... loading ...
سمیع اللہ ملک
جب کوفہ ایک بارپھرفتح ہونے پرمختارثقفی کاسرکاٹ کرمصعب ابن زبیرکے سامنے پیش کیاگیاتواس نے فرمان جاری کیاکہ جشن مناؤ، دشمن اسلام ماراگیا۔دربارمیں بیٹھاایک بوڑھا مسکرایاتومصعب نے انتہائی غصے سے دریافت کیا:کیوں ہنستاہے بڈھے؟اس بزرگ بوڑھے نے کہا:ماضی یادآگیا۔حال سامنے ہے۔مستقبل آدھادکھائی دے رہاہے۔ مصعب نے حکم دیاکہ تفصیل سے بتاؤ!بوڑھے نے کہا: سن سکوگے؟پھراس نے جب بولناشروع کیاتودرودیوارہل گئے:
یہی دربارتھا۔عبیداللہ ابن زیادتخت پربیٹھاتھا۔حسین ابن علی کاسرلایاگیا۔ابن زیادنے کہاجشن مناؤ،دشمن اسلام مارا گیا۔ہم نے جشن منایا۔ ایک بارپھریہی دربارتھا،جس مختار ثقفی کاسرتیرے قدموں میں پڑاہے،یہ اسی تخت پہ بیٹھاتھاجہاں اس وقت توبیٹھاہواہے۔ابن زیاد کاسرکاٹ کرلایاگیاتومختارثقفی نے فرمان جاری کیا،جشن مناؤ،دشمن اسلام مارا گیا۔ہم نے جشن منایا۔آج وہی دربارہے اوراسی تخت پرتوبراجمان ہے۔مختارثقفی کاسرلایاگیاہے،تیراحکم ہے جشن مناؤ،دشمن اسلام ماراگیا۔ہم آج بھی جشن منائیں گے۔کل بھی یہی دربار ہوگا،یہ تونہیں جانتاکہ تخت پرکون بیٹھاہوگالیکن اتناپتہ ہے کہ سرتیراہوگااورفرمان جاری کیاجائے گا،جشن مناؤ،دشمن اسلام مارا گیااورہم جشن منائیں گے۔ بوڑھے کی پیشگوئی کے عین مطابق کوفہ کے دربارمیں عبدالملک بن مروان کے سامنے مصعب بن زبیرکاسرپیش کیاگیااوراس نے جشن منانے کاحکم دیا۔کسی نے بوڑھے کی بات کا عبدالملک بن مروان کے سامنے ذکرکیاتوعبدالملک بن مروان نے فورا دربارکی عمارت کو گرانے اوردربارکوکوفہ کے کسی دوردرازعلاقے میں تعمیرکرنے کاحکم دیالیکن واقعات تواب بھی سرزدہو رہے ہیں۔
تاریخ خودکوایک مرتبہ پھردہرارہی ہے لیکن اس مرتبہ کوفہ کی جگہ دمشق کاانتخاب کیاگیاہے۔بشارالاسدکواقتدارسے بیدخل کیے جانے کے بعددمشق میں واقع ایرانی سفارتخانے میں رہبراعلی آیت اللہ خامنہ ای،قاسم سلیمانی اورحزب اللہ کے سابق رہنماحسن نصراللہ کی مسخ شدہ تصاویریہ یاددلارہی ہیں کہ ایران کوکیسے ایک کے بعدایک نقصان اٹھاناپڑا ہے اور شام میں واقعی ایک انقلاب برپاہوگیاہے۔دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے فرش پرٹوٹے ہوئے شیشوں اورایرانی پرچم کے ٹکڑوں کے درمیان ایران کے رہبرِاعلی سمیت دیگران تمام رہنماؤں کی تصاویروالے پھٹے ہوئے پوسٹرزبھی نیچے بکھرے پڑے ہیں اورہرکوئی انہیں پاں تلے روندتاہوا گزررہاہے۔درجنوں ایسی ہی تصاویرجوکل تک ایک عزیمت، شجاعت اوراحترام کی حقدار سمجھی جاتی تھی،آج ِ عبرت کے مناظرپیش کررہی ہیں۔
ایرانی سفارتخانے کی فیروزی ٹائلیں تواپنی جگہ قائم ہیں مگریہاں ایران کے پاسداران انقلاب کے انتہائی بااثرسابق فوجی رہنما قاسم سلیمانی، جنہیں امریکی صدرٹرمپ کے حکم پر مارا گیاتھا،کی ایک بڑی تصویرہے جس پران کے چہرے کومسخ کیاگیاہے۔دمشق میں واقع ایرانی سفارتخانے میںرہبراعلی اورقاسم سلیمانی کی مسخ شدہ تصاویریہ یاددلاتی ہیں کہ ایران کوکیسے ایک کے بعدایک نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اب ایک ایسے وقت پرجب ایران اپنے زخم چاٹ رہاہے اوراسے ٹرمپ کے ایک اورصدارتی دورکاسامناہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے میں یہ ملک ایک بارپھربہت سخت گیرپالیسی اختیارکرے گایاپھریہ مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغازکرے گا؟اوریہ کہ اس وقت ایران کی اپنی حکومت کس قدرمضبوط ہے؟
بشارالاسدکی حکومت کاتختہ الٹنے کے بعدرہبراعلی نے اپنی ایک شکست کے باوجودخطاب کیلئے ایک دلیرانہ انداز اختیار کیا۔ 1989 سے ایران کے سیاہ وسفیدکے مالک رہنے والے85برس کے آیت اللہ خامنہ ای کواب اپنے جانشین کے چیلنج کابھی سامنا ہے۔ انہوںنے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ کیاکہ”ایران مضبوط اورطاقتورہے اوریہ مزیدمضبوط ہو گا”۔مشرق وسطیٰ میں ایران کی حمایت سے حماس،حزب اللہ،یمن کے حوثی اورعراقی شیعہ گروہوں پرمشتمل اتحاد”مزاحمت کامحور”بھی اسرائیل کے خلاف مزیدمضبوط ہو کر ابھرے گا۔ تم جتنادباؤڈالوگے،یہ مزاحمت اتنی ہی بڑھے گی۔تم جتنے جرائم کروگے تویہ مزاحمت اتنی ہی مستحکم ہوگی۔تم ہمارے خلاف جتنالڑوگے تو یہ لڑائی اتنی ہی پھیلے گی”۔ مگر 7/ اکتوبر2023کوحماس کی طرف سے اسرائیل پرحملے،جسے اگرایران کی حمایت حاصل نہ بھی تھی تواس کی تعریف اس نے ضرورکی،کے بعدسے جوکچھ خطے میں ہوا،اس سے ایران کی حکومت ہِل کر رہ گئی۔
اسرائیل کی اپنے دشمنوں کے خلاف کاروائیوں نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئے منظرنامے کوجنم دیاہے جس میں اب ایران کہیں دور دور تک نظرنہیں آتا۔امریکاکے سابق سفارتکار اور تھنک ٹینک ولسن سینٹرکے جیمزجیفری کاکہناہے کہ”مزاحمت کے محورکے تمام حصہ داراب شکست کھارہے ہیں۔ایران کے مزاحمت کے محورکواسرائیل نے کچلااورشام میں حکومت کی تبدیلی کے بعدتو اب یہ مزیدبکھررہاہے۔یمن کے حوثیوں کے علاوہ خطے میں ایران کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ایران اب بھی پڑوسی ملک عراق میں طاقتورمسلح شیعہ گروہوں کی پشت پناہی کرتا ہے ” مگرجیمز جیفری کے مطابق”جوکچھ ہوااس سے غیرمعمولی طورپرخطے میں(ایرانی)تسلط کاخاتمہ ہواہے”۔
بشارالاسدآخری بارعوامی سطح پریکم دسمبرکوایران کے وزیرخارجہ کے ساتھ ایک اجلاس میں نمودارہوئے تھے جب انہوں نے اس عزم کا اظہار کیاتھاکہ وہ دمشق کی طرف پیش قدمی کرنے والے باغیوں سے سختی سے نمٹیں گے مگراب اپنی حکومت کے خاتمے کے بعداس وقت اب بشارالاسدفرارہوکرروس میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ایران کے شام میں سفیرحسین اکبری نے بشارالاسدکومزاحمت کے محورکے سرکردہ رہنما کے طورپرمتعارف کرایامگرجب خود بشارالاسدکے اقتدارکاآخری وقت آن پہنچاتوپھرایران بھی ان کیلئے کچھ کرنے کے قابل نہ رہااوریہ بھی سننے کوملاکہ ایران نے بشارالاسدکوآخری وقت میں پناہ دینے سے بھی معذوری کااظہارکردیااوریوں چنددنوں میں مزاحمتی محورمیں شامل ایک اہم ترین رہنماکا نام بھی اس فہرست سے مٹ گیا۔
ایران نے خطے میں اپنااثرورسوخ برقراررکھنے اوراسرائیل کے خلاف ایک طاقت کھڑی کرنے کی غرض سے کئی دہائیاں لگاکر مسلح گروہوں کاایک نیٹ ورک تیارکیا۔یہ سلسلہ 1979سے شروع ہوتاہے۔عراق کے ساتھ جنگ کے بعد شام کے حکمران بشارالاسد کے والد حافظ الاسدنے بھی ایران کی حمایت کی۔شام میں اسدخاندان(جن کاتعلق علوی فرقے سے ہے)اورایران میں شعیہ علماکے درمیان اتحاد نے سنی اکثریتی مشرق وسطی میں ایران کی طاقت کومضبوط کیا۔ایران کیلئے اپنے اتحادی لبنان،حزب اللہ اورخطے میں دیگر مسلح گروہوں کی مددکیلئے شام اہم سپلائی روٹ بھی تھا۔
ایران اس سے قبل بھی بشارالاسدکی مددکیلئے سامنے آیاجب2011میں بشارالاسدکے خلاف ایک بغاوت شروع ہوئی توایسے میں ایران نے ان کی مدد کیلئے جنگجو،ایندھن اور ہتھیار بھیجے۔فوجی مشیرکے طورپرفرائض سرانجام دیتے ہوئے2ہزارسے زائدایرانی فوجی اور جرنیل مارے گئے ہیں۔اہم ذرائع کے مطابق ایران نے2011سے اب تک30 سے50بلین ڈالرخرچ کئے مگراب ایران کی طرف سے مستقبل میں لبنان میں حزب اللہ اوردیگرگروہوں کی مدد کیلئے یہ سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔مزاحمت کامحورایک ایسانیٹ ورک تھا جسے اس طرح بنایاگیاتھاکہ وہ ایران کیلئے اہم اثاثہ ثابت ہواوراس کی موجودگی میں تہران پرکسی قسم کاکوئی براہ راست حملہ نہ ہو سکے مگریہ حکمت عملی واضح طورپرناکام ہوچکی ہے۔
شام میں بشارالاسدحکومت کے خاتمے کے بعدایران کیلئے آگے بڑھنے کے امکانات محدودہوگئے ہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں اسرائیل سے براہ راست لڑائی میں تہران کی فوج کمزورنظرآئی ہے۔اکتوبرمیں ایران نے اسرائیل پرجوبیلسٹک میزائل داغے،ان کا تعاقب کرکے انہیں بے اثرکردیاگیاتھا۔یہ اوربات ہے کہ ان میں سے کچھ میزائلوں سے اسرائیل کے متعددفضائی اڈوں کونقصان بھی پہنچا۔اسرائیل کے جوابی حملے میں ایران کے ایئرڈیفنس کے نظام اورمیزائل بنانے کی صلاحیت کوشدیدنقصان پہنچا۔جیمزجیفری کا کہناہے کہ”میزائل تھریٹ تومحض کاغذی شیرثابت ہواہے۔حماس کے رہنمااسماعیل ہنیہ کی جولائی میں تہران میں ہلاکت بھی ایران کیلئے شرمندگی کاباعث بنی”۔
ایران کی ترجیح اول اپنی بقاکویقینی بناناہے۔اب ایران اپنے آپ کوتبدیل کرنے،مزاحمت کے محورمیں سے جوبچاہے،اسے تقویت دینے اورعلاقائی تعلقات میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کرے گاتاکہ نومنتخب ٹرمپ کے دباؤسے بچاجاسکے۔ڈینس ہورک نے کینیڈاکے ناظم الامورکے طورپرتین سال ایران میں گزارے۔وہ کہتے ہیں کہ”یہ ایک مضبوط اعصاب والی حکومت ہے جس میں طاقت کے زبردست محورہیں،اوروہ خطرات سے کھیل سکتے ہیں”۔ان کے مطابق ایران میں اب بھی لڑنے کی بے پناہ صلاحیت ہے جسے اسرائیل سے جنگ کی صورت میں وہ خلیجی عرب ممالک کے خلاف استعمال کرسکتاہے۔انہوں نے خبردارکیا ہے کہ ایران کومحض کاغذی شیرسمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔
یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ عالمی طورپرایران اب کافی کمزورہوگیاہے۔ابھی اسے غیرمتوقع ٹرمپ کاسامناہوگاجو20دسمبرکوامریکی صدر کاحلف اٹھالیں گے اوردوسرااسرائیل نے یہ ثابت کیاہے کہ وہ اپنے دشمنوں کاانتخاب کیسے کرتاہے۔ایران یقینی طور پراپنے ”ڈیفنس ڈاکٹرائن” یعنی دفاعی نظریے کوبھی ازسرنوترتیب دے گاجس کاپہلے خاصاانحصار مزاحمت کے محورپرتھا۔اب وہ اپنے نیوکلیئرپروگرام کابھی جائزہ لے گااوراس بات کابھی تعین کرے گاکہ ملک کی وسیع ترسلامتی کیلئے اس پروگرام میں بڑی سرمایہ کاری ضروری ہو گی۔ایران کایہ اصرارہے کہ اس کانیوکلیئرپروگرام مکمل طورپرپرامن مقاصدکیلئے ہے مگرٹرمپ نے اپنے پہلے دوراقتدارمیں ایران سے2015کامعاہدہ ختم کیا۔اس معاہدے کے تحت معاشی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے ایران اپنے پروگرام کو محدودکرنے پررضامندہوگیاتھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کویورینیم افزودگی3.67فیصدتک کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔کم درجے کی یورینیم افزدوگی سے تجارتی
نیوکلیئرپاورپلانٹس کیلئے ایندھن پیداکیا جا سکتا ہے۔جوہری امورپرنظررکھنے والی اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے)کاکہناہے کہ اب ایران اسے60فیصدتک لے جاکریورینیم کی افزدوگی کی حدمیں بہت زیادہ اضافہ کررہاہے۔ ایران کاکہناہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے جواب میں ایساکررہاہے۔نیوکلیئربم کیلئے90فیصداوراس سے زیادہ حدتک یورینیم کی افزودگی درکار ہوتی ہے۔آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کاکہناہے کہ ایران شایدخطے میں اسے پہنچنے والے نقصانات کے بعدایساکررہاہے۔
رائل یونائیٹڈسروسزانسٹیٹیوٹ کے”نیوکلیئرپروفیلریشن”امورکی ماہردریادولزیکوف کے مطابق”یہ خاصی تشویشناک صورتحال ہے۔ نیوکلیئر پروگرام 2015کے مقابلے میں بالکل ایک مختلف جگہ پرہے۔اگرچہ ماہرین کاکہناہے کہ ایران ایک ہفتے کے اندریورینیم کی افزودگی سے بم تیارکرسکتاہے مگراس کیلئے اسے وارہیڈکی ضرورت ہے جس سے پھروہ یہ بم فائرکرنے کے بھی قابل ہو سکے۔اس عمل میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں یاکم ازکم ایک سال کاعرصہ درکارہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ ایران کس حد تک نیوکلئیر ہتھیاروں کے قریب پہنچ چکا ہے مگرایران کو اب اس بارے میں علم ہوگیاہے اوراب اسے پیچھے ہٹاناخاصامشکل ہوگا”۔
مغربی ممالک کواس پرتشویش ہے۔تل ابیب یونیورسٹی میں اسرائیلی انسٹیٹیوٹ فارنیشنل سکیورٹی سٹڈیزکی سینیئرمحقق ڈاکٹرریز زمت کا کہنا ہے کہ”یہ واضح ہے کہ ٹرمپ ایران کو(اس حوالے سے)مکمل دباؤمیں رکھیں گے مگرمیرے خیال میں وہ ایران سے مذاکرات کے دروازے بھی کھولیں گے تاکہ اس کے متعلق ازسرنوبات چیت کاآغازہوسکے اوروہ ایران کواس کے نیوکلیئرپروگرام سے دستبرداری پرراضی کرسکیں”۔نیتن یاہوایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں مگرڈاکٹرریزکے خیال میں”اسرائیل انتظارکرے گاکہ آخرٹرمپ کیاکرتے ہیں اور ایران اس کاپھرکیاجواب دیتاہے۔اس کے امکان کم ہیں کہ ایران جنگ چھیڑنے کامتمنی ہوگا”۔
میں اپنے ایک کالم میں اس توقع کااظہار بھی کرچکاہوں کہ میرے خیال میں بطوربزنس مین ٹرمپ ایران سے بات چیت کی راہ نکالیں گے اورڈیل کی کوشش کریں گے۔اگرایسا نہیں ہوتاتوپھروہ اسے مذاکرات کی میزتک لانے کیلئے زیادہ سے زیادہ دباؤڈالیں گے۔اس لئے میںاب بھی یہ سمجھتاہوں کہ جنگ سے زیادہ ڈیل کے امکانات ہیں۔تاہم اس بات کے بھی امکانات موجود ہیں کہ اگروہ زیادہ دباؤ بڑھائیں گے تواس سے خرابی بھی پیدا ہوسکتی ہے اورپھراس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلے گاجوامریکااوران کے اتحادیوں میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا۔
ایران کواس وقت متعددداخلی چیلنجزکابھی سامناہے۔تہران نے نئے رہبراعلیٰ کابھی انتخاب کرناہے۔آیت اللہ خامنہ ای اب اس بات پر پریشان ہورہے ہوں گے کہ وہ جاتے ہوئے اپنی وراثت اوراقتدارکی منتقلی اس طرح کریں کہ ایران ایک”مستحکم پوزیشن”پرکھڑا ہو ۔ملک بھرمیں2022کے احتجاج کے بعدایرانی حکومت کوبڑادھچکالگاتھا۔یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایک نوجوان خاتون مہساامینی کواس الزام پرماردیاگیاکہ وہ معقول پردہ نہیں کرتی تھیں۔اس احتجاج کے ذریعے مذہبی رہنماں کی اسٹیبلشمنٹ کی قانونی حیثیت کوچیلنج کیاگیااورپھران مظاہروں کوطاقت کے بل بوتے پرکچل دیاگیا۔
ملک کے اندرابھی یہ غصہ بڑے پیمانے پرہے کہ ایران ملک سے باہرتوبہت خرچ کررہاہے مگرجوبے روزگاری اورافراط زرکا سامنا ایرانی شہریوں کوہے،اس سے متعلق کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔خاص طورپرایران کی نوجوان نسل اسلامی انقلاب سے کٹی ہوئی ہے۔ان کی اکثریت حکومتی پابندیوں پرسوالات اٹھاتی ہے۔گرفتاری کے خطرے کے باوجودہرروز خواتین بغیرپردے کے باہرنکل کرحکومتی اقدام کوہوامیں اڑادیتی ہیں۔ایران پرنظررکھنے والوں کاکہناہے کہ اس سب کے باوجود ابھی شام کی طرح ایران میں حکومت کی تبدیلی کاکوئی امکان تونہیں ہے لیکن درپردہ کچھ ایسی قوتیں بھی ضرورپنپ رہی ہیں جو کبھی بھی یکدم حیران کرسکتی ہیں۔
جیمزجیفری کاکہناہے کہ”میرانہیں خیال کہ ایرانی عوام دوبارہ اٹھیں گے کیونکہ ایران نے اپنی سلطنت کھودی ہے جوکہ بہت غیر مقبول تھی”۔ ڈینس ہورک کے خیال میں اب ایران کی اختلافی آوازوں کیلئے برداشت مزیدکم ہوجائے گی کیونکہ اب وہ اپنی اندرونی سکیورٹی پر توجہ دے گا۔پردہ نہ کرنے والی خواتین کی سزاؤں کوبھی مزیدسخت کرنے سے متعلق قانون سازی جلدی ہونے والی ہے۔تاہم ابھی ایرانی حکومت کوکوئی خطرہ نہیں ہے۔اگرلاکھوں ایرانی اس حکومت کی حمایت نہیں کرتے تووہاں لاکھوں ایسے بھی ہیں جواس کے حمایتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ یہ حکومت کسی بھی وقت گرسکتی ہے”۔
اگرملک کے اندرغصے کوبھی دیکھاجائے اورشام میں ایران کوپہنچنے والے نقصان پربھی نظردوڑائی جائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ اب ایران کے حکمرانوں کوضرورایک پیچیدہ صورتحال کا سامناہے۔کیاان مشکل حالات میں ایران اپنے پڑوسی ممالک میں ان عناصر کی مددکرنا بند کر دے گاجس کی وجہ سے پڑوسی ممالک کوایران سے خاصی شکائت ہے۔یقیناً ایران کواپنے پڑوسیوں کی حمائت کی جس قدرآج ضرورت ہے، اس سے پہلے کبھی ایسی نہ تھی۔
پڑوسی کے مکاں میں چھت نہیں ہے
مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھنا