... loading ...
ایم سرور صدیقی
ُۖ کبھی غورکریںتو ہرذی شعور کو محسوس ہوگا کہ ہم ایسی اندھیر نگری کے باسی بن گئے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے نہ اخلاقی اقدارکی پاسداری ، لوگوں کی قوت ِ برداشت جواب دے گئی چھوٹی چھوٹی باتوںپر ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارا وطن ایک ایسا ملک بن گیاہے جہاں ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس”کا مقولہ ایک حقیقت بن گیاہے جنگل کے قانون میں بھی شاید اتنا ظلم نہیں ہوتا ہوگا جتنا ہمارے معاشرے میںر واہے یہاں جو جتنا طاقتور، صاحب ِ اختیارہے اس سے بڑھ کرظلم کیاہوسکتاہے جہاں اچھائی برائی۔حلال حرام میں تمیزختم ہو جائے وہاںہرروز نیا سانحہ اور ہررات نیا المیہ جنم لیتاہے لیکن پھربھی اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا چاہتاکسی بڑے سے بڑے واقعہ اور سانحہ پر بھی ہمارا کوئی خاص ردِ عمل نہیں ہوتا ۔۔ہوتابھی ہے تو وقتی پوری قوم پرایسے لگتاہے جیسے اجتماعی بے حسی طاری ہے حالانکہ ہمارے مذہب نے صلہ رحمی کو ایسی نیکی قراردیاہے جس میں عافیت ہی عافیت ہے اب تو ہم اپنے قریبی عزیزو اقارب سے بھی نیکی یا صلہ رحمی کرنے کیلئے روادارنہیں پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے،غزہ میں ہزاروں بے گناہوں کے ساتھ جو ہورہاہے ۔ اس پر مسلمانوںکی غیرت جاگے اسی لئے فلسطین کے حالات دن بہ دن گھمبیر ہوتے جارہے ہیں ان حالات میںمقبوضہ کشمیر، عراق، بوسینیا،برما ،شام اور دیگر ممالک کے مسلمانوںکے قتل ِ عام پر عالمی برادری کا ضمیر بیدار نہ ہونا سمجھ میں آتاہے۔باون مسلم ممالک کے حکمران سور ہے ہیں اسی لئے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اندھی ، گونگی اور بہری ہوگئی ہیں اور تو اور اتنا ظلم ہونے کے باوجود پوری مسلم امہ خواب خرگوش مزے سے سورہی ہے اوربدقسمتی سے جاگنا بھی نہیں چاہتی البتہ جو جگانے کی کوشش بھی کرتاہے یہ قوم ”پپو یار تنگ نہ کر” کہہ کر پھر سو جاتی ہے لیکن کسی کو حالات کی سنگینی کااحساس تک نہیں شاید حالات سے” فرار” کا اس سے اچھا طریقہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔جب قوموں سے احساس ،مروت ، اخوت ،ہمدردی جیسے اوصاف ختم ہو جائیں تولوگوں کی یہی کیفیت ہو جاتی ہے،دل احساس کی دولت سے محروم ہوکر بنجرہو جائیں تو برسوں رحمت کی برکھا بھی نہیں برستی ۔مال ، دولت اور وسائل کی لگن میں حلال حرام اور اچھے برے کی پہچان کھو دے تو زندگی کسی لق دق صحراکی مانندہو جاتی ہے لرزتے ہونٹ ، کاپتے جسم ،پانی کو ترستی زباں کے ساتھ پانی کی تلاش میں قدم قدم پر سراب دکھائی دیتاہے سب جانتے ہیں دنیا ایک دھوکہ ۔۔ہے، دل بھی یہی کہتاہے زبان سے انکار نہیںہوتا ہم دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک جاتے ہیں زندگی کی آخری سانسوں تک دل سے دولت کی محبت ختم نہیں ہوتی پھر سو چتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہم سے کیوں منہ موڑ رکھا ہے آج ابھی وقت ہے ۔ چلیں دل پر ہاتھ رکھ کر خود فیصلہ کرلیں یہ صورت ِ
حال کس کس کو گواراہے؟ اسلام تو ظلم کی ہر شکل کے خلاف ہے، استحصال خداکو ہرگز گوارا نہیں۔ انسانیت سے پیار ہادی ٔ برحق ۖ کا پسندیدہ کام ہے ۔ہمارے پاس زندگی گذارنے کا مکمل منشورہے جس میں ہر چیز واضح واضح ہے۔ اچھا برا ایک برابر۔ ظالم ، مظلوم سے ایک سا سلوک۔ حلال حرام ایک جیسا۔ دن رات میں کوئی تمیز نہیں ۔نہیں جناب نہیں یہ فلسفہ درست نہیں ۔۔برائی کو دل میں بھی برا نہ کہنا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ حیف صد حیف!زندگی کے نخلستان میں ہم بھٹکتے پھرتے ہیںہرروز نیا سانحہ اور ہررات نیا المیہ بھی ہمارے ضمیرکو نہیں جگاتا اب آپ خود سوچ سمجھ کرجواب دیں زندگی کسی لق دق صحرا میں بھٹکتے رہنے کا نام ہے آج اس شعورکو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو حضرت عمربن عبدالعزیز کی وہ مثال یاد نہیں کیا جب رات کے وقت وہ کوئی سرکاری کام کررہے تھے ایک شخص ان سے اپنے کسی ذاتی کام کی غرض سے ملنے چلا آیا انہوںنے اسے انتظارکرنے کہ کہا۔ پھر جب اسے بلایا توجلتی شمع(فانوس) گل کردیا اس شخص نے حیرت سے دریافت کیا آپ نے شمع کیوں بجھا دی؟۔حضرت عمربن عبدالعزیز کا جواب تاریخ بن گیا انہوںنے کہا ذاتی کام کیلئے سرکاری وسائل استعمال کرنا میںگناہ سمجھتا ہوں۔
غور کریں آج ہمارے حکمران کیا کرتے پھررہے ہیں پروٹوکول کے محتاج، حفاظت پر ہزاروں اہلکار معمور،حکمر انوں کی آمدپر سڑکیں بازار بند پھر بھی انہیں اپنی جان کا خوف لاحق ہے شایدہمارے حکمران وہ قول بھی بھول گئے دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے تو قیامت کے روز عمر اللہ کے حضور جوابدہ ہوگا دنیا بھرکے آئین،قانون اور منشور اٹھاکردیکھ لیجئے۔ انسانیت کیلئے اس سے بڑھ کر کوئی نہیں سوچ سکتا ۔اسلام کی نشاةثانیہ آج بھی بحال ہوسکتی ہے اس کیلئے تمام مسلم حکمرانوںکواجتماعی طاقت کے ساتھ اپنے بھرپور وسائل کو استعمال کرناہوگااقوام ِمتحدہ کی طرزپر اسلامی بلاک تشکیل دیناہوگاذاتی مفادات کوترک کرکے اسلام کی سربلندی کیلئے کام کرنا شرط ِ اولین ہے ۔وگرنہ ہمارا کیا مستقبل ہے۔ فلسطین،مقبوضہ کشمیر، عراق، بوسینیا،برما ،شام کی حالت اور حالات جان کر اندازہ لگایا جاسکتاہے۔