وجود

... loading ...

وجود

سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں

جمعه 03 جنوری 2025 سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں

ریاض احمدچودھری

بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کا قائم کردہ جنگی جرائم کا خصوصی ٹربیونل نے انہیں کے خلاف طلبہ تحریک کے دوران ‘اجتماعی قتل’ کے مقدمات کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا۔جنگی جرائم ٹربیونل کے تفتیشی سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر عطاالرحمٰن کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات ‘اجتماعی قتل’ سے متعلق ہیں اور ہم جرائم کے مقامات پر بھی جائیں گے۔ حسینہ واجد کے خلاف تینوں مقدمات عام لوگوں کی جانب سے لائے گئے تھے جن میں سابق وزیراعظم کے کئی سابق اعلیٰ معاونین کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔یہ مقدمات دارالحکومت ڈھاکہ کے قریبی اضلاع، میرپور، منشی گنج اور ساور میں تشدد سے متعلق ہیں۔اس کے علاوہ، مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ملک بھر میں مقامی پولیس نے حسینہ واجد کے خلاف کم از کم 15 مقدمات درج کیے ہیں، جن میں حالیہ بدامنی کے واقعات سے پہلے کے کیسز بھی ہیں جو قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق ہیں۔
معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے 2010 میں بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) پاکستان کے خلاف آزادی کی جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔حسینہ واجد کی حکمرانی میں کرائم ٹریبونل نے 100 سے زائد لوگوں کو موت کی سزا سنائی، جن میں ان کے کئی سیاسی مخالفین بھی شامل تھے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے عالمی کنونشن کی پیروی نہ کرنے پر عدالت کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام تھا، جس میں ان کے ہزاروں سیاسی مخالفین کا ماورائے عدالت قتل بھی شامل تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری ہونے والی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس بات کے مضبوط اشارے ملے ہیں کہ بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز نے طلبہ تحریک سے نمٹنے کے لیے غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا۔ بنگلہ دیش کے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔سابق بنگلادیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کے دور کے اہم حکومتی عہدیداروں پر شہری کے قتل کے الزام پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔ شیخ حسینہ واجد اور دیگر 6 افراد کو 19 جولائی کو ڈھاکہ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے شہری کی ہلاکت کے مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ شیخ حسینہ اور دیگر کے خلاف مقدمہ ڈھاکہ کے رہائشی اور مقتول کے قریبی شخص امیر حمزہ نے درج کروایا۔ مقدمے کے متن میں لکھا گیا ہے کہ طلبا مظاہروں کے دوران پولیس نے فائرنگ کی اور ایک گولی سڑک سے گزرتے ہوئے شہری ابو سعید کو لگنے سے اس کی موت ہوئی۔ مقدمے میں حسینہ واجد کے علاوہ عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری، سابق وزیر داخلہ، سابق پولیس سربراہ، تحقیقاتی ادارے کے سابق سربراہ سمیت نامعلوم پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔ طلبا کے احتجاج اور 300 سے زائد لوگوں کی ہلاکت کے بعد چند روز قبل بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد شدید دباؤ کے پیش نظر استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہو کر بھارت چلی گئی تھیںجہاں انہوں نے سیاسی پناہ لے رکھی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے بھارت فرار ہونے کے بعد آرمی چیف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ بنایا گیا۔
بنگلہ دیش نے اپنے پڑوسی ملک بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے۔ تاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جا سکے۔بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے بھارت کو زبانی مطالبہ بھیج دیا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم کو واپس بھیجے۔ تاکہ ان کے جرائم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات چلائے جا سکیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس سلسلے میں سفارتی سطح پر خط و کتابت ہو چکی ہے۔حسینہ واجد کے تختہ الٹے جانے اور بھارت فرار ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کافی خرابی آچکی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف یہ سوچ نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کا خیرخواہ نہیں بلکہ استحصال کرنے والا پڑوسی ملک ہے۔
ناہداسلام کی قیادت میں بنگلہ دیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا، طلبہ تحریک کا آغاز جون میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 6 طلبہ کی ہلاکت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔اس دوران، حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی، اور متعدد شہروں میں کرفیو نافذ کردیا، مجموعی طور پر ان مظاہروں میں 300 اموات ہوئیں۔تاہم، طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے آغاز کے پہلے روز تقریباً 100 اموات ہوئی تھیں جس کے بعد وزیراعظم حسینہ واجد مستعفیٰ ہوکر ڈھاکا میں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت روانہ ہو گئی تھیں۔
اکتوبر کے مہینے میں بنگلہ دیش کی ایک فوجداری عدالت نے حسینہ واجد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ جن میں 400 مظاہرین کے قتل کے واقعے کو الزام کے طور پر حسینہ واجد پر عائد کیا گیا تھا۔بنگلہ دیش کے مشیر برائے خارجہ امور توحید حسین نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ بھارت کو ایک سفارتی پیغام کے ذریعے باضابطہ طور پر کہا گیا ہے کہ وہ حسینہ واجد کو قانون کا سامنا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے۔بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ کے ڈپٹی پریس سیکرٹری محمد یونس نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کی اس درخواست کو خیال میں رکھتے ہوئے حسینہ واجد کو جلد واپس بھیج دے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تاریخ کی سچائی وجود اتوار 05 جنوری 2025
تاریخ کی سچائی

نیاسال۔۔نئی توقعات وجود هفته 04 جنوری 2025
نیاسال۔۔نئی توقعات

اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب وجود هفته 04 جنوری 2025
اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب

بڑے پیمانے کا بحران سروں پر! وجود هفته 04 جنوری 2025
بڑے پیمانے کا بحران سروں پر!

مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟ وجود جمعه 03 جنوری 2025
مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر