... loading ...
ب نقاب / ایم آر ملک
حال چوطرفہ تاریکیوں کاصیدِزبوں، یاس انگیز فضائوں میں محبوس ، حوصلہ شکن حوادث سے نڈھال ،جہاں دل گرفتگی کے مستقل ڈیرے ہیں! پستی اور پسماندگی کا منحوس راج اور ذہنی شکست خوردگی ،احساس کمتری کی پختہ و پائیدار عمل داری ہے۔
25کروڑ دلوں پر لمحہ لمحہ بارگراں ، زندگی بوجھ اور برسوں کی اداسی ہے آنکھیں کھول نہیں سکتے کہ جبر کا عفریت ہے ،بے گورو کفن لاشیں ہیں ، سوختہ بدن ،بکھرے اعضائ،پھوٹی آنکھیں ، ارض وطن پر پھیلی آنتیں ، مسلی کلیاں ،تڑپتی جوانیاں اور تار تار عصمتیں ہیں ،آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے کہ یہ دل دوز مناظر دماغ پھاڑنے کو آتے ہیں ،چادر چاردیواری کی پامالی پر جذبات ریزہ ریزہ ہیں ۔اگلے روز ایک اور قہر ٹوٹتا ہے کرب ناک چیخیں قیامت بپا کئے ہوئے ہیں، جگر خراش صدائیں ہنوز جاری ہیں،تصورات ڈستے ہیں اور تفکرات ذہن پر کوڑے برساتے ہیں ۔انسانیت امن و انصاف کے ہاتھوں یرغمال ہے، ماحول ظلم وسفاکی وخونخواری درندگی اور بہمیت کے زہر میں ڈوبا ہوا ہے۔قوم پر مسلط میر جعفروں کے سامنے صداقت و انصاف کا نام لیوا وہ مجرم ہے جس کا وجود ناقابل برداشت ہے۔دجال وقت دنیا کی حرکت وسکون،امن و جنگ،پسماندگی و ترقی کی لگامیںتھامے ہوئے ہے۔ شمشیروسناں کی وارث قوم کے حکمران اس کے ایجنٹ اس کی حرکت ابرو کے منتظردم سادھے کھڑے ہیں وہ انسانیت کی رگ و جاںپر انگوٹھا رکھ چکا ہے کہ دنیا کو اگر زندگی عزیز ہے تو وہ اس کی غلامی کرے ورنہ وہ شہہ رگ دبانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
مسلمان بطور خاص اس کی ہولناک سفاکیوں کا شکار ہیں ۔عراق،افغانستان،لیبیا ،فلسطین،اور اب شام بارود کا ڈھیر بننے والا ہے،تاریخ انسانیت کو تجربے فراہم کرنے کیلیے مرتب کی جاتی ہے۔ اس کے لازوال صفحات پر درج ہزاروں ،لاکھوں،عبرتیں،نصیحتیں،فضیحتیں،فتوحات،ہزیمتیں اور عروج وزوال کی داستانیں ایک بیدار ذہن اور حساس دماغ کیلیے اپنے مستقبل کے خدوخال سنوارنے میں ایک اچھے استاد بلکہ مدبر رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دنیا میں کامیاب قوموں کی فتوحات اور کامرانی میں اسی استاد کا سب سے زیادہ کردار ہوتا ہے یہ وہ کتاب ہے جس کے چند باب دیکھ کر قوموں کے مزاج و مذاق اور نفسیات کی تشخیص کی جاسکتی ہے ان کی کمزوریوں اور خامیوں کا راز معلوم کیا جاسکتا ہے اور ان بنیادی نکات پر قابو پانے کے بعد ہرقوم سے اس کی کمزوریوں کے مطابق سلوک کیا جا سکتا ہے اور اس کی نفسیات کے حوالے سے اسے کسی بھی کمزور لمحے میں زیر کیا جا سکتا ہے اس کتاب سے جتنی رہنمائی قوم یہود نے لی کسی اور قوم نے نہیں لی اور اس سے غفلت برتنے والوں میں ہم مسلمان سرفہرست ہیں۔
ہمارے حال کے پاس ماضی کی سوائے عہدرفتہ کی میٹھی یادوں کے اور کچھ نہیں جن میں کھو کر کچھ دیر کے لیئے حال کے ذہنی عذاب سے عارضی نجات حاصل کرنے کے کو ئی چارہ نہیں مقررین و خطباان میٹھے تذکروں سے وقت گزاری کا کا م لے رہے ہیںاور مصنفین ان سے خالی اوراق کا پیٹ بھر رہے ہیں ۔آج ہم مسلمان بحیثیت مجموعی ایک صاف و شفاف اور قابل فخر تاریخ کے ذیل میں غلامی ،محرومی ،پستی اور گراوٹ کے دھبوں سے داغ دار روداد ہیںاور اس چشمہ صافی کو مسلسل اپنے بے نصیب ایام سے مکدر کرنے میں مصروف ہیں سنہرے ادوار کی لاج رکھنے میں بری طرح ناکام ہیں اور ان لازوال کرداروں کی شہرت کو دشمنوں کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانے کا کام اپنے فرائض کی فہرست سے مٹا چکے ہیں ۔
مستقبل کے خدوخال حال کے حلیے سے واضح ہیں حال میں ہم جو تخم کا ری کر رہے ہیں مستقبل انہی کے برگ و بار لانے کا نام ہے کاشت کی مشقت سے جان بچانے والادہقان زمیں کو جھاڑیوں اور خس و خاشاک کے حوالے کرکے کسی معجزے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہے من کی دنیا میں بے تکی امیدوں کی کونپلیں پالتے اور پھوڑتے رہنے کا روگ ہے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کے بجائے اکیلے اکیلے حالات کے رحم و کرم پر جیون گزارنے میں مگن ہیں اجتماعیت کی حالت اس ریوڑ کی طرح ہے جسے صحرا میں کالی رات ، گہرے بادل ،تندو تیز بارش اور گرج چمک کی چکا چوند سے واسطہ پڑا ہو اور جن کا نگہبان بھیڑیوںکے ساتھ مل گیا ہوایسے ریوڑ کا مستقبل واضح ہے ۔ہچکولے کھاتی کشتی کو نا خدا ظالم موجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو تاہم کشتی میں سوار افراد میں کوئی ایسا ناخدا بھی مل جاتا ہے جو آخر دم تک اس کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے اسی میں اس کی اور جملہ ہم رکابوں کی نجات ہے خطرات کے بھنور میں ہی اس کھیون ہار کی اصل صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ نیا کو طوفانوں سے نکا ل کر ساحل سے لگا دیتا ہے۔
مانا کہ حالات کی غضب ناک موجیں بپھری ہوئی ہیں اور ان طغیانیوں کا رخ موڑ دینا آساں نہیں مگر کیا ہاتھ باندھ کر ہلاکت کا انتظار کرنا قرین قیاس ہے ؟اور کیا ہماری نجات کے تمام راستے مسدود ہوچکے ؟کیا ہم نے بچائو کی تمام ممکنہ تدبیریں آزما لیں اور شر کی قوتوں کا کما حقہ’ مقابلہ کرنے کے بعد اپنے آ پ کو عاجز پا لیا کیا اس حد تک ہم مقدور صرف کر چکے جس کے بعد ہم عنداللہ معذور ہوں اور ہمارے لیے یاس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو ۔ہر گز نہیں۔
بہت کچھ کرنا باقی ہے اور فرض ہے جس کی ادائیگی کا حساب دینا ہے اس فرض سے استعماریت کے حاشیہ نشین حکمران عرصہ ہوا منہ موڑ چکے کہ وہ حالات کی رو میں بہنے والے تنکوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جہاں ان کے مفادات کی ہوا چلی وہ وہیں کے ہو گئے اصل ذمہ داری قوم پر آپڑی ہے کہ وہ محب وطن ،خوداراور غیرت مند لیڈر شپ کے انتخاب میں ایک ہو ۔ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب کا لیبل لگا کر قوم کی لیڈر شپ کی دعویدار قوتیں جنہوں نے ہمیشہ آمریت کے کندھوں کو استحکام بخشاایک حکمران کو 26ویں ترمیم کے ذریعے طاقت ور بنایا کہ اسے اپنے ہم وطنوں پر جبروقہر ڈھانے کا لائسنس مل گیا۔ پھر محب وطن قوتوں کی آواز “عمران خان “کی شکل میں ابھرتی ہے کہ اس وقت وہی مسیحا ہے اور لیڈر شپ کے اوصاف حمیدہ اس کی ذات کا خاصا ہیں۔
بہت ہو چکیں سوکھی مذمتیں ،بے جان قرار دادیں ،بے اثر فریادیں تمام امور کی جڑ تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش عمران خان کے انتخاب کے سوا کچھ نہیں جو آفاقی دین کا پیروکار ہونے کی حیثیت سے بحروبر کا فرق کیے بغیر آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ااور امید سحر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔