وجود

... loading ...

وجود

مذاکرات ناکام یا کامیاب؟

منگل 24 دسمبر 2024 مذاکرات ناکام یا کامیاب؟

رفیق پٹیل

حکومت کے سخت موقّف اور اتحادی جماعتوں کے اندرونی اختالافات کی وجہ سے پی ٹی آئی اور حکومت میں مذاکرات ناکام ہونے کا واضح امکان ہے، عالمی دبائو کو بھی حکومت رد کردے گی، شاید سفری پابندیوں کو بھی نہیں مانے گی۔ نتیجتاً پاکستان پر دبا ئوبڑھتا رہے گا۔ بحران میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والی اس طرح کی کیفیت کو وکی پیڈ یا نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ”ملکوں کے بحران اور تباہی کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی ریا ست کے ادارے ہر شہری کے حقوق اور مفادات کا خیال نہیں رکھتے صرف استحصال کرنے والی اشرافیہ کاتحفّظ کرتے ہیں تو معاشی ترقّی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوتا”۔ پاکستان بھی اسی بحران کی سمت گامزن ہے۔ عوام طاقتور ہوں تووہ ہر جنگ اور تباہی کا مقابلہ کرکے دوبارہ ملک کی تعمیر کرسکتے ہیں ۔جاپان کی مثال سامنے ہے ۔ایٹمی حملوں میں تباہ ہونے کے باوجودجاپان نے اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفّظ کا خیال رکھا اپنے اداروں کی شفافیت اور عوام کی مدد سے دنیا کی معاشی طاقت بن گیا لیکن اگرکسی ملک کے ادارے تباہ ہوجائیں تودنیا کی تمام فوجیں بھی مل کر اسے بچا نہیں سکتیں۔ ہم نے دھاندلی کے ذریعے انتخابی نظا م تباہ کر دیا۔ عدلیہ کو انتظامیہ کے زیر اثر کردیا انتظامیہ سے احتساب ختم کردیا یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے ان تما م اقدامات پر تنقید ہورہی ہے لیکن حکمران مسلسل منفی طرز عمل سے اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور عدم استحکام کو طول دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ معاملہ امریکی پیغامات تک جا پہنچا ہے حکمرانوں کا اس سلسلے میں رویّہ خودکشی نہیں تو اور کیا ہے۔ اب نیا مسئلہ فوجی عدالتوں سے سزائوں کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ مہذب دنیا فوجی عدالتوں کے ذریعے غیر مسلح شہریوں کے خلاف کارروائیوں کو ناپسندیدہ قرار دے سکتی ہے۔ اگرمغربی دنیا اور دیگر جمہوری ملک فوجی عدالت کی سزائوں پر تنقیدی ردّعمل دیں گے تو اس کا دفاع مشکل ہوگا فیصلہ سازدانشمندانہ اقدامات کرتے تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے ،نہ ہی امریکی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوتا ،حکومت سارابوجھ دفاعی ادارے پر ڈال کر پیچھے کھڑی ہوگئی ہے۔
ا مریکا سے آنے والے پیغا مات خصوصاًامریکا کے سابق قائم مقام ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس ا ور امریکی نو منتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی نمائند ے رچرڈ گرینیل کے عمران خان کو رہا کرنے کے بارے میں بار بار تسلسل سے دیے گئے ٹوئٹس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پاکستان کی موجودہ حکومت کے وجود کو برقرار رکھنا مشکل نظر آتا ہے ،کسی بھی ملک میں عوامی مینڈیٹ سے محروم حکمران اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ایسے منفی اقدامات کرتے ہیں جو ملک کو کمزور کرتے ہیں اور اچانک ہی کوئی واقعہ ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بھی حالات اسی جانب گامزن ہیں۔ پہلے مرحلے میں رچرڈ گرینیل کے ٹوئٹس کا مذاق اڑایا گیا بعد ازاں اس پر تنقید کی گئی اب ایسی خاموشی طاری ہے، جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ حکمراں جماعت کے عہدیدار اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ اس وقت دنیا بھر کی حکومتوں کے اعلیٰ سول اور فوجی عہدیداروں ،سرمایہ کاروں اور بڑی کارپوریشنوں کے کرتا دھڑتا کی رچرڈ گرینیل کے ان ٹوئٹس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں، یہ ایک فطری عمل ہے کہ وہ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ امریکا کی نئی حکومت کی کیا پالیسی ہوگی، اس طرح بانی پی ٹی آئی کا موقف دنیا بھر کے طاقتور حلقوں تک پہنچ گیا ۔اس کی ابتدا 26 نومبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کو طاقت سے کچلنے کے عمل کے نتائج سے ہوئی تھی جب دنیا بھر کے میڈیا نے پاکستانی سیکورٹی اداروں کی جانب سے طاقت کے استعمال پرتنقید کی تھی حکمرانوں کے گرد ایسے معاونین جمع ہوجاتے ہیںجو اپنے سے بڑے عہدے پر فائز عہدیدار کی تعریف کرنے کو ہی اپنا مفاد تصّور کرکے انہیں حقائق سے بے خبر رکھتے ہیں۔ ناقص حکمرانی کا یہ سلسلہ دنیا بھر میں ناکام حکومتوں میں پایا جاتا ہے ۔عام طور سے دنیا بھر میں حکمرانوں کے گرد چاپلوس اور ہر وقت تعریف کرنے والے جمع ہوجاتے ہیں او ر تلخ حقائق کو سامنے لانے والوں کو حکمرانوں کے قریب نہیں آنے دیتے اور سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک مزید کمزور ہوجاتا ہے۔ ایسے حکمراں خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ مشیر جس طرح حکمرانوں کو مشورہ دیتے ہیں اس کے بارے مشہور شاعر حبیب جالب نے کہا تھا ۔
چین ہے سماج میں
بے مثا ل فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
بولتے جو چند ہیں
وہ تو شر پسند ہیں
اس کی کھینچ لے زباں
اس کا گھو نٹ دے گلا
ناقص حکمرانی اور سیاسی عدم استحکام کی یہ مثال پاکستان پر صادق آتی ہے سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکا م کو جنم دے رہا ہے کسی بھی ملک کا دفاع اسی صورت میں مضبوط ہوتا ہے جب سیاسی اورمعاشی استحکام ہو عوام خوشحال ہوںعوام کے حقوق کو تحفّظ حاصل ہو جیسا کہ مغربی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ابتدائی طور پر سیاسی استحکام اور امن و امان لازم و ملزوم ہیں ترقی اور خوشحالی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے جوملک کے فیصلہ ساز آسانی سے کر سکتے ہیں عوام کے کلیدی کردار بغیر تما م طریقہ کار بے نتیجہ رہتے ہیں ۔دنیا میں کوئی بھی حکومت عوام کی حمایت کے بغیر اپنے دفاع کو مضبوط نہیں بنا سکتی ہے۔ حکومت کی عوامی حمایت مسلسل کمزور ہورہی ہے۔ اس کے ملکی دفاع پر بھی منفی اثرات ہورہے ہیں ۔اس کا فوری سدّباب ضروری ہے۔ حکمراں جماعت ہر قسم کی ذمّہ داری سے بچنا چاہتی ہے۔ حکمراں مسلم لیگ کے رہنماجب علی ا لاعلان یہ کہہ رہے ہوں کہ ہم حکومت لینا نہیں چاہتے تھے ہم پر حکومت تھوپی گئی ہو، ان کے کارکن نجی محفلوں میں تما م ناکامیوں کے لیے ملک کے اہم ادروں کو ذمّہ دار قرار دیتے ہیں۔خو د وزیراعظم شہباز شریف نے بھی 26نومبر ڈی چوک اسلام آباد کے واقعے کا بوجھ ملک کے دفاعی ادارے کے سربراہ پر ڈال دیا تھا۔ وہ اس طرح کی باریک واردات اپنے مشیروں کے کہنے پر شاید پہلے بھی کر چکے ہیں۔26نومبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلوس کے خلاف آپریشن اور کارروائی کے بارے میں تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ان کے درجنوں کارکن جاں بحق ہوئے تھے۔ دنیا بھر میں اب عمران خان کی رہائی ، پی ٹی آئی کے خلاف تشدّد کے واقعات اور پاکستان میں فروری کے دھاندلی زدہ انتخابات کی تحقیقا ات اور نئے انتخابات کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی ہر صورت میں ان عناصر کو بے نقاب کرنا چاہتی ہے جو گذشتہ تما م غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں ۔بنیادی طور پر ہر گزرنے والا دن پی ٹی آئی کی کامیابی اور حکمراں جماعتوں اور ان کے حواریوں کی ناکامی اور بدنامی کی صورت میں رونما ہو رہا ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان کے حکمران اپنے اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ اسلام آباد ڈی چوک کے سانحے کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے معاملات کسی صورت میں حل نہیں ہونگے۔ عمران خان کی رہائی کے مسئلے پر عالمی دبائو سے صورت حال خراب سے خراب سے خراب ہوتی جائے گی اور نتیجہ بنگلہ دیش جیسی صورت میں رونما نہ ہو تو بہتر ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی جائے اور ان کے تمام رہنمائوں کو گرفتار کرلیا جائے ۔عمران خان تو پھانسی کی سزاسن کر بھی قہقہہ لگائیں گے اور اپنے موقّف پر قائم رہیں گے لیکن موجودہ حکمران دنیا بھر سے کیا لقب حاصل کریں گے اور کس انجام کو پہنچیں گے شاید اس کا انہیں احساس نہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مذاکرات کی بساط وجود منگل 24 دسمبر 2024
مذاکرات کی بساط

مذاکرات ناکام یا کامیاب؟ وجود منگل 24 دسمبر 2024
مذاکرات ناکام یا کامیاب؟

حضرت عیسیٰ نے امن ا ور محبت کا پیغام دیا وجود منگل 24 دسمبر 2024
حضرت عیسیٰ نے امن ا ور محبت کا پیغام دیا

مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ وجود پیر 23 دسمبر 2024
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ

کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی وجود پیر 23 دسمبر 2024
کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر