ۔اب پورے ملک میں ان کے مدارس کانیٹ ورک بعض شہروں اور دیہاتوں میں آہستہ آہستہ اور بعض د یگرعلاقوںمیں تیزرفتا ری سے بڑھتا چلا جائے گا۔ اس وقت بھی مولانا ا ندرون سندھ پیپلز پارٹی سے بڑا جلسہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔لاڑکانہ ،سکھر ،حیدرآباد ،نوابشاہ میں وہ مسلسل اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہے ہیں ان کے ڈنڈا بردار کارکنوں کے خوف سے ہر وقت حکومت دبائو میں رہتی ہے اور وہ جب چاہیں کسی جگہ کے لیے جلسہ کرنے کی درخواست دیں یا نہ دیں وہ جلسہ کرسکتے ہیں۔ وہ پاکستان کے اہم اداروں کو برابھلا کہیںخلاف قانون کام پربھی انہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔اس وقت مولانا جو کچھ بھی کریں وہ ہر قسم کی قانونی گرفت سے آزاد رہیں گے۔ قبل ازیں اس بل پر صدر زرداری کی جانب سے جو اعتراضات سامنے آ ئے تھے۔ اس میں ایک اعتراض یہ تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔ اس لیے اس کی تمام صوبائی اسمبلیوں س منظوری ضروری ہے۔ ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس پر ایف اے ٹی ایف کو اعتراض ہوگا اور پاکستان کے لیے عالمی مالیا تی ادروں کے ساتھ معاملات میں پیچیدگی پیدا ہوں گی۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کے لیے مالی تعاون کے اعتراضات بھی سامنے آئیں گے۔ ایک اور اعتراض یہ تھا کہ سوسائیٹیز رجسٹریاشن ایکٹ کے تحت تعلیم میں فائن آرٹس اور ڈانس کلاسز شامل ہیں جو مدرسے کی تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتی اور ایک نظریاتی تصادم کی کیفیت پیدا ہوگی ۔
اب اس ایکٹ کے نفاظ سے عمران خان کے بعد مولانا فضل الرحمان ملک کے طاقتور ترین سیاستدان بن چکے ہیں۔ حالات جوں کے توں رہے تو مولانا مڈ ٹرم یا وقت کے مطابق8 فروری 2024 کی طرز کے عام انتخابات میں 150 قومی اسمبلی کی نشستوں کے علاوہ خیبر پختون خواہ ،بلوچستان اور پنجاب کی اکثر یتی نشستوں کی پس پردہ ڈیل کریں گے اور سندھ میں بھی دیگر جماعتوں سے اتحاد کرکے اپنی من پسندیدہ حکومت کے لیے کوشاں ہونگے ۔اگر اس ڈیل سے انہیں روکنے کی کوشش کی گئی تو نہ صرف انتخابی دھاندلیوں کو بے نقاب کریں گے بلکہ اپنی احتجاجی تحریک اور ڈنڈا بر دار فورس کے ذریعے پورے نظام کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے شاید کوئی بھی انکا ر کر سکتا ہے ۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور مقتدر قوتّیںاس حیثیت میں نہیں ہیں کہ وہ مولانا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرسکیں۔اگر انہیں وزیر اعظم نہ بھی بنایا گیا تو وہ پارلیمنٹ اور تما م صوبوں پر حاوی ہوجائیں گے۔ ان کی حیثیت غیر اعلانیہ وزیر اعظم کی ہوگی جس کی مرضی کے بغیر کوئی بھی وزیر اعظم ایک قدم اٹھانے کے قبل نہیں رہے گا۔اس وقت بھی مولانا نے پی ٹی آئی کے کندھے کا سہارا لے کر حکومت پر ایسا دبائو ڈالا کہ اپنے مفادات حاصل کرلیے۔ مولانا کا اگلا قدام سندھ میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھا نا ہے جس میں کسی حد تک انہیں کامیابی مل چکی ہے۔ حکومت بین الاقوامی دبائو کے خاتمے کے لیے ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا جس سے ملک کے دفاع پر منفی اثرات کا خطرہ ہے۔ اس وقت پاکستان نے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ایک ایسی لا قانونیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے زرخیز ماحول میسر ہوگا پاکستان کا حکمراں طبقہ جس تباہی کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ سیاسی استحکا م کی راہ میں رکاوٹ ہے عوام کے بغیر نہ معیشت کو فروغ دیا جا سکتا ہے نہ ہی ملک کے دفاع کو مضبوط کیا جاسکتا ہے حکومت خیالی منصوبے بنا کر میڈیا میں پیش کر سکتی ہے لیکن اس کی عملی شکل کچھ بھی نہیں ہوگی ۔عوام میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف نفرت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ گلی اورمحلّوں میں ان کے بیانات اور پریس کانفرنسوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے حکومت کی ناکامی کا سارا بوجھ اگر دفاعی ادارے پر آجا ئے تو قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔لوگوں کی بھاری اکثریت حکمرانوںکو دیکھ کر ٹی وی بند کردیتی ہے۔ اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے کہ لوگ موجودہ حکمرانوںکو معمولی سی پذیرائی بھی بخش دیں۔ موجودہ حکمراں جماعتیں متروک اور رد شدہ ہوچکی ہیں، انہیں کھڑا کرنا مردہ زندہ کرنے کے مترادف ہیں۔ اسی لیے مولانا نے اپنی بات منوالی ہے ۔ عوام پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور حکومت کے درمیان ملاقاتوں پر بھی خوش نہیں ہوں گے اور پی ٹی آئی پر اندر سے کارکنوں اور عوام کا یہ دبائو بڑھتا جائے گا کہ مذاکرات کے عمل سے جان چھڑا لی جائے اور اپنی تحریک کو جاری رکھا جائے۔ تحریک انصاف نے مولانافضل الرحمان سے اشتراک عمل کی کوشش کی تھی جس کا تمام تر فائدہ مولانا نے اٹھالیا۔ اب وہ وزیر اعظم بننے کی کوشش ضرور کریں گے ۔اگر وہ وزیر اعظم نہ بھی بنے تو وہ ایسے اہم عہدے حاصل کر لیں گے جس سے وہ اس پورے نظام پر حاوی ہوجائیں گے ۔اب بھی تحریک انصاف نے سبق نہ سیکھا تو عوام کا دبائوپی ٹی آئی کی سمجھوتہ پسند قیادت کو تبدیل کرنے پر مجبور کردے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔