وجود

... loading ...

وجود

کیا تباہی سے بچنے کے راستے بندہیں؟

اتوار 29 دسمبر 2024 کیا تباہی سے بچنے کے راستے بندہیں؟

رفیق پٹیل

نو منتخب امریکی صدر کے نامزد نمائندے رچرڈگرینیل کے ٹوئٹس پر بعض پاکستانی وزراء اور دیگر بعض دیگر عہدیداروں کی جانب سے ردّعمل کے جوابات سے پاکستان میں ایک بھونچال پیدا ہو چکا ہے ،خطرہ ہے کہ معاملہ بڑھ جائے گا اور امریکی انتظامیہ ایسے اقدامات پر عمل درآمد کر سکتی ہے جو پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی پابندیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے بعض اہم لوگوں نے رچرڈ گرینیل کو براہ راست جواب دے کر ایک قومی نقصان کی راہ ہموار کردی ہے، وجہ یہ ہے کہ اب وہ ہر امریکی امدادکے اخراجات کی تفصیل معلوم کرنا چاہتا ہے ۔اگر ابتدا سے ہی اس مسئلے پر خاموشی اختیا ر کی جا تی تو صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی رچرڈ گرینیل کے سلسلے میں جس قدر گفتگو کی جائے گی مسئلہ اس قدر الجھتا چلاجائے گا اور آنے ولی امریکی حکومت کو ماضی کی تمام کارروائیوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور تحقیقات کا بھی جواز مل جائے گا۔ پہلے ہی موجودہ حکومت نے عمران خان کو جیل میں رکھ کر اسے بے انتہا طاقتور کردیا ہے۔
جیل میں گزرنے والا ہر دن عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ یہی مقبولیت عمران خان کی اصل طاقت ہے موجودہ حکومت عوامی حمایت سے محرومی کے باعث ایسی غلطیاں کر رہی ہے جس کے نتیجے میں حکمراں جماعتوں کا وجود خطرے میں ہے۔ موجودہ سیاسی محاذآرائی سے عدم استحکام میں اضافہ ہوگیا۔
حکمراں جماعت کے خلاف عوام کاغصّہ عروج پرہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت صفر کے قریب پہنچ رہی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ بین الاقوامی مشوروں کو رد کرنے اور ممکنہ تجارتی اور دیگر پابندیوں کے نتیجے میںپیٹرول ایک ہزار روپے لیٹربھی ہوجائے گا تو حکمران جماعت کے اہم عہدیداروں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی اختیار نہیںہے اور طاقتور ادارے کو مورد الزام ٹہرائیں گے۔ ملکوں کی کامیابی کے فارمولے کی مختصر ترین تعریف ”اچھی حکمرانی” ہے اور اس کا بنیادی جزمنصفانہ ،غیر جانبدارانہ اورشفّاف انتخابات ہیں ۔اس کے بر عکس پاکستان میں موجودہ ناقص حکمرانی کی جڑ انتخابی دھاندلی ہے اس کے ردّعمل میں پاکستان کے عوام میں ایک آتش فشاں سلگ رہا تھا جو 26 نومبر کو پھٹا اور دنیا بھر سے پاکستان دبائو شروع ہوگیا ۔مزید خرابی فوجی عدالتوں کی سزائوں سے ہوگئی جسے مہذّب دنیادورجہالت سے تعبیر کرتی ہے ان سزاؤں کے بعد مزید دبائو بڑھتا جا رہا ہے جب تک فروری 2024 کے انتخابات میں ہونے والی وسیع پیمانے پر مبنی دھاندلی کی پردہ پوشی کی جائے گی اور اس جھوٹ کی بنیاد پر قائم کردہ مینڈیٹ سے محروم حکومت کے ذریعے سارانظام چلانے کی کوشش کی جائیگی پاکستان میں عدم استحکام، معا شی بحران کا خاتمہ ناممکن ہوگا۔ اس صورت حال کو برقرار رکھنے کے نتیجے میں ملک زوال اور تباہی کی جانب گامزن رہے گا۔ اس نقصان اور تباہی سے بچنے کے لیے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ اس بحران کا سدّباب کیا جائے جس قدر زورموجودہ ناقص حکمرنی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جائے گا ،اس کے منفی نتائج حکمراں طبقے کے لیے بھی شدید نقصان کا باعث ہونگے۔ مسلسل عدم استحکام سے غیر محسوس انداز میں رفتہ رفتہ ملک بتدریج کئی سو سال پیچھے جاسکتاہے ۔محض اقتدار کی خاطر ملکی سالمیت کودائو پر لگا دینا قطعی داشمندی نہیں ہے ۔دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی عوام کی مدد اور تعاون کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی اور نہ ہی اندرونی خلفشاراور انتشار کو روک سکتی ہے۔ سیاسی کارکنوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف طاقت کے بلاجواز اور غیرقانونی استعمال سے عوام میں نفرت ،بغاوت اور انتہاپسندی پروان چڑھتی ہے۔ عوام کا جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد ختم ہوجائے تو تباہی پھیلانے والی عسکریت پسند قوتّیں نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں جو ملک کے دفاع کو بھی خطرے سے دوچار کرسکتی ہے ۔بد قسمتی سے یہ عمل پاکستان میں جاری ہے۔ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا مقابلہ جمہوریت اور وعوامی مینڈیت رکھنے والی حکومت کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ جدید دور میںسیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سرکاری طاقت کے منفی استعمال کے طرز عمل کی پردہ پوشی ممکن نہیںہے۔ پاکستان میں ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کو طاقت سے کچلنے کے مسلسل عمل کا عالمی طاقتیں ،انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا کے نمائندے باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس عمل پر مسلسل تنقید بھی کر رہے ہیں۔
موجود ہ دور میںرائے عامہ کو نظر انداز کرنا تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ انٹرنیٹ نے اطلاعات کی ترسیل کو انتہائی تیز رفتا ر بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو اپنی رائے کی اظہار کا موقع فراہم کردیا ہے ۔سوشل میڈیا کو روکنے کا بہترین طریقہ میڈیا پر پا بندیوں کا خاتمہ ہے ۔جب میڈیا آزاد ہوگا اور لوگوں کی اطلاعات تک رسائی ہوگی تو عوام کسی اور میڈیا کے بجا ئے ٹی وی چینلز کو قابل اعتبار سمجھیں گے۔ جب تک حکمران اس بات کا احساس نہیں کریں گے جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے عوامی حمایت یافتہ منتظمین اور عوامی نمائندوں کا سامنے آنا ضروری ہے۔ عوامی حمایت سے محروم حکومت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تسلسل کے نتیجے میںعالمی مالیاتی اداروںپر بھی جو اثرا ت مرتب ہو ں گے۔ ان کو روکنے کے لیے بھی حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ پاکستان کے حالات میں تبدیلی ممکن نہیں ہے عمران خان کی رہائی کو مسلسل ٹالا جائے گا عالمی دبائو اور اندرونی خلفشار سے ملک کو نکالنے کے لیے حکمران قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہونگے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو اقدامات کیے گئے جس سے ریاست کا ڈھانچہ انتہائی کمزور ہوگیا ہے ۔ریاست کے بنیا دی ستون پہلا ستون مقننہ (قانون ساز ادارے ) مینڈیٹ سے محروم ہیں۔ دوسرا ستون عدلیہ ہے جس کی آزادی حالیہ آئین ترمیم کے ذریعے ختم کردی گئی ہے۔ تیسری انتظامیہ جو احتساب سے بالا تر ہو کر قواعد ضوابط کے خلاف حدود سے آگے بڑھ کر کام کر رہی ہے یعنی ریاست کے تینوں ستون ختم ہورہے ہیں۔ ایک مصنوعی نظام کے ذریعے کیسے ملک کو چلایا جا سکتا ہے ؟ حکمران جب اپنے عہدوںکو ہی ملک سے بالاتصّور کرلیں اور کسی قسم کی قربانی کے لیے تیار نہ ہوں تو تباہی کو کون روک سکتا ہے ۔بیرونی دبائو سے مجبوری میں کچھ معاملات طے کرلیے جاسکتے ہیں لیکن موجودہ ملبے کے ڈھیرکی صفائی کا دائمی حل بڑے پیمانے پر اصلاحات کے ذریعے عوام کی خوشحالی اور انہیں بااختیا بنانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب وجود اتوار 20 اپریل 2025
تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب

مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر