... loading ...
جاویدمحمود
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا کہہ کر مخاطب کیا اور ان کی شان میں جو کچھ غیر ضروری باتیں کہیں ان باتوں سے یقینا ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا دل چھلنی ہوا ہے۔ محمود غزنوی کو ڈاکو لٹیرا کہنے والے خواجہ آصف سے کوئی یہ پوچھے کہ وہ اپنے ضمیر کے آئینے میں اپنے آپ سے سوال کریں کہ وہ جس اقتدار پہ قابض ہیں کیا اس کے یہ حقدار ہیں؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ محمود غزنوی کو مسلمان ہمیشہ ہیرو کا درجہ دیتے آئے ہیںاور ان کے کارناموں کو سوائے اسلام دشمنوں کے علاوہ سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج سے لگ بھگ ایک ہزار سال قبل محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا ۔وہاں پر واقع مندر کو تباہ کر دیا اور وہاں سے ملنے والے مال و اسباب کو سمیٹ کر وہ واپس اپنے وطن کو لوٹ گئے۔ اس ایک حملے نے بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ پر ان گنت نقوش چھوڑے ہیں۔ جہاں پاکستان میں محمود غزنوی کی حیثیت ایک مثالی حکمراں اور فاتح کی ہے، وہیں انڈیا میں بہت سے متشدد گروہ محمود غزنوی کو اسلامی استعمار اور مسلمان حکمرانوں کی بربریت کا ایک استعارہ سمجھتے ہیں اور ان کو بر صغیر میں ہندو تہذیب کی بربادی کا ایک بڑا سبب گردانتے ہیں۔ اگرچہ محمود غزنوی کا ہندوستان پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا اور نہ ہی سومنات کا مندر واحد تھا کہ جس کو کسی حکمران نے توڑا تھا، نہ ہی مسلمان وہ واحد حکمران طبقہ تھے جنہوں نے ہندو کے مندر کو اس طرح نشانہ بنایا تھا جیسا کہ رچرڈ ایٹن نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے مندروں کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات تاریخ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔ خود ہندو حکمران جہاں مندروں کی تعمیر میں حصہ لیتے تھے وہیں وہ اپنے مخالفین کے مندروں کو نشانہ بھی بناتے تھے ۔خاص کر ان مندروں کو جو مقامی حکمرانوں کی سرپرستی میں چلتے تھے اور ان کی سیاسی طاقت کا مرکز سمجھتے جاتے تھے۔
محمود غزنوی سومنات پر حملہ کرنے سے پہلے تھانسیر ماتھورا اور اس طرح کے کئی دیگر علاقوں پر حملہ کر چکے تھے اور وہ اس خطے میں قائم ہندو شاہی سلسلے کا خاتمہ بھی کر چکے تھے ۔اسی طرح وہ ملتان میں قائم شدہ اسماعیلی حکومت کے ساتھ لڑائی کر کے ان کی حکمرانی کا خاتمہ بھی کر چکے تھے۔ محمود غزنوی کا حملہ بر صغیر پاک و ہند میں مسلمان تاریخ کے ابتدائی نقوش میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔محمود غزنوی کے علاوہ محمد بن قاسم اور شہاب الدین غوری وہ اہم نام ہیں جنہوں نے دہلی میں مسلمان حکومتوں کی مرکزیت کو مستحکم کیا جس کے بعد مسلمان سلاطین کا ایک سلسلہ برصغیر پاک وہند میں شروع ہوا۔ مسلمان تاجر تجارت کی غرض سے برصغیر پاک و ہند کے ساحلی علاقوں کا رخ کرتے تھے اور جب اسلامی سلطنت کی حدود ایران تک پہنچی تو وہاں سے لامحالہ ان کا رابطہ ہندوستان کے لوگوں اور ان کی ثقافت سے بھی ہوا چونکہ ان کا ذریعہ معاش تجارت تھا اور اس دور میں مغربی ایشیا تک مسلمانوں کی حکومت کے نتیجے میں برصغیر ہند کے ذریعے تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا ۔اس لیے مندر کے پیروکار مالدار تھے اور اس کی شان و شوکت پر کثیر رقم صرف کرتے تھے ۔یوں سومنات کا مندر ایک امیر مندر کے طور پر مشہور تھا ۔یوں اگر دیکھا جائے تو اس واقعے کو گردیزی اور سستانی نے اس طرح پیش کیا ہے کہ بت پرستی کے خاتمے کا جو آغاز کعبہ سے کیا گیا اس کی تکمیل محمود غزنوی کے ہاتھوں ہوئی ،جس نے یہ بت سومنات میں توڑ دیا۔
19ویں صدی میں انگریزوں کے آنے کے بعد نو آبادیاتی دور کا اغاز ہوا جس کے زیر اثر ہندوستان کی تاریخ نویسی کا انداز بدل گیا۔ یہاں جیمزمل کی مشہور زمانہ کتاب کا حوالہ دینا ضروری ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کی تاریخ کو ہندو دور، مسلم دور اور برطانوی دور کا نام دے کر گویا تاریخ کو مذہبی طور پر تقسیم کر دیا۔ یہ نیا طرز تاریخ نویسی اس مفروضے پر استوار کیا گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جن کے عقائد باہم متصادم ہیں ۔لہٰذا اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ یہ آپس میں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں ۔نیز یہ کہ ہندو اور مسلمان گزشتہ ایک ہزار سال سے ایک دوسرے سے باہم نبردآزما ہیں اور ایسے میں صرف انگریزی نوآبادیاتی راج کے نتیجے میں ہی امن ممکن ہوا ہے۔ یوں اسلامی تاریخ محض ہندو مسلم فساد کی تاریخ میں تبدیل ہو گئی ۔کیا محمود غزنوی کا مقصد محض لوٹ مار کرنا تھا کیا وہ صدق دل سے اسلام کی خدمت کرنا چاہتے تھے اور اسلام کی ترویج کرنے کے لیے ہندوستان آئے تھے یا انہوں نے واقعتا ہندوؤں کی تذلیل کرنے کے لیے ان کے مندروں کو پامال کیا اور ان کی مورتیوں کو توڑ دیا ۔ان سوالات کا کوئی حتمی جواب نہیں دیا جا سکتا ۔ہاں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے جتنے بھی تاریخی ماخذات موجود ہیں ۔ان کو ان کے سیاق سباق میں دیکھتے ہوئے پڑھا جائے اور یوں اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے کہ کسی ایک ہی واقعے نے مختلف ادوار میں مختلف عمومی رویوں ترجیحات اور رجحانات کو جنم دیا اجتماعی یادداشت کسی ایک واحد غیر متبادل شے کا نام نہیں ہے ۔اس کی تشکیل سیاسی اور سماجی اثرات کے زیر اثر ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں 19ویں صدی سے پہلے ہندوٹراما نام کے کسی تصور کا وجود نہیں تھا۔ انیسویں صدی کے خاص سیاسی تناظر میں ہندوٹراما وجود میں آیا اور ایک نئی ہندو قومیت کی شناخت کا استعارہ بن کر ابھرا اگر ہم اسی سیاست قوت جسے ہم ہندوتوا کے نام سے جانتے ہیں کہ فکری اساس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم تاریخ کی تہ در تہ معنویت سے آشنائی حاصل کریں تاکہ ہم تاریخ کا صحیح طور پر ادراک کر کے اس کے سیاسی مضرات کو بھی سمجھ سکیں۔
کاش خواجہ صاحب تاریخ کے حقائق سے واقف ہوتے تو وہ محمود غزنوی کی اس طرح توہین نہ کرتے تصور کریں جب 1937میں علامہ اقبال افغانستان گئے تو انہوں نے نادر شاہ جو افغانستان کا بادشاہ تھا ان کا ہاتھ چوما اور کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی کیونکہ اپ آزاد ملک کے آزاد بادشاہ ہیں۔ اس موقع پہ نادر شاہ نے علامہ اقبال سے سوال کیا کہ آپ نے کہاں جانا ہے تو آپ نے فرمایا میں غزنی جانا چاہتا ہوں وہاں جا کر میں نے محمود غزنوی کو سلام پیش کرنا ہے۔ کوئی خواجہ صاحب سے پوچھے کہ علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیت وہ محمود غزنوی کی قدر کرتے تھے ، جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا ۔خواجہ صاحب قوم سے معافی مانگیں اور اس بات پر غور کریں کہ وہ اور ان کی لیڈرشپ پبلک پلیس پہ کیوں نہیں جا سکتی ؟ان کو طرح طرح کے القابات سے کیوں نوازا جاتا ہے؟ کسی کو لٹیرا کہنے سے پہلے آدمی اپنے کردار کا جائزہ لے اور انہیں عمران خان کی حکومت کی کارگردگی سے اپنی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ کرنا چاہیے ۔عمران خان کی حکومت میں شرح نمو چھ فیصد تھا جبکہ موجودہ حالات میں پاکستان انتہائی غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کے باعث سینکڑوں لوگ خودکشی کر چکے ہیں۔ جسم فروشی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ نوجوان ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ پورا پاکستان اور دنیا جانتی ہیں آپ کس طرح حکومت میں آئے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔