وجود

... loading ...

وجود

شام کی سیاسی پیچیدگیاں اور مستقبل کی پیشگوئیاں

جمعرات 02 جنوری 2025 شام کی سیاسی پیچیدگیاں اور مستقبل کی پیشگوئیاں

سمیع اللہ ملک
گزشتہ سال7اکتوبرکے بعدخطے میں جاری اسرائیلی سفاکی اورامریکاسمیت اتحادیوں کے گٹھ جوڑسے آج رونماہونے والی صورتحال نے بشارالاسدکی حکومت کے اچانک خاتمے کانہ صرف خطے کے ممالک بلکہ بین الاقوامی منظرنامے پربھی گہرا اثرچھوڑاہے اوریہ سلسلہ اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہاہے جہاں گریٹراسرائیل کے واضح امکانات کوحقیقت میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔کیااب اس شیطانی مثلث کارخ ایران اورترکی کی طرف ہوگااوربعد ازاں پاکستان کاگھیراتنگ کرکے اس کی ایٹمی طاقت کو نشانہ بنایاجائے گا؟یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کا تدارک ہوش مندی سے نہ کیاگیاتومصلحتوں کے سیاہ بادل کسی ہولناک طوفان میں ہمیں تنکوں کی طرح بہالے جائیں گے اورمرخ یقیناہماراشماربھی ان مسلم حکمرانوں کے ساتھ ہی بطور عبرت لکھے گاجس طرح ہمارے پیشروں کوہلاکوخان کی افواج نے نیست ونابودکردیاتھاکہ ہم اپنے اقتدارکیلئے خودہی کوتباہ کرنے پراپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔(خاکم بدہن)
یادرہے کہ اس سے دوقوتوں،یعنی ایران اورروس جن کی حمایت اورمددسے بشارالاسدپچھلے کئی سال سے اپنے ملک میں بغاوت کودبانے میں کامیاب رہے تھے،کے خطے میں زوال کے بارے میں بھی پتہ چلتاہے۔بشارالاسدکے ملک سے فراراورشام میں عبوری حکومت کے قیام کے بعدبھی تجزیہ کاراسدحکومت کے زوال کے پیچھے کارفرماوجوہات اوراس کے نتیجے میں خطے پرپڑنے والے اثرات کوسمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔کچھ ماہرین اس کوسمجھنے کیلئے”بٹرفلائی ایفیکٹ”تھیوری کا سہارالے رہے ہیں۔اس نظریے میں بتایاجاتاہے کہ کیسے دنیامیں رونما ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔اس کوسمجھانے کیلئے تتلی کے پھڑپھڑانے کی مثال دی جاتی ہے کہ کیسے ایک تتلی کااپنے پنکھ ہلاناکہیں دوردرازعلاقے میں طوفان کاسبب بن سکتاہے۔
سیاسی تجزیہ کاراورسابق اسرائیلی سفارتکارمیئرکوہن”بٹرفلائی ایفیکٹ”تھیوری کاسہارالیتے ہوئے شام میں بشارالاسدحکومت کے زوال کوحماس کے اسرائیل پر7اکتوبرکے حملے سے جوڑتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایرانی حمایت سے یحییٰ سنوارکی قیادت میں کیے جانے والے حملے کامقصدلبنان میں حزب اللہ کے ساتھ مل کراسرائیل کے گردگھیراتنگ کرناتھالیکن ایران خودہی اس چال کاشکارہوگیا۔ایران کے”مزاحمت کے محور”کازوال،جس میں حزب اللہ اورحماس شامل ہیں،کسی لڑھکتے برف کے گولے کی مانندہے جواپنی راہ میں آنے والی ہرچیزکوتباہ کردیتاہے اورشام میں اسدحکومت کاخاتمہ اِسی کانتیجہ ہے اوراب یہ صورتحال بالآخرایرانی حکومت کے خاتمے کاباعث بنے گی”۔
ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اسرائیل اور اس کے مضبوط اتحادی امریکا سمیت اس سارے پلان سے نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ اس پلان کی کمزوریوں کوبڑھاوادینے کیلئے اپنے مہروں کواستعمال کررہے تھے تاکہ اس خطے میں گریٹراسرائیل کے قیام کی راہیں ہموارکرنے کیلئے حماس اوراس کی پشت پناہی کرنے والوں کو7اکتوبرکوہونے والے حملے کیلئے اکسایاجائے جس کے جواب میں یہ جاری کارروائی سے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کیلئے اگلے اقدامت پرعملی جامہ پہنایاجائے جس کوہم دیکھ رہے ہیں۔یادرہے کہ حماس کے اس حملے کے فوری بعدنیتن یاہوکے اس بامعنی خیزبیان کوضرورسامنے رکھیں ،جس میں اس نے یہ دہمکی دی تھی کہ”اب خطے میں ان کاروائی کرنے والوں کی نسلیں بھی اس کاخمیازہ بھگتیں گی اسرائیل اپنی صحیح منزلِ مقسود پر پہنچ کر ہی دم لے گا”۔
میئرکوہن کاکہناہے کہ”اب وقت آگیاہے کہ اسرائیل،امریکااورعرب ممالک کوخطے کے مستقبل کے بارے میں مشترکہ وژن ترتیب دیناہوگا۔حالیہ واقعات کاایران پرگہرااثرپڑے گااورایران میں بڑے پیمانے پرہونے والے مظاہرے اس جانب اشارہ ہیں۔دوسری جانب فلسطین کے مغربی کنارے میں بھی محمودعباس کی حکومت کوہٹانیکیلئیمظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔خطرہ ہے کہ مصرمیں اخوان المسلمین موجودہ واقعات کا فائدہ اٹھانے کے کوشش کرے،ساتھ اردن میں بھی حکومت کوخطرہ لاحق ہے”۔گویاان ممالک کو خطرات سے خوفزدہ کرکے اسرائیل کی گودمیں لینے کامنافقانہ عمل شروع کرنے کااشارہ دیاجارہاہے۔ادھرواشنگٹن کی اٹلانٹک کونسل کی محقق عالیہ ابراہیمی مشرق وسطی کی سیاست پرتجزیہ کرتی ہوئے میئرکی اس رائے سے متفق ہیں کہ7اکتوبرکے حملے،اسدحکومت کے خاتمے کی وجوہات میں سے ایک ہیں لیکن وہ ان نفسیاتی اورفوجی اثرات کوزیادہ اہمیت دیتی ہیں جوشامی اپوزیشن کے عروج کاباعث بنے۔”ہم اسرائیل پر7اکتوبرکے حملوں اوراسدحکومت کے زوال کے درمیان ایک واضح تعلق دیکھ سکتے ہیں۔”تاہم عالیہ ابراہیمی کی نظرمیں دیگرعوامل جنہوں نے بشارالاسدکے زوال میں فیصلہ کن کردار اداکیاان میں شام کی معیشت کی تباہی،روس کایوکرین پرحملہ،ترکی کااسدحکومت کولیکرصبرکاختم ہونااور7اکتوبرحملے کے بعد ایران کی طاقت میں کمی شامل ہیں۔ان کاکہناہے کہ”ایک ایسے وقت میں جب اسدکے مخالفین پہلے سے زیادہ متحد،منظم اورپرعزم دکھائی دے رہے تھے تواسرائیل کی حزب اللہ اورشام میں موجودایران کے پاسداران انقلاب کے خلاف کارروائیوں نے شامی صدرکومزیدکمزورکردیاتھا”۔عالیہ ابراہیمی کے مطابق7/اکتوبرکوشروع ہونے والے”بٹرفلائی ایفیکٹ”نے غیرارادی واقعات کے ایک سلسلے کوجنم دیاتاہم ان کی نظر میں نفسیاتی اثرات کوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا”۔حماس نے ثابت کیاکہ غالب قوتوں کی بھی کئی کمزوریاں ہوتی ہیں اورطاقت کا توازن کسی بھی وقت پلٹ سکتاہے۔شامی باغی شایداسی سے متاثرتھے اورایساخطے کے دوسرے حصوں میں بھی ہوسکتاہے”۔
سیاسی تجزیہ کاریوواسٹرن بھی اسد حکومت کے خاتمے اور7اکتوبرکے حملوں کے درمیان موجودتعلق کوتسلیم کرتے ہیں تاہم وہ اس کوثابت کرنے کیلئے”بٹرفلائی ایفیکٹ”تھیوری کے استعمال کے حق میں نہیں۔ان کے خیال میں اس سے شام اورخطے میں رونماہونے والے واقعات کے درمیان تعلق صحیح تناظرمیں پیش نہیں ہوتا۔خطے کے ایک حصے میں پیش آنے والاکوئی بھی واقعہ کسی نہ کسی اندازمیں خطے کے دیگرحصوں پربھی اثراندازہوتاہے”۔شام میں ہونے والے واقعات کواسرائیل،لبنان،فلسطین اوردیگر علاقوں میں ہونے والے واقعات سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔ان کاکہناہے کہ خطے میں ملوث تمام قوتوں بشمول ایران،ترکی،امریکا،اسرائیل،روس اورعرب ممالک کے درمیان چندمشترکہ عوامل پائے جاتے ہیں۔ان تمام ممالک کاخطے میں ہرجگہ کردارپایاجاتاہے جواس خطے کوبہت پیچیدہ بنادیتاہے۔بٹرفلائی ایفیکٹ کا استعمال وہاں کیاجاتاہے جہاں واقعات کے درمیان کوئی واضح تعلق موجودنہ ہو۔اس کے برعکس مشرق وسطی میں پیش آنے والے واقعات کے درمیان براہ راست تعلق پایاجاتاہے اوران کااثرخطہ عرب کے تمام پڑوسی ممالک پرپڑتاہے۔
دراصل7اکتوبرکے واقعات کے اثرات اوراس کے نتائج میں اسدحکومت کے خاتمے کونظراندازنہیں کرسکتے۔تاہم اسدحکومت کا خاتمہ اچانک ہی نہیں ہوابلکہ یہ اس بڑھتی ہوئی عوامی بغاوت کانتیجہ تھاجس کاآغاز2011میں ہواتھااوربعدازاں جس نے پیچیدہ خانہ جنگی کی صورت اختیارکرلی تھی۔ادلب میں2020سے موجودفوجیں اس لمحے کیلئے تیاری کررہی تھی اورپھروہ داخلی، علاقائی اوربین الاقوامی سطح پرہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ مل گئیں جس نے شامی حکومت کومزیدکمزورکیا۔اس صورتحال کوبہترکرنے کی بجائے اسدنے اپنے اقتدارکومضبوط کرنے کاراستہ لیااورمنشیات کے کاروبارمیں شامل ہونے سے شام کیپٹاگون بنانے والابڑاملک بن گیا۔اگرچہ شامی فوجیوں کی تنخواہوں کوکم کر دیاگیا،وہاں لاپتہ افراداورقیدیوں کی صورتحال مزیدابترہوگئی اوراس تمام صورتحال نے بھی شامی حکومت کے خاتمے میں اہم کرداراداکیا۔
امریکانے اس وقت اسدحکومت کے مضبوطی سے قائم رہنے میں بالواسطہ کرداراداکیاتھاجب بشارالاسدنے2013میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے اوراپنے جوہری پروگرام کیلئے ایران سے بات چیت کوترجیح دی تھی۔اسرائیل نے بھی اسدحکومت کوگولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے1974کے علیحدگی کے معاہدے پرقائم رہنے کی وجہ سے دیگرممالک کی نسبت کم خطرناک تصورکیا۔ اسرائیل نے اس علاقے میں سنی اکثریت کی بجائے اقلیتوں کے ساتھ معاہدے کوترجیح دی لیکن پھرروس کے یوکرین پرحملے اور ایرانی مددمیں کمی کی وجہ سے شام میں سکیورٹی کے حوالے سے ایک خلاپیداہوا۔گویااپنے اقتدارکی بقاکیلئے اسدحکومت کا علاقائی اوربین الاقوامی سطح پرمختلف تنازعات میں کردارجاری رہا۔تاہم سابق بشارالاسدنے اسرائیل اورایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن لانے کی کوشش کی لیکن انھیں بہت مشکل کاسامناکرنا پڑاجس میں وہ کوئی بھی فیصلہ نہ لے پائے۔
ایک اورلحاظ سے دیکھاجائے تومشرق وسطی میں تیزی سے ہونے والی پیشرفت سے علاقائی اوربین الاقوامی توازن کے علاوہ اسدکے حامیوں میں بھی بڑی تبدیلی سامنے آئی۔روس اورایران کی جانب سے اسدحکومت کے ساتھ قریبی تعاون کے باوجودان دونوں کے درمیان اختلافات برقراررہے۔نئی امریکی انتظامیہ کے آنے کے بعد،جویوکرین میں بحران کے خاتمے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے،روس کیلئے ایران کی اس علاقے میں ضرورت ختم ہوگئی اوراس سے اتحاد کونئی شکل ملی اوراس صورتحال نے اسد حکومت کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔
آج جب اسدخاندان کے55سالہ ظالمانہ اقتدارکاخاتمہ ہوگیاہے تواحمدالشرع ایک نئے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ان کایہ نیاروپ القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ایک جہادی تحریک کے سربراہ سے مختلف ہے۔احمدالشرع نے کمانڈرانچیف کی حیثیت سے نئی شامی انتظامیہ کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔وہ سیاسی منظرنامے پربڑے پراعتماد اندازمیں داخلی اورخارجی سطح پرنمایاں یقین دہانیوں پرمبنی پیغامات دے رہے ہیں۔دمشق میں عبوری حکومت کے اعلان کے ساتھ سفارتی سرگرمیاں اورہمسایہ ممالک کے وفودکی میزبانی دیکھی جارہی ہے۔ایسے میں نمایاں شخصیات بھی دوبارہ سے منظرپردکھائی دے رہی ہیں خاص طورپرسابق نائب صدرفاروق جو گذشتہ کئی برسوں میں سیاسی منظر نامے سے غائب رہے ہیں۔
اب مستقبل کے بارے میں سوالات زیادہ سنجیدہ اورپیشگوئی کے اعتبارسے زیادہ مشکل ہوں گے جیساکہ اب ممکنہ صورتحال کیا ہوگی؟ کیا شام میں بیرونی اثرورسوخ صرف ترکی اورمغرب کی مددسے اسرائیل تک محدودرہے گایاپھرمستقبل میں مضبوط عرب اتحادکاکوئی موقع پیدا ہوگا؟ اس تناظرمیں ایران اوراس کے اتحادیوں کی کیاپوزیشن ہوگی؟یاپھرہم ایک نئے مشرق وسطی کی شروعات دیکھیں گے؟
مہدی طیب،جو2013میں ایران کے پاسدران انقلاب کے نائب کمانڈرتھے،ایران کے شام کے ساتھ تعلقات کی درست وضاحت کرتے ہوئے اوراسدحکومت کے خاتمے سے تہران کوہونے والے نقصانات پربات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ”اگرہم نے شام کو گنوادیاتوہم تہران کونہیں بچاپائیں گے”۔ادھراسرائیلی تجزیہ کاریوواسٹرن کے مطابق بشارالاسدحکومت کے خاتمے کے بعدخطے میں مزاحمت کے محورایران پراس کے منفی اثرات نمایاں ہوں گے۔مزاحمت کے اس محورکوقائم رکھنے کیلئے شام سے سپلائی کی گزرگاہیں تھیں جوانتہائی اہمیت کی حامل تھیں اوراب یہ گزرگاہیں بندہوگئیں ہیں اورایران کیلئے حزب اللہ کوہتھیاربھجوانامشکل ہوگیاہے گویا اسدحکومت کے خاتمے سے دراصل اسرائیل کولاحق ایک بڑاسٹریٹیجک خطرہ ختم ہوگیاہے اورشام کی فوجی صلاحیتوں بشمول نیوی کی تباہی سے اسرائیل نے اپناہدف حاصل کرلیاہے۔
اسرائیل نے اپنایہ ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے نہ صرف برسوں اس پربھرپورمحنت کی ہے بلکہ خطے میں اپنی برتری قائم رکھنے کیلئے وہاں باقاعدہ ایک پلان کے تحت آگے بڑھاہے۔یہ حادثہ کوئی اچانک نہیں ہواہے بلکہ اسرائیل نے گزشتہ برس7اکتوبرسے لیکرپوراسال غزہ اورگردونواح کے علاقوں میں خونی ہولی کھیلتے ہوئے اس کوکھنڈرات بنانے پراپنی پوری توجہ مرکوزرکھی اورگاہے بگاہے لبنان کے ساتھ اپنی سرحدوں پرحزب اللہ کوصرف اپنی موجودگی کااحساس دلانے کے سواکوئی جارحیت نہیں کی کیونکہ وہ حزب اللہ کے ساتھ گزشتہ جنگ میں بری طرح شکست کھاکراپنے بھرپوراقدامات کی تیاری میں مصروف رہا اورحزب اللہ کوکمزورکرنے کیلئے اس نے لبنان میں داخلی انتشارکوہوادیتے ہوئے وہاں پرمسیحی اورحزب اللہ کے درمیان معاہدے کو سبوتاژکرنے کیلئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جہاں پورانیٹ ورک بچھایاوہاں حزب اللہ کے مضبوط وائرلیس سسٹم میں استعمال ہونے والی واکی ٹاکی سسٹم کے سینکڑوں سیٹ میں خصوصی چپ لگاکران کی تمام منصوبہ بندیوں سے پیشگی آگاہ رہااورجب حزب اللہ نے اسرائیل پرجوابی راکٹ برسائے اور ڈرون حملوں کاآغازکیاتواسرائیل نے اپنے ظالمانہ منصوبہ کے تحت ان تمام واکی ٹاکی سسٹم میں اسی چپ کوموت کے سندیسے میں تبدیل کرکے انسانیت سوزآپریشن کرڈالااوراس کے ساتھ ہی لبنان پراپنے فضائی حملوں کاسلسلہ تیزکردیاجس کے جواب میں بالآخرلبنانی حکومت نے اسرائیل کی مرضی کے مطابق نہ صرف معاہدہ کرکے حزب اللہ کے ٹھکانوں پرکمزورلبنانی فوج تعینات کردی بلکہ اسی دوران اسرائیل نیحزب اللہ کے رہنماں کوشہیدکرکے لبنان سے ملحق سرحدکوبھی محفوظ کرلیا۔اس کے ساتھ ساتھ شام پربھی حلے جاری رہے اوربشارالاسدکے فرارکے فوری بعدگولان کے بفرزون پرمکمل قبضہ کرکے اب دمشق سے صرف 26میل دورتک پہنچ چکاہے۔
خطے کے سیاسی اوردفاعی تجزیہ نگاروں کوخدشہ ہے کہ شام عراق جیسی کسی صورتحال کی طرف ہی جائے گااورجن ممالک میں فرقہ واریت اورنسلی تنوع ہے جیساکہ شام،عراق اوریمن،وہاں نیامستحکم حکومتی سسٹم بنانے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے یہ واضح نظرآرہاہے کہ خطے میں بین الاقوامی مداخلت سے شام کی داخلی صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے تاہم اس وقت یہ اندازہ لگانابھی بڑامشکل ہے کہ شام میں یاپھراس خطے میں آئندہ کیاہوگا؟
تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ احمد الشرع نہیں جودمشق میں داخل ہوگئے بلکہ یہ جنوب سے ایک اورفورس تھی۔اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمدالشرع نے ادلب میں جوکچھ شروع کیا،اس کے ذریعے متحرک آغازکیا۔اس لیے یہ غیرمعمولی ہوگاکہ ہیت تحریرالشام اکیلے اس ملک پرحکمرانی کرنے کے قابل ہوں۔شام ایساملک ہے جواپنے تنوع کے حوالے سے نمایاں ہے،پھر چاہے وہ سیاسی قوتوں یافرقہ ورانہ لحاظ سے ہو،مذہبی لحاظ سے یاپھرنسلی اعتبارسے ہو۔ہوسکتاہے کہ ہم مارچ تک نئی حکومت کاقیام دیکھیں اورشایدآئینی اعلان اوراس کے بعدانتخابات لیکن ہم ایک پیچیدہ اورحساس عبوری مرحلے کی ابتدامیں ہیں،جوپراسراریت سے بھراہواہے اوراس کے نتائج کیاہوں گے،درست طورپراس کی کوئی بھی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔ان پیچیدگیوں کے باوجودخطے سے واقف تجزیہ کارکوپورایقین ہے کہ شام افغانستان جیسے ماڈل کی طرف نہیں جائے گا۔
آخرمیں پاکستان پرمیزائلوں کے سلسلے میں امریکی پابندیوں کاسلسلہ ایک بارپھرعالمی توجہ حاصل کررہاہے اورجوبائیڈن حکومت نے اپنی شکست کے بعدآنے والی ٹرمپ حکومت کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہوئے پاکستان پرجوپابندیاں عائد کی ہیں یقیناً ٹرمپ کیلئے فوری طورپران پابندیوں کوہٹانے کیلئے وقت درکارہوگااوران پابندیوں کی آڑمیں پاکستان میں جاری سیاسی انارکی کابھرپورفائدہ اٹھانے کیلئے ٹرائیکا(امریکا،اسرائیل اورانڈیا)کی پوری کوشش ہوگی کہ پاکستان میں جاری سیاسی درجہ حرارت کوباقاعدہ ایک ایسے محاذمیں تبدیل کیاجائے جس کیلئے افغانستان سے باقاعدہ مختلف پراکسیزپاکستان میں دہشت گردی میں مصروف ہیں اورابھی حال ہی میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں سے مجبورہوکرپاکستان کوان دہشت گردوں کے اندرونی ٹھکانوں پرفضائی حملہ کرناپڑاتوفوری طورپرافغان حکومت نے اس پربیجااحتجاج کرکے جوابی حملے کی دھمکی دے ڈالی جبکہ پاکستان اس سے قبل ان دہشت گردوں کے بارے میں درجنوں مرتبہ شواہدکے ساتھ افغان حکومت کوکاروائی کیلئے کہہ چکی ہے لیکن شنوائی نہ ہونے کی صورت میںطالبان حکومت کایہ رویہ صریحاً پاک دشمنی کے سواکیاہوسکتاہے۔یہی دشمن کی مرضی ہے کہ دومسلمان ممالک کے درمیان جنگ کی صورتحال پیداکرکے ان کوتباہ کیاجائے جیساان دشمنوں نے ایران عراق جنگ کے درمیان کیاتھااورآج ان دونوں ممالک کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔یہاں دونوں ممالک کوہوش مندی کے ساتھ ان معاملات پرقابوپانے کی اشدضرورت ہے اورطالبان کوبھی اس بات کاخیال رکھناہوگا کہ رب کریم نے ”احسان کابدلہ ماسوائے احسان کے اور کچھ نہیں”کاحکم دیکرآپس میں محبت کاسبق دیاہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
نیاسال۔۔نئی توقعات وجود هفته 04 جنوری 2025
نیاسال۔۔نئی توقعات

اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب وجود هفته 04 جنوری 2025
اڑان پاکستان اور شیخ چلی کے خواب

بڑے پیمانے کا بحران سروں پر! وجود هفته 04 جنوری 2025
بڑے پیمانے کا بحران سروں پر!

مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟ وجود جمعه 03 جنوری 2025
مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟

سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں وجود جمعه 03 جنوری 2025
سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر