وجود

... loading ...

وجود

مودی کی متعصبانہ پالیسیاں

اتوار 29 دسمبر 2024 مودی کی متعصبانہ پالیسیاں

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مودی سرکار کی مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ پالیسیاں برقرار ہیں۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں ہندو انتہا پسندوں کی مسلمانوں کو مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ رواں سال حکومت نے 15 مساجد کو غیرقانونی قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم دیا۔ شملہ میں 5 مساجد کو عدالتی حکم پر شہید کیا گیا جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ 2023 سے ہماچل پردیش میں مساجد کی مسماری کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ ہفتے ہندوتوا غنڈوں نے کندا گھاٹ میں قدیم مسجد کو تجاوزات کی آڑ میں شہید کیا جس سے وہاں کے مسلمان مسجد میں نماز پڑھنے سے محروم ہوگئے۔ مقامی مسلمان رہنماؤں نے مساجد کی مسماری کے اقدام کو مودی سرکار کی اسلام مخالف پالیسی قرار دیا۔
ہماچل پردیش کے منڈی میں مسجد کا ایک حصہ منہدم کرنے کے معاملے میں مسلم فریق کو راحت مل گئی ہے۔ پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی نے مسجد کے حصہ کو گرانے اور اس کی پرانی حالت میں بحال کرنے کے حکم پر روک لگا دی ہے۔ اس معاملے میں اگلی سماعت پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی کی عدالت میں ہی ہوگی۔ اس دوران میونسپل کارپوریشن بھی آفس ریکارڈ کے ساتھ اپنا موقف پیش کرے گا۔ پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی کے سامنے سماعت کے دوران مسلم فریق نے غیر قانونی تعمیر کی بات سے انکار کیا۔ مسلم فریق کے مطابق 2013 میں ہوئی بھاری بارش کی وجہ سے مسجد کا اہم اور بڑا حصہ گر گیا تھا، جسے اگست 2023 کو پھر سے بنایا گیا۔ مسلم فریق نے الزام لگایا کہ کمشنر کورٹ میں ان کا موقف صحیح طرح سے نہیں سنا گیا۔واضح ہو کہ ہندو تنظیموں نے گزشتہ 10 ستمبر کو میونسپل کارپوریشن کے باہر اور 13 ستمبر کو شہر میں مظاہرہ کر کے جیل روڈ میں واقع مسجد میں غیر قانونی تعمیر کا الزام لگاتے ہوئے اس کے حصہ کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔20 ستمبر کو میونسپل کارپوریشن نے مسجد کا بجلیـپانی کا کنکشن کاٹ دیا تھا۔ منڈی میونسپل کمشنر کورٹ نے اس کے لیے مسجد انتظامیہ کمیٹی کو ایک مہینہ کا وقت دیا تھا جبکہ فیصلے کی کاپی 17 ستمبر کو مسجد کمیٹی کو دی گئی تھی۔10 اکتوبر کو پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی نے کمشنر کورٹ منڈی کے فیصلہ پر روک لگانے کا حکم دیتے ہوئے اگلے 10 دنوں میں معاملے کی سماعت کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس سے پہلے اہل اسلام مسلم ویلفیئر کمیٹی کے ساتھ میونسپل کارپوریشن کو اپنا موقف پیش کرنا پڑے گا۔ کمشنر منڈی میونسپل کارپوریشن ایچ ایس رانا نے فیصلے پر روک لگانے کا حکم ملنے کی جانکاری دی ہے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف تعصب اور ناروا سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔جب سے بی جے پی اقتدارمیں آئی ہے تب سے بھارتی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے بابری مسجد اور پھر کشمیر پر قبضہ کیا اس کے علاوہ بھی بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں انتہا پسندی کے خلاف مسلمانوں کی آواز کو دبانے کے لیے مودی حکومت نے نئے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھر گرانا شروع کردیئے ہیں،اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جس میں ہندو انتہا پسند پولیس کی نگرانی میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کی مدد سے مسمار کررہے ہیں۔مودی سرکار نے بھارتی مسلمانوں کو زک پہنچانے کیلئے ایک اور نیا کام شروع کیا ہے کہ مسلمانوں کی املاک کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ دو ماہ قبل دہلی میں ہوئے مسلمان ہندو لڑائی جھگڑے کو بنیاد بنا کر دہلی میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں (جھگڑا دونوں جانب سے شروع ہوا لیکن نشانہ صرف مسلمانوں کی املاک کو بنایا گیا ہے جس پر دہلی ہائی کورٹ میں کیس بھی چل رہا ہے)۔ بلڈوزر کے نام پر سیاست بھارت کے ایک بڑے طبقے میں مقبول نظر آتی ہے۔ بی جے پی نے اسے مافیا کے خلاف کارروائی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس نے چند ہندو عقیدے کے مجرموں کے مکانات اور املاک کو مسمار کیا ہے لیکن غیر متناسب طور پر متاثرین کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔کم از کم اتر پردیش میں، جہاں اس سال کی شروعات میں ریاستی انتخابات ہوئے تھے، ووٹروں نے بی جے پی کو فتح یاب کر کے اس طرح کی سیاست کا صلہ دیا۔ ان انتخابات میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خود کو بلڈوزر بابا کہا اور چند ریلیوں میں بلڈوزروں کی نمائش بھی کی۔ اس کے علاوہ اتر پردیش اور جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں موجود ہیں وہاں یہ عمل کیا جا رہا ہے تا کہ صدیوں کی غلامی کا بدلہ آج کے مسلمانوں سے لیا جا سکے۔ پھر لو جہاد اور مدارس کو بند کرنے کی حرکتیں بھی مودی کی منظم ہندوتوا مہم کا حصہ ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں مسلمانوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ گائے کے تحفظ اور ‘لو جہاد’ کے نام پر تشدد کے واقعات بارہا رونما ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو مسلمانوں کے کھانے کے انتخاب، معاش اور رشتوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں بہت سے سیاسی رہنماؤں اور وکلا نے ان اقدامات پر تنقید کی ہے لیکن تاحال اس کا کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکلا، کئی افراد اور تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ہے لیکن ان کی درخواستیں سماعت کے منتظر ہیں۔ مودی حکومت کے چند سالوں میں مذہبی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ نیا بھر کے امن پسند ممالک،تنظیمیں اور دانشور اس بات کا بھر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی صرف اس خطے کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تو انتہا پسند جماعتوں پر پاپندی لگا کر امن کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت بر سر اقتدار ہے اور اسی جماعت کے رہنما جنہیں گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ اور جنون وجود اتوار 29 دسمبر 2024
جذبہ اور جنون

مودی کی متعصبانہ پالیسیاں وجود اتوار 29 دسمبر 2024
مودی کی متعصبانہ پالیسیاں

کیا تباہی سے بچنے کے راستے بندہیں؟ وجود اتوار 29 دسمبر 2024
کیا تباہی سے بچنے کے راستے بندہیں؟

دنیا میں اچھا پیغام جائے گا! وجود هفته 28 دسمبر 2024
دنیا میں اچھا پیغام جائے گا!

قائد اعظم کو مقبوضہ وادی میں شاندار خراج عقیدت وجود هفته 28 دسمبر 2024
قائد اعظم کو مقبوضہ وادی میں شاندار خراج عقیدت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر