... loading ...
جاوید محمود
امریکہ کی تاریخ میں سابق امریکی صدر جے ایف کینیڈی نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کرنے سے دور رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ قاتلانہ حملے میں مارے گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جے ایف کینیڈی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابی مہم کے دوران ان پہ دو دفعہ قاتلانہ حملہ کیا گیا جن میں وہ بال بال بچے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے بیانیے اور بیانات میں مماثلت کے باوجود دونوں کی سیاسی سوانح حیات میں اور ان کے سیاق و سباق میں بھی بہت سے اختلافات ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے دونوں سسٹم کا حصہ نہیں تھے یعنی اس سے قبل وہ کسی بڑے سرکاری منصب پر فائض نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے قومی اہداف حقیقت پسندانہ نہیں تھے دونوں نے یوٹرن لیے ہیں، دونوں نرگسیت یعنی اپنے آپ سے محبت کا شکار ہیں۔ دونوں نے تین مرتبہ شادیاں کیں۔ دونوں جوانی میں خوش شکل یعنی ہینڈسم تھے اور خواتین کے لیے جاذب نظر۔ دونوں کا اپنے اپنے ممالک میں خاصا بڑا فین کلب ہے۔ دوسری جانب دونوں سے شدید اختلاف کرنے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ دونوں جذباتی ہیں اور جلد غصے میں ا جاتے ہیں ۔ دونوں کھری کھری سنانے کے عادی ہیں ۔دونوں اپنے اپنے ممالک کے ماضی کے حکمرانوں کے شدید ناقد ہیں۔ دونوں لیڈر وقت کی نزاکت کو دیکھ کر یوٹرن لیتے ہیں۔ عمران خان کے ماضی قریب کی سیاست میں متعدد یوٹرن ملتے ہیں ۔صدر ٹرمپ بھی یو ٹرن لیتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ نیٹو بیکار ادارہ ہے ۔اس نے دہشت گردی کے خلاف کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا لیکن نیٹو کے جنرل سیکرٹری کے ساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے نیٹو کی تعریف کی ۔ٹرمپ نے پاکستان پر افغانستان کے معاملے میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کے الزامات لگائے تھے اور پھرزلمے خلیل زاد کو پاکستان بھیج کرافغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی درخواست کی ۔ٹرمپ اپنی الیکشن مہم میں شام کے صدر بشار الاسد کو مڈل ایسٹ کا قصاب کہتے رہے مگر پھر مان گئے کہ بشار الاسد کا شام کا صدر رہنا ملکی مفاد میں ہے ۔
عمران خان اور ٹرمپ دونوں مقناطیسی شخصیات کے حامل ہیں ۔ان کے فین کلب کے ممبران اس امر کا مکمل یقین رکھتے ہیں کہ ان کا لیڈر کوئی غلطی نہیں کر سکتا ۔یہی فین کلب کرشماتی لیڈروں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مافوق الفطرت کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ نرگسی شخصیت تنقید بالکل برداشت نہیں کرسکتی ۔اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے ٹرمپ نے امریکی میڈیا سے ٹکر لی ہوئی ہے۔ خاص طور پر سی این این کے ساتھ ،دونوں کے دعوے حقیقت سے دور تھے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنے گی اوراسے فنانس میکسیکو کی گورنمنٹ کرے گی۔
ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کے مطابق نرگسیت کے شکار افراد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تعمیری نرگسی شخصیت جس کے لیے اس نے بل گیٹس کی مثال دی اور دوسرے کرشماتی نرگسی شخصیت جن میں عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ آتے ہیں لیکن دونوں شخصیات ایک حد تک سیلف میڈ بھی ہیں۔ عمران خان سخت محنت اور مضبوط ارادے کی وجہ سے کرکٹ اسٹار بنے۔ شوکت خانم ہسپتال بنایا ٹرمپ نے رئیل اسٹیٹ بزنس میں بڑی محنت کی ۔ڈونلڈ ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں اور ہر سیاسی معاملے کو بھی بزنس ڈیل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ پیسہ پھینک تماشا دیکھ کے مقولے پر عمل کرتے ہیں۔ جبکہ عمران خان میں لالچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ان کی پہچان بطور مسٹر کلین ہے۔ عمران خان نے انسانی فلاح کے لیے دو عظیم پروجیکٹ بنائے جبکہ ٹرمپ نے کوئی ایسا خاص کام نہیں کیا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں عمران خان کی سیاسی جدوجہد بہت لمبی ہے ۔عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ ٹرمپ کے تعلقات پینٹاگون اور امریکی میڈیا سے کشیدہ رہتے ہیں۔ دونوں لیڈر اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ 6 جنوری 2020کے امریکی صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کے بعد سے ٹرمپ کبھی بھی سرخیوں سے دور نہیں رہے۔ 2021کو یو ایس کیپیٹل پر ان کے حامیوں کے حملے کو بہت سے لوگوں نے دیکھا نہ صرف ان کے ناقدین اور مخالفین انتخابی فیصلے کو کالعدم کرنے کے لیے ایک قسم کی بغاوت کے طور پر دیکھا اگر اس نے ان کے مخالفوں کو متحد کیا تو اس نے ان کی حمایت کی بنیاد کو بھی مضبوط کر دیا۔ متعدد فوجداری مقدمات کے باوجود رشوت خوری سے لے کر چھ جنوری کے واقعات میں اس کے کردار تک ایک پورن اسٹار کے اسکینڈل کو دبانے کے لیے وہ ریپبلکن پارٹی میں ایک سیاسی قوت بنے ہوئے ہیں ،اسی بنیاد پر وہ دوسرا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے ۔اگر ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے ان واقعات کو عمران خان کے موجودہ صورتحال سے موازنہ کریں تو ان میں بہت مماثلت ہے ۔عمران خان نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کرنے پر ان سے ٹکر لی۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر دو تین قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ پہلے حملے میں بال بال بچے جبکہ ان کے ٹانگوں پر تین سے چار گولیاں لگیں۔ عمران خان پر نو مئی کے حوالے سے درجنوں مقدمات قائم کیے گئے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عمران خان کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے الجھنے کی وجہ سے بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ان پر 200سے زیادہ مقدمات قائم کیے گئے۔ ماہرین کہتے ہیں زیادہ تر مقدمات بے بنیاد اور سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں جس کی قیمت وہ تقریبا 18ماہ سے جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے ادا کر رہے ہیں۔
یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک کی عدالت نے صدارتی انتخاب لڑنے سے ناہل قرار دے دیا تھا، جبکہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فیصلہ کیا ۔دوسری طرف پاکستان میں عمران خان انتخاب جیتنے کے باوجود اقتدار سے محروم ہیں اور مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ان کا مینڈیٹ واپس کیا جائے یا نئے انتخابات کرائے جائیں۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ میں جمہوریت ہے ،جبکہ پاکستان میں جو بڑی طاقتیں ہیں وہ اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتی۔ آج کل بڑی طاقتیں اور انسانی حقوق کے ادارے اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ عمران خان انتخاب جیت چکے تھے اور جو انسانی حقوق کی پامالی پاکستان میں ہو رہی ہے ،اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پاکستان میں نو مئی کے واقعات کے لیے شاید 6جنوری کوٹرمپ کے حامیوں کی طرح سے امریکی کیپٹل پر ہجوم کا حملہ ایک زیادہ مناسب حوالہ ہوتا ہے۔ اس نے یقینا ان کے خلاف رائے کو بالکل اسی طرح مضبوط کیا جیسا کہ اب عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریبا دوسے تین سال چھوٹے ہیں ۔پچھلی دہائی کے دوران پاکستان نے عمران خان کے ایک منصوبے کے تصور اور کامیاب تعمیر کا مشاہدہ کیا ہے جس کی بڑی حد تک دوسری سیاسی جماعتوں اور قوتوں کوغیر فعال کرنا ہے۔ اب یہ اپنے یکساں طور پر یکدم ختم ہونے کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ دونوں عملوں کے پیچھے انجن کا کام کر رہی ہے۔ منصوبے کی تخلیق اور اب اسے ختم کرنا 9مئی کے واقعات کے بعد ان کے حامیوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن اور ان کی پارٹی کو تقریبا تحلیل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے باوجود 70 فیصد پاکستانی عوام عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ٹرمپ کے لیے چین روس اور میکسیکو سے چھرچھاڑ اس لیے ممکن ہے کہ وہ ایک سپر پاور کا صدر ہے جبکہ عمران خان کو خارجہ پالیسی میں محتاط ہو کر چلنے کی ضرورت ہوگی ۔یہ بات بھی ضروری ہے کہ خوشامدیوں کے حصار سے نکل کر عوام کی نبض پر براہ راست ہاتھ رکھا جائے ۔یہ سوچ بھی سادگی پر مبنی ہے کہ کرپشن پاکستان کا اکلوتا مسئلہ ہے۔ آبی وسائل کا مناسب استعمال آبادی کے سیلاب کی روک تھام اور تعلیم کے معیار میں بہتری دوسرے بڑے قومی لیول کے کام ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ سب سے بڑا اہم کام معیشت کی گاڑی کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کرنا ہے۔ اگر ہر ادارہ اپنے اپنے حصے کا کام کرے تو اس میں کوئی شک نہیں پاکستان میں ابھرنے کی مکمل صلاحیت ہے۔