وجود

... loading ...

وجود

منموہن سنگھ ، ارد و اور مسلمان

منگل 31 دسمبر 2024 منموہن سنگھ ، ارد و اور مسلمان

معصوم مرادآبادی

یہ 2009کا قصہ ہے ۔ عام انتخابات کی تیاریاں زوروں پر تھیں ۔ ایک دن وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر ڈاکٹر ہریش کھرے کا فون آیا۔انھوں نے کچھ ضروری گفتگو کے لیے مجھے اپنے دفتر مدعو کیا ۔شام کو جب میں ساؤ تھ بلاک میں واقع وزیراعظم کے دفتر پہنچا تو ہریش جی نے کہا”وزیراعظم، اردو کے کچھ سرکردہ صحافیوںسے ملنا چاہتے ہیں، کیا آپ اس میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔” میں نے ہامی بھرلی اور ایک ہفتہ بعد نئی دہلی کے اشوکا ہوٹل میں ملک بھر کے سرکردہ اردو صحافیوں سے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ ایک گھنٹے سے زیادہ سوال وجواب کا سلسلہ چلا اور پرتکلف عشائیہ پر یہ میٹنگ ختم ہوگئی ۔کچھ دن بعد وزیراعظم کے گھر پر افطارپارٹی تھی۔ ہریش کھرے جی میرا ہاتھ پکڑ کر ڈاکٹر منموہن سنگھ کے پاس لے گئے اور مذکورہ میٹنگ کے حوالے سے میرا تعارف کرایا ۔ وزیراعظم نے جس انداز میں اظہارتشکر کیا ، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ یہ ان کی خاص ادا تھی۔ ایک صحافی کے طورپر یوں تو درجنوں سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ملا ہے لیکن جو عاجزی اور انکساری ڈاکٹر منموہن سنگھ کے اندر تھی ، وہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔آج ان کے انتقال کے بعد میڈیا میں سب سے زیادہ چرچے ان کی اسی انکساری اور عاجزی کے ہورہے ہیں جو ان کی خاص پہچان تھی۔وزیراعظم کے عہدے تک پہنچنے کے باوجود انھوں نے اسے ترک نہیں کیااوروہ ایک عام آدمی کی طرح زندہ رہے ۔وہ بنیادی طورپر ایک شریف النفس اور خاموش طبع انسان تھے۔
انھوں نے اپنی سیاسی پاری کا آغاز نرسمہاراؤ کے دور میں بطور وزیرخزانہ کیا تھا۔اس سے پہلے ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ وہ ایک بیوروکریٹ اور معاشیات کے ماہر تھے ۔ حادثاتی طورپر وزیراعظم بنے تھے ، لیکن انھوں نے اس ذمہ داری کو جسخوش اسلوبی سے نبھایا ، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ان کے سیاسی مخالفین ان پر ایک کمزور وزیراعظم ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنی اس کمزوری کو ایسی طاقت میں بدل دیا تھا کہ ان کے دوراقتدار میں ملک کو کبھی شرمندگی یا ندامت سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ آج ملک میں اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اقتدار کا بہت گھمنڈ ہے اور وہ خودکو بہت طاقتور بھی ثابت کرتے ہیں مگر ان کے پاس ملک کودرپیش سنگین مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ۔ڈاکٹر منموہن سنگھ نے درست ہی کہا تھا کہ ان کے بارے میں تاریخ زیادہ درست فیصلہ صادر کرے گا۔ان کے اس بیان کی حقیقت ان کے انتقال کے بعد زیادہ بہتر انداز میں عیاں ہوئی ہے ۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے گزشتہ جمعرات کوجب 92 سال کی عمر میں وفات پائی تو پورا ملک ان کے سوگ میں ڈوب گیا۔سبھی نے ان کی شرافت ، ایمانداری ، انکساری اور محبوبیت کے تذکرے کئے ۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنا تھا۔ایک ایسے دور میں جب دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں ڈانواں ڈول تھیں، انھوں نے اپنی سوجھ بوجھ سے ہندوستانیمعیشت کو سہارا دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے کچھ اور بھی کارنامے میںہیں جن کی وجہ سے انھیں یاد رکھا جائے گا۔اردو زبان اور مسلمان ان کی توجہ کا خاص مرکز تھے ۔ آپ کو یادہوگا کہ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ اس ملک کے وسائل پر سب سے زیادہ حق مظلوم اور بے کس لوگوں کا ہے اور ان میں مسلمان سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین آج بھی اس بیان کی وجہ سے انھیں نشانہ بناتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ زمینی سچائیوں کو سمجھتے تھے اور ان کا برملا اظہار بھی کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے انھوں نہ اپنے پہلے دوراقتدار میںمسلمانوں کے تعلق سے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔2005میں انھوں نے ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس راجندرسچر کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی اور اسے یہ کام سونپا کہ وہ ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی معاشی ، سماجی ، سیاسی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لے ۔ کمیٹی کے ارکان میں ڈاکٹر ابوصالح شریف ،سید حامد، ایم اے باسط اور اخترمجید جیسے لوگ شامل تھے ۔اس کمیٹی نے پورے ملک میں گھوم کر مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی ،معاشی اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لے کر یہ انکشاف کیاکہ ملک میں مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ قوم ہیں اور یہ پسماندگی دلتوں سے بھی ابتر ہے ۔اس رپورٹ میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کے ساتھ ان کی جامع ترقی کے لیے ٹھوس تجاویز اور حل پیش کئے گئے ۔سچر کمیٹی نے ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی اور عدم مساوات کے مسئلے کو قومی توجہ کا مرکز بنایا اور مسلمانوں کی زبوں حالی سے متعلق ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ اس سے پہلے دائیں بازو کی طاقتیں کانگریس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگاتی تھیں ۔ اس الزام کو سچر کمیٹی کی رپورٹ نے پوری طرح باطل قراردے دیا ۔کمیٹی کی سب سے اہم سفارش مساوی مواقع کمیشن کے قیام کی سفارش تھی تاکہ امتیازی شکایتوں کو حل کرنے کے لیے ایک قانونی طریقہ کار فراہم کیا جاسکے ۔ سچر کمیٹی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی ، سیاسی اور سماجی دھارے میں مکمل طورپر شامل ہونے سے روکنے والی اڑچنوں کا ازالہ کیسے کیا جائے ۔
یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ تھی جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی’ پسماندگی ‘کو دستاویزی شکل میں پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے مسلمانوں کی حالت زارکا جائزہ لینے کے لیے گوپال سنگھ کی قیادت میں جو پینل تشکیل دیا گیا تھا ، اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں ہوا ، مگر منموہن سنگھ نے ایسا نہیں کیا ۔انھوں نے سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اقلیتی امور کی مرکزی وزارت قائم کی اور اس کے لیے معقول بجٹ فراہم کیا۔ یہ آزاد ہندوستان میں اپنی نوعیت کی پہلی وزارت تھی ، جس کا وزیرمہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ عبدالرحمن انتولے کو بنایا گیا تھا۔اس وزارت کا بنیادی مقصد اقلیتوں میںتعلیم اور استعداد کا فروغ تھا۔اقلیتی امور کی وزارت نے اقلیتی طلباء کے لیے اسکالر شپ اسکیمیں شروع کیں اور اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے بھی کوششیں کیں ۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعہ طالبات کی تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے لیے اہم اقدامات کئے گئے ۔منموہن سنگھ کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعدنہ صرف یہ کہ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا خاتمہ کردیا گیا بلکہ اس وزارت کے بھی بال وپر کتر دئیے گئے ۔ اب یہ محض نام کی وزارت رہ گئی ہے ۔اقلیتی طبقہ کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ملنے والی اسکالر شپ بھی ختم کردی گئی ہے ۔بلاشبہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے دور اقتدار میں سماج کے کمزورطبقوں اور بالخصوص اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لیے جو بنیادی کام کئے ، اس کے لیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا دوسرا عشق اردو زبان تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم ایک اردومکتب میں ہوئی تھی ۔ جب وہ وزیراعظم بنے تو ان کے دفترمیں
باقاعدہ پی آئی بی کے اردو سیکشن سے ایک اردو آفیسر(منظرنیاز)کی تقرری عمل میں آئی جو ان کی تقریروں کو اردو رسم الخط میں کمپوز کرتے تھے ۔ منموہن سنگھ چونکہ ہندی رسم الخط سے واقف نہیں تھے ، اس لیے ان کی ہندی تقریریں بھی اردو رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں۔ یوم آزادی کے موقع پر جب وہ لال قلعہ سے قوم کو خطاب کرتے تھے تو یہ تقریر اردو رسم الخط میں لکھی ہوتی تھی۔ کئی بار اس کی تصویریں بھی عام ہوئیں۔ انھیں اردواشعار بھی خوب یاد تھے ۔ وہ خاص طورپر علامہ اقبال کی شاعری کے دلدادہ تھے ۔ ایک بار پارلیمنٹ میں بی جے پی لیڈر سشما سوراج نے ایک شعر پڑھ کر ان پر طنز کیا تو انھوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ کر انھیں لاجواب کردیا تھا۔
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ ، مرا انتظار دیکھ


متعلقہ خبریں


مضامین
مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟ وجود جمعه 03 جنوری 2025
مولانا فضل الرحمان کا اگلا قدم؟

سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں وجود جمعه 03 جنوری 2025
سابق بنگلہ وزیر اعظم ، مقدمات کے نرغے میں

ڈیل سے انکار وجود جمعه 03 جنوری 2025
ڈیل سے انکار

جمہوریت نہیں مہاپاپ وجود جمعرات 02 جنوری 2025
جمہوریت نہیں مہاپاپ

شام کی سیاسی پیچیدگیاں اور مستقبل کی پیشگوئیاں وجود جمعرات 02 جنوری 2025
شام کی سیاسی پیچیدگیاں اور مستقبل کی پیشگوئیاں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر