... loading ...
جاوید محمود
گزشتہ تین سال سے پاکستان جس بحران میں گھرا ہوا ہے، عالمی سطح پر اس پر تبصرے بھی جاری ہیں اور مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان بھاری اکثریت سے یہ انتخاب جیت چکے تھے اور حکومت کرنا ان کا بنیادی حق تھا لیکن موجودہ حکومت نے طرح طرح کے حربے استعمال کر کے انہیں حکومت کرنے سے محروم کر دیا۔ اس کے رد عمل میں پاکستان میں عمران خان کی حمایت میں احتجاج جاری ہے۔ حکومت کی پشت پہ ادارے کھڑے ہیں اور اس صورتحال کا فائدہ پاکستان دشمن بھی اٹھا رہے ہیں۔ اس دوران دنیا بھر میں عمران خان کی حمایت میں مطالبہ کیا گیا کہ عمران خان کو رہا کیا جائے۔ ان کے خلاف جو بے بنیاد مقدمات قائم کیے گئے ہیں انہیں ختم کیا جائے۔ ہیومن رائٹس انٹرنیشنل نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ ورکنگ کمیٹی امریکہ میں سینیٹ کی کمیٹی، کینیڈا پارلیمنٹ کے ممبران نے آسٹریلیا ،اسکاٹ لینڈ برطانیہ سوئٹزرلینڈ کے علاوہ دیگر ممالک نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان کی رہائی کے لیے سب سے زیادہ آواز امریکہ سے اٹھ رہی ہے اور اب واضح اشارے مل رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد ہی حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دینا ہے۔
آخر حکومت پاکستان کب یہ احساس کرے گی کہ ان تین سالوں کے دوران ملک ہیجان کا شکار ہے اور ملک کو معاشی طور پر بری طرح نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے عمران خان کے خلاف 200سے زیادہ بے بنیاد مقدمات قائم کیے۔ اس کے باوجود بھی عمران خان کی مقبولیت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ درجنوں سروے رپورٹس کے مطابق عمران خان کی مقبولیت سب 70فیصد سے زیادہ ہے ۔بالخصوص 26نومبر کے ڈی چوک کے واقعات کے بعد جن میں درجنوں پی ٹی آئی کے کارکنان مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے اس کے باوجود عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ موجود ہے۔ حکومت اقتدار کی ہوس میں اس حد تک اندھی ہو چکی ہے کہ اس کو اس کا احساس بھی نہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر بدنام ہو رہا ہے اور معاشی طور پر ہر انے والے دن تنزلی کی جانب جا رہا ہے۔ کیا حکومت نے تاریخ کے واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔16 دسمبر ایک ایسا دن ہے جو اپنے دامن میں ظلم و ستم، سازش اور درندگی اور سفاکی کی ایسی تاریخ لیے ہوئے ہے جس کی نظیر دنیا میں ملنا شاید ممکن نہیں ۔یہ دن پاکستانیوں کے خرمن پر دو مرتبہ بجلیاں گرا چکا ہے۔ پہلی دفعہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں اور دوسری مرتبہ 2014میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم شہیدوں کی صورت میں ملک الگ ہو گیا لیکن افسوس کہ ابھی تک قوم کے سامنے اصل حقائق نہیں لائے گئے یا شاید دانستہ نہیں لائے جا رہے۔ حکومتی سطح پر اس دن کے حوالے سے عموما خاموشی پائی جاتی ہے ۔البتہ کچھ عناصر اس دن بہت متحرک ہوتے ہیں اور سرعام بڑھ چڑھ کر پاکستان اور افواج پاکستان کومورد الزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جنگ سے پہلے بھارتی انٹیلی جنس نے مکتی باہنی کو تشکیل دیا۔ اسے بھارتی سرزمین پر پاکستان کے خلاف لڑنے کی تربیت دی اور اسے اسلحہ اور سرمایہ فراہم کیا تا کہ مشرقی پاکستان میں افرا تفری پیدا کی جا سکے۔ را چیف ار این کاؤ نے اپنے ذرائع سے پاکستان سے معلومات اکٹھی کی اور باقاعدہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ایک الگ میٹنگ میں مشرقی و مغربی پاکستان کی اندرونی سیاسی وعسکری صورتحال پر ایک بریفنگ دی اور اسی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ را چیف ایک بلو پرنٹ تیار کرے گا جس کے تحت مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے خلاف بغاوت کروائی جائے گی اور اندرا گاندھی نے باقاعدہ ایک منصوبہ ترتیب دیا کہ کس طرح مشرقی پاکستان کو متحدہ پاکستان سے الگ کروایا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب پاکستان کے حامیوں کوانفرادی اور اجتماعی طور پر تشدد اور قتال کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔16 دسمبر کو جنگ کے ختم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد گوریلا بلوائیوں نے 12بہاریوں کوبس سے اتار کر موقع پر ہی قتل کر دیا ۔ 16دسمبر کے بعد پاکستان کے حامی قیدیوں کو میدان میں گھٹنوں کے بل گھسیٹتے ہوئے لایا گیا۔ ان پر آخری دم تک تشدد کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ تشدد کی تاب نہ لا کر مارے گئے۔ ڈھاکہ کے میدان میں پاکستان پرست نوجوانوں کو تشدد سے مار دیا گیا ۔جنگ 71کی تاریخ نویسی پر جانبداری کی وجہ سے بھارت کی مداخلت پر پردہ ڈالنا ہے۔ کلکتہ میں بھارت کی جانب سے بنگالی گوریلا بلوائیوں کو پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے مالی مسلح اور ہدایتی تعاون دیا جاتا رہا ۔شرمیلا بوس یونیورسٹی آف آکسفورڈ نے جنگ 71پر بھارتی بنگلہ دیشی وضاحتی غلبے میں تحقیق کرنے کے باوجود یہ حقیقت پائی کے ہمیں جنگ 71پر حقیقت کے برخلاف کہانی سنائی جاتی ہے۔ جنگ پر جو کہانی سنائی جاتی ہے وہ زمینی حقیقت سے کافی مختلف ہے ۔جنگ پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ بہت جانبداری اور منفی طور پر رقم کیا گیا ہے۔ میں نے 71کی تاریخ پر وہی لکھا جو مجھے سچ لگا تھا اور جو میری قوت استدلال نے قبول کیا ۔جنرل شنکر سابق بھارتی آرمی چیف مجھے مکتی باہنی کی ٹریننگ نقل وحمل امداد اور سامان حرب کی فراہمی سے متعلق بھارتی فوج کی مکتی باہنی کے ساتھ تعاون پر تحفظات لاحق تھے ۔ہم نے مکتی باہنی کی پشت پناہی کرنے کا نہ تو بھارتی عوام کو بتایا اور نہ ہی کبھی اس کا اعتراف کیا تھا لیکن پاکستان حق بجانب دعویٰ کرتا تھا کہ ہم بھارت بنگلہ دیش میں دراندازی کر رہے ہیں۔ غلام اعظم، عبدالقادر ملا، قمر الزمان، اسلام عبد سبحان، مطیع الرحمن نظامی، علی احسن محمد اور صلاح الدین قادی جیسے عظیم لوگ جو بنگالی ہونے کے باوجود بھی پاکستانی تھے ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور پاکستان کی حمایت میں ڈٹے رہے اور گرفتار کر لیے گئے۔ جب بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے ان لوگوں کو بار بار کہا گیا کہ آپ لوگ پاکستان کی حمایت کرنے پر اگر آج بھی معافی مانگ لیں تو اپ کی جان بخش دی جائے گی۔ لیکن عبدالقادرملا ،قمرالزمان، علی احسن محمد اور صلاح الدین قادر 44سالوں کے بعد بھی پاکستان کی حمایت کرنے پر بھارت نواز بنگلہ دیشی حکومت کے آگے نہیں جھکے بلکہ تختہ دار پر جھول جانے کو فوقیت دی اور امر ہو گئے۔ بھارت نے پاکستان کے اندرونی سیاسی خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف وردی کرتے ہوئے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کی اور اپنے دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی کی مددسے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد شیخ مجیب الرحمان کو قتل کرنے والے بھی بنگالی تھے جنہیں احساس ہو گیا تھا کہ ان سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ پاکستان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے پاکستان کے خلاف بنگلہ دیشی لبریشن وار انر ایوارڈ تشکیل دیا ۔چند سال پہلے کچھ نام نہاد پاکستانیوں کو اسی ایوارڈ سے نوازا گیا اور بعد مودی کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا جو انہوں نے سابق ہندوستانی وزیراعظم واچپائی کی جگہ وصول کیا تھا۔ ایوارڈ ملتے ہی مودی نے ان تمام باتوں کا سرعام اعتراف کر لیا جس کا آج تک ہندوستان انکار کرتا چلا آیا تھا۔ پہلا اعتراف بنگلہ دیش کا قیام پر ہندوستانی کی خواہش تھی اور اس میں ہندوستانی شہریوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ دوسرا اعتراف 1971میں ہندوستانیوں نے بھی کندھے سے کندھا ملا کر بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے جدوجہد کی تھی۔ تیسرا اعتراف 1971میں جب ہندوستان نے بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک چلائی تو مودی خود بھی ایک رضاکار کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے تھے اور ہندوستان دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی کا ساتھ دیا تھا۔ ان تمام دستاویز ثبوتوں کی روشنی میں پاکستان کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنا نصاب درست کرے اور حکومتی سطح پر کھل کر ان تمام حقائق کو عام کرے تاکہ پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف ملک کے اندر سے آنے والی چند پھسپھسی آوازیں بند ہوں اور ساتھ ساتھ عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ سے ان تمام ثبوتوں کے ساتھ رجوع کرے تاکہ عالمی سطح پر بھی ریکارڈ درست کیا جا سکے اور ساری دنیا کے سامنے پاکستان کی خلاف بھارتی سازش اور دہشت گردی بے نقاب ہو سکے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت اپنے مکر و ہ عزائم کے ساتھ پاکستان کے خلاف سازش کرتا رہتا ہے۔ آج بلوچستان خیبرپختونخوا کے علاوہ ملک کے مختلف خطوں میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس میں بھارت کا ہاتھ واضح نظر آتا ہے ۔
پاکستان جس جس سیاسی انتشار کی زد میں ہے اس کا حل حکومت پاکستان کو فوری طور پر نکالنا چاہیے تاکہ صورتحال مزید گمبھیر نہ ہوں۔ حکومت پاکستان اس حقیقت سے واقف ہے کہ عمران خان اس وقت سب سے مقبول پاکستان کا لیڈر ہے۔ انتخابات میں بھاری اکثریت لینے کے بعد حکومت کرنا اس کا بنیادی حق ہے اور دنیا بھر میں آباد پاکستانی اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں ۔اس کے باوجود حکومت پاکستان بضد ہے کہ وہ حکومت پر قابض رہنا چاہتی ہے کیا ان حکمرانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟