وجود

... loading ...

وجود

جمہوریت نہیں مہاپاپ

جمعرات 02 جنوری 2025 جمہوریت نہیں مہاپاپ

ایم سرور صدیقی

 

پاکستان ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر پسماندہ ممالک کا حال تقریباً ایک جیساہے۔ ایسے درجنوں ممالک میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں بندہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں۔ ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں، ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں۔ وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں ۔پھر ان قیدیوںکی اہلخانہ سے ملاقاتوں کی داستان ایک الگ کہانی ہے جس میں بے بسی ،بے کسی ،بے حسی کی ایک سے بڑھ کر مثال موجود ہے ۔ عام قیدیوں اور سیاسی قیدیوںسے کیا سلوک ہوتاہے، سب پر آشکارہے ۔شنیدہے جیلوں میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جو کچھ ہوتاہے اس کی خبریں تو آتی رہتی ہیں لیکن عام قیدیوں سے جو ظلم روا ہے، وہ ظلم کی ایسی کہی ان کہی کہانیاں ہیں کہ الحفیظ و الامان۔
اخبارات میں اکثر جیلوں کے بجٹ کو خوردبرد کرنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائغ ہوتی رہتی ہیں یعنی ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں کیونکہ یہ عام شہری ہیں جن کے حقوق کی آواز کوئی بلندنہیں کرتا کوئی صحافی ان قیدیوں کی حالت ِزارپر کوئی خبرفائل کرتاہے یا کسی ٹی وی چینل کر رپورٹ آتی ہے تو جیلر ناراض ہوجاتے ہیں حکومت کے سرسے پھر بھی کوئی جوںنہیںرینگتی لیکن جمہوریت کو ڈھال بنانے والوں کے سب گناہ اس لئے معاف ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی اسمبلی کے” معزز” رکن ہیں خواہ وہ بدترین خائن ہی کیوں نہ ہو۔ ٹیکس چوری، بجلی چوری۔ گیس چوری، منی لانڈرنگ،زمینوںپر قبضے،شراب برآمدگی،ا خلاقی دیوالیہ پن سمیت مختلف نوعیت کے درجنوںمقدمات میں گوڈے گوڈے ملوث ارکان ِ اسمبلی کا کوئی کچھ نہیں بگا ڑ سکتا کیونکہ مقدس کتاب ۔۔اس ملک کاآئین ا شرافیہ کو ٹیٹرا پیک سے بھی زیادہ تحفظ فراہم کرتاہے ۔ اس حوالے سے جیلوں میں بند مختلف الزامات میں قید سیاستدانوں سمیت اپوزیشن اور حکومتی ارکان ِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کردئیے جاتے ہیں جو درحقیقت رہائی کا عارضی پروانہ ہوتاہے ،حتیٰ کہ منی لانڈرنگ اورکرپشن میں ملوث افراد کو پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے اکثرممالک میں طاقتور کیلئے قانون الگ اور غریب شہری کیلئے الگ قانون ہوتا ہے جیلوں میں اے کلاس اور پروڈکشن آرڈر لے کر پارلیمنٹ آجانے والے پاکستان میں ایک عام قیدی کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں کوئی تنقید کرے تو کہا جاتاہے جناب یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ جو لوگ پروڈکشن آرڈر لیتے ہیں، وہ بجٹ سیشن میں آئے اور زیرو ان پٹ دی جس کیلئے ان کو پروڈکشن آرڈر جاری کئے تھے، جیلیں عبرت کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ مجرم کے دل کی دھڑکن کو ٹھیک رکھنے کیلئے 21ڈاکٹرز کی ٹیم ہے جو ان کے دل کی دھڑکن کو دیکھتی ہے، یہاں الٹ کام ہے، ایک بیمار کیلئے سو انار ہیں لیکن وہ مطمئن پھر بھی نہیں ہیں۔ لیکن وہ کونسا مریض ہے؟ جو سری پائے اور ہریسہ کھاتا ہے، یہ غذائیں دل کیلئے کسی صورت بھی مناسب نہیں ہیں اور حکومت کو ان کی صحت کا بڑا خیال ہے۔ اس کا مطلب ہے احتساب مز ے دار چیزکانام ہے۔
صورت ِ حال یہ بھی ہے کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ملزمان کیلئے خصوصی کمروںکااہتمام کیا جاتاہے جہاں ریفریجریٹر،ائرکنڈیشنڈ،ٹی وی اخبارکی سہولت میسر تھی جیسے وہ سسرال آئے ہوئے ہوں یہ سہولیات اس لئے بھی ہے کہ می آئی پی کرپٹ عناصرکو کچھ ہوگیا تو کہیں احتساب کرنے والے اداروںپر مدھا ہی نہیں پڑ جائے پاکستان میں تو موجودہ حکومت میں شامل آصف زرداری،مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف سمیت درجنوں سیاستدانوںکی د لی خواہش کے پیش ِ نظر قومی احتساب بیورو (نیب) کا تمام زہر نکال کر اسے سانپ سے کیچو ا بنا ڈالا ۔ اب راوی چین ہی چین لکھتاہے کہ50کروڑ تک کی لوٹ مار کرپشن مقدمات نیب کی دسترس سے باہر ہوگئے۔ نیب جسے میاں نوازشریف کے دور سے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ویسے ہر اپوزیشن رہنما یہی واویلا مچاتاہے جس پر کہاجاسکتاہے کہ کچھ تو اس بات میں صداقت ہوگی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے سیاست میں پہلے مخالفین کو خوب ڈرایا جاتاہے وہ نہ ڈرے تو ڈرانے والا خودڈرجاتاہے۔ اب تلک کی پاکستانی سیاست تو یہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںلاکھوں قیدی جیلوںمیں ہیں ان میں ہزاروں مختلف بیماریوںمیں بھی مبتلاہیں، ان کو خوراک اور مناسب طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ۔ان کو انتظامیہ سے سینکڑوں شکایات بھی ہوتی ہیں ۔وہ قیدی پھر بھی اس کااظہار نہیں کرتے کہ جیل میں ان کی زندگی کا ذائقہ مزید تلخ ہونا یقینی ہوجاتاہے اور صبر شکر کرکے اپنی قیدکی مدت پوری کر نے کو ترجیح دیتے ہیں لگتاہے۔ اب ان قیدیوںکی سنی گئی ہے اب حالات بدل رہے ہیں پاکستان حکمرانوںکی کوششوںسے کتنا بدلا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ ویسے حکومت جیلوںمیں بند لاکھوں قیدیوں کی صحت، خوراک اور اصلاح کے لئے کچھ اصلاحات کرے تو معاشرے میں جرائم کم ہونے میں مدد مل سکتی ہے سارا ریلیف اور وسائل حکومت کا حصہ بننے والے سیاستدنوں پر صرف کرنا جمہوریت نہیں مہاپاپ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نیاسال۔۔نئی توقعات وجود هفته 04 جنوری 2025
نیاسال۔۔نئی توقعات

اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب وجود هفته 04 جنوری 2025
اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب

بڑے پیمانے کا بحران سروں پر! وجود هفته 04 جنوری 2025
بڑے پیمانے کا بحران سروں پر!

مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟ وجود جمعه 03 جنوری 2025
مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟

سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں وجود جمعه 03 جنوری 2025
سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر