... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں مودی سرکار کے خلاف کسانوں کا احتجاج ریل رکو تحریک میں تبدیل ہوگیا۔ نام نہاد جمہوریت کی علمبردار نریندر مودی سرکار اپنے ہی کسان طبقے کو کچلنے میں مصروف ہے۔ بھارتی ریاستوں ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کی اپنے حقوق کے لیے جاری جدوجہد میں دوبارہ شدت آگئی ہے۔کسان یونین اور حکومت کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد دہلی چلو تحریک اب ریل روکو تحریک میں تبدیل ہوگئی۔پنجاب میں 74 مختلف مقامات پر کسانوں نے ریل روکو احتجاج کیا۔ 3 گھنٹے جاری رہنے والے احتجاج سے پنجاب میں 3 ٹرینیں منسوخ اور 39 ٹرینوں کے شیڈول تبدیل کرنا پڑے۔
کسانوں نے فیروز پور اور امبالہ ڈویژن میں پٹریوں پر بیٹھ کر ٹرینوں کی آمدورفت روکی۔شنبھو اسٹیشن پر احتجاج کی وجہ سے ہریانہ سے آنے والی ٹرینوں کی سروس متاثرہوئی۔ یکم فروری سے لے کر اب تک شنبھو اور خانوری بارڈرز پر 30 سے زائد کسان مختلف وجوہات کی بنا پر جاں بحق ہوچکے ہیں۔ احتجاجی مقام پر 2 کسان خود کشی کر چکے ہیں جبکہ پولیس کی شیلنگ اور کسان مظاہرین پر اندھا دھند لاٹھی چارج سے متعدد کسان شدید زخمی ہوئے۔کسان یونینز نے خود کشی کرنے والے رنجود سنگھ کے خاندان کو 25 لاکھ روپے کی امداد، ملازمت اور قرض معافی کا مطالبہ کیا ہے۔کسانوں نے مطالبات پورے نہ ہونے پر30 دسمبر کو پنجاب بند کرنے کا اعلان کیا ہے ، دہلی چلو مارچ اور ریل روکو تحریک کسانوں کی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں ، مودی حکومت کسانوں کی تحریک دباکر اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
بھارت میںکسان یونینز اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی دہلی چلو تحریک 6 دسمبر سے دوبارہ شروع ہوئی تھی، “دہلی چلو مارچ” کسان مزدور مورچہ اور کسان یکجہتی مورچہ کے زیر اہتمام ہو رہا تھا۔ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مزاحمت کے بعد کسانوں نے ٹریکٹر کی بجائے چھوٹے جتھوں میں دہلی پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔ کسانوں کے “دہلی چلو” مارچ کے پیش نظر دارالحکومت کی سرحدوں اور اس سے متصل پورے علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔
بھارت میں کسانوں کے ‘دہلی چلو’ مارچ پر پولیس ٹوٹ پڑی۔ جھڑپوں میں 8 کسان زخمی ہوگئے جبکہ آنسو گیس کے استعمال سے کئی کسانوں کی حالت خراب ہوگئی۔ پولیس نے کسانوں کو دہلی سے 2 سو کلو میٹر دور پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر شمبھو کے مقام پر روکنے کی کوشش کی جس کے باعث ہائی وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔کسان رہنما سرون سنگھ پانڈھر کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کسانوں کے جائز مطالبات کو نظرانداز کر رہی ہے حالانکہ کسان گزشتہ 10 مہینوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، ہم نے احتجاج دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ہریانہ پولیس کو آگاہ کیا کہ ہمارا مارچ پرامن ہوگا۔ وزیر مملکت برائے ریلوے روینت سنگھ بٹّو اور ہریانہ کے وزیر زراعت نے کسانوں کو دہلی پیدل جانے کا اشارہ دیا، وقت آگیا ہے حکومت وعدوں کو پورا کرے، اگر دہلی جانے کی اجازت نہ ملی تو تصادم ہوگا۔ کسان اپنے مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات میں ایم ایس پی پر قانونی گرینٹی، بجلی کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں،کسانوں کے قرض معاف کرنا، کسانون اور دیگر ملازمین کیلئے معاوضہ اور لکھیم پوری تشدد کے متاثرین کیلئے انصاف شامل ہیں۔ کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر شمبھو سرحد پر سیکوریٹی سخت کی گئی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ہم پریشان ہیں، انتہائی پریشان ہیں، ہمارے بچے بھوک سے مر جائیں گے، اس سے بڑی پریشانی اور کیا ہوسکتی ہے۔ نئی زرعی اصلاحات کے تحت بڑی بڑی کارپوریشنز قیمتیں کم کردیں گی اور ان کا روزگار تباہ ہوجائے گا۔متعارف کروائے گئے قوانین کے تحت کسانوں کو اپنی فصل کم سے کم قیمت کی ضمانت دینے والی سرکاری تنظیموں کے بجائے اوپن مارکٹ بشمول سپرمارکیٹ چینز میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے گی۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی صنعت کو بڑی کمپنیاں قبضے میں لے لیں گی جو قیمتوں کو کم کرنے پر مجبور کریں گی۔سونی پت زرعی مارکیٹ تاجروں کی ایسوسی ایشن کے صدر پاون گوئل کے مطابق حکومت کچھ کمپنیوں خواہ وہ بھارتی ہوں ہو یا غیر ملکی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسانوں کو گمراہ کررہی ہے۔ اگر یہ قانون مستقبل میں جاری رہتا ہے تو کسان، مزدوروں تک محدود ہوجائیں گے اور صرف بڑی کمپنیوں کے ورکرز بن جائیں گے۔تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ یہ تبدیلیاں زراعت کے لیے ضروری ہیں جو اب تک بھارت کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔کسانوں کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ ان کی پیداوار کی کم از کم قیمت خرید کا جو سابقہ نظام تھا اسے برقرار رکھا جائے۔ کسان حکومت کی طرف سے ہر طرح کی یقین دہانی تحریری شکل میں دینے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔
ہندوستانی کسانوں کی اس تاریخ ساز تحریک کا شمار دْنیا کی سب سے بڑی انقلابی تحریکوں میں ہوتا ہے۔ متحدہ کسان مورچہ بارے بات کرتے ہوئے کامریڈ اشوک دھاولے جی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی کسانوں کی یہ تحریک کوئی آسمان سے نہیں اْتری تھی ،بلکہ 2014 میں نریندر مودی نے اپنی سرکار بننے سے لے کر کسانوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے، مزدوروں کو نشانہ بنایا ہوا ہے، اور نوجوانوں، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ اْنہوں نے جو اشرافیہ نواز سرمایہ دارانہ پالیسیاں بنائیں، ان کی وجہ سے محنت کشوں کے اوپر متواتر حملے ہو رہے ہیں۔