... loading ...
جاوید محمود
منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف 20جنوری کو اٹھائیں گے۔ ان کی جانب سے خصوصی مشنز کے لیے رچرڈ گرینل کا انتخاب پاکستان کی سیاست اور میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ امریکی سفارت کا رچرڈ گرینل سوشل میڈیا پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاہم ٹرمپ کی جانب سے انہیں اپنی انتظامیہ کا حصہ بنانے کے اعلان کے بعد پاکستان میں اُن کے نام کی گونج ہے۔ گزشتہ ماہ 26 نومبر کو پاکستان کا سیاسی ماحول اس وقت کشیدہ ہو گیا تھا جب عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے کریک ڈاؤن کیا تھا ۔اس موقع پر بھی رچرڈ گرینل نے ایکس پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا تاہم ان کی اس پوسٹ کو اس وقت زیادہ توجہ نہیں ملی تھی۔ تاہم 15دسمبر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ان کا بطور ایلچی انتخاب کیا تو پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹ اور کارکنوں کی جانب سے اس پوسٹ کو بڑھاوا دیا گیا۔ پاکستان چینل جیو نیوز نے جس پر اس کے ناقدین حکومت نواز ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ رچرڈ گرینل کے انتخاب کی خبر اس ہیڈ لائن کے ساتھ نشر کی کہ ٹرمپ نے ہم جنس رچرڈ گرینل کو اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔ اس کے رد عمل میں رچرڈ گرینل نے ایکس پر لکھا کہ میں دوبارہ کہوں گا کہ عمران خان کو آزاد کرو۔
گرینل نے اپنی اگلی پوسٹ میں یہ بھی کہا کہ ان کی پچھلی پوسٹ کو ایک کروڑ ویوزملے ہیں۔ رچرڈ گرینل کئی اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ وہ جرمنی میں امریکہ کے سفیر رہنے کے علاوہ سربیا اورکوسوو میں صدارتی ایلچی کے طور پر اس مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں۔ وہ پہلے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران 2017سے 2021تک قائم مقام ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس بھی رہ چکے ہیں۔ عمران خان کے حق میں ان کا ایکس پر بیانات کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں قیاس آرائیاں کا سلسلہ جاری ہے ۔ماہرین کہتے ہیں کہ ان بیانات کا نئی امریکی انتظامیہ اور پاکستان کے رابطوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ رچرڈ گرینل کا عمران خان کے حق میں تازہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکی رکن کانگرس علیسا لوٹکن نے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج اور اور تشدد کا ذکر کیا۔ سلوٹکن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی حکام کو شہریوں کے آزادی اظہار اور پرامن احتجاج کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کرتے ہوئے پاکستان کی جمہوریت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ عمران خان اور بعض آزاد ماہرین کا یہ موقف رہا ہے کہ اگر فروری میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو پی ٹی آئی بھار ی اکثریت سے کامیاب ہوتی ۔انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے امیدواروں اور اہم رہنماؤں کو مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔کئی رہنما اور کارکن اس دوران روپوش ہو گئے تھے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں پارٹی کے انتخابی مہم متاثر ہوئی۔ عمران خان کی حکومت نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انہیں مذاکرات کے نتیجے میں 2021میں افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ہوا تھا ۔ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان کی جانب سے ایکس پر جاری بیان میں اپنی اور پارٹی کی جانب سے انہیں مبارکباد دی گئی تھی عمران خان نے اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام پر مبنی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لیے اچھے ثابت ہوں گے۔ وہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوریت پر زور دیں گے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستان میں عام شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانا بین الاقوامی انسانی حقوق حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی کنونشن برائے سماجی و سیاسی حقوق کے آرٹیکل 14 کی توثیق کی ہے ۔یہ آرٹیکل قانون کے مطابق کسی بھی معاملے میں مجاز آزاد اور غیر جانبدار عدالت میں مقدمے کو یقینی بنانے سے متعلق ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب پاکستانی فوج نے آرمی کی تنصیبات پر حملوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کی منظوری حکومت اور عسکری اداروں پر مشتمل فورم قومی سلامتی کمیٹی نے بھی دے دی ہے ۔ایمینسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی فوج میں قائم عدالتی نظام کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس ملک کی آزاد عدالتیں نہیں ہیں جبکہ ملٹری کورٹس فوج میں نظم و ضبط میں مہارت رکھتی ہیں اور ان کا نظام اور قائم کرنے کا طریقہ بھی اسی کے مطابق میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی معلومات جمع کی ہیں جن سے پاکستان کے ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے خلاف چلائے گئے۔ مقدمات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی ہوتی ہے جن میں عدالتی نظام کی واضح خلاف ورزی کاروائی میں شفافیت کا نہ ہونا جبری طور پر اعتراف جرم اور بقول ایمنسٹی کے غیر منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد موت کی سزائیں شامل ہیں ۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 25 افراد کو فوجی عدالتوں کی جانب سے سزا سنائے جانے پر امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل میں شفافیت کا فقدان ہوتا ہے۔ برطانیہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق برطانوی حکومت ملک میں ہونے والی قانونی کارروائیوں پر پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتی ہے ۔تاہم فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل میں شفافیت اور آزاد انہ جانچ پڑتال کا فقدان ہوتا ہے ۔فوجی عدالتوں میں کارروائی سے منصفانہ ٹرائل کے حق کو نقصان پہنچتا ہے ۔ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عدالتی آزادی اور شفافیت کی ضمانت کا فقدان ہوتا ہے، امریکہ پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتا ہے پاکستان کے آئین میں درج منصفانہ ٹرائل کے حق کا احترام کیا جائے۔ اس سے قبل یورپی یونین کی جانب سے پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے کورٹ مارشل پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ یورپی یونین کا کہنا تھا کہ یہ اقدام منصفانہ ٹرائل کے اصولوں کے منافی ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے آئی سی سی پی آر کا دستخط کنندہ ہے اور فوجی عدالتوں کے فیصلے اس معاہدے کے تحت پاکستان پر لاگو ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کے داخلی معاملات پر امریکہ سمیت دیگر ممالک کی جانب سے مداخلت کرنا کوئی صحت مند بات نہیں اور اس حوالے سے سب سے زیادہ گونج امریکہ میں سنائی دے رہی ہے۔ امریکہ میں تجزیہ نگار اور مبصرین کا خیال ہے کہ 20جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد اس گونج میں عالمی سطح پر مزید اضافہ ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت پاکستان اپوزیشن سے بات چیت کر کے اس داخلی معاملے کا کوئی حل نکالے ۔یقینا اس سے دنیا میں اچھا پیغام جائے گا۔