وجود

... loading ...

وجود

پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟

اتوار 22 دسمبر 2024 پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟

جاوید محمود

امریکی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کی قومی سلامتی کے نائب بشیر جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میں میزائل سسٹم اور ایسے دیگراورہتھیار بنا لیے ہیں، اسے بڑی راکٹ موٹر کے ذریعے تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہ مشکل ہوگا کہ ہم پاکستان کے اقدامات کو امریکہ کے لیے خطرے کی حیثیت سے نہ دیکھیں، مجھ سمیت ہماری انتظامیہ کے سینئر رہنماؤں نے متعدد مرتبہ ان خدشات کا اظہار پاکستان کے سینئر حکام کے سامنے کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے یہ میزائل تیار کر رہا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ ہے کہ بھارت بہت تیزی سے اسلحے کا انبار جمع کر رہا ہے جبکہ اس کے برعکس بڑی طاقتوں کی سہارے اسرائیل نے اپنے آپ کو فوجی اعتبار سے انتہائی مضبوط کر لیا ہے اور اس کا اعتراف اسرائیل کئی مواقع پر کر چکا ہے۔ بڑی طاقتیں اسرائیل کے اقدامات کو نظر انداز کرتی ہیں۔
اسرائیلی دفاعی افواج آئی ڈی ایف کی 2022کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج دنیا کی جدید ترین افواج میں سے ایک ہے اور اس نے ہتھیاروں کی صنعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں اب تک لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدے لینسٹ کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ فلسطینی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین پر عمل کرتی ہے اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتی ہے۔ اسرائیلی جدید ہتھیاروں کے حوالے سے ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق البرق ٹینکوں کو مشہور میرکافہ ٹینک کا پانچواں ورژن کہا جاتا ہے۔ اس ٹینک کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے اندر بیٹھے فوجی اپنے ارد گرد دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور وہ ٹینک میں رہ کر لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ ٹینک اہداف کی نگرانی کے لیے قابل اعتماد سینسر کے وسیع نیٹ ورک سے لیس ہیں ۔اس ٹینک میں 360ڈگری زاویے کی خصوصیات کی وجہ سے اس پر موجود کمانڈر اپنے دائیں بائیں ہونے والی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس ٹینک کی تیاری میں پانچ برس کا عرصہ لگا ۔اسرائیلی فوج کوستمبر 2021میں یہ ٹینک دیے گئے تھے۔ سپانک فائر فلائی ایک قسم کا خودکش ڈرون ہے ۔اس کا وزن تین کلو گرام ہے اور اس میں موجود بارودی مواد کو اس سے الگ کیا جا سکتا ہے، اسے تیار کرنے والی اسرائیلی کمپنی رافیل کے مطابق اسے نظروں سے اوجھل رکھا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈرون دشمن کے ٹھکانوں کے اوپر پرواز کر سکتا ہے لیکن زمین پر موجود فوجی اسے نہیں دیکھ سکتے ۔ایک چھوٹے پورٹل باکس سے باہر نکالنے کے بعد اسٹون کو مطلوبہ جگہ پر پرواز کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہ 30 منٹ تک ہوا میں رہ سکتا ہے اور فوجی دستوں کو 1.5 کلومیٹر کے فاصلے تک صورتحال کا منظر پیش کرتا ہے۔ فوجی اسے ٹیلنٹ کے ذریعے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ یہ معلومات جمع کرتا ہے اور ہدف کا تعین کرنے سے مدد کرتا ہے۔ یہ بیس پر واپس ا سکتا ہے اور 350گرام گولہ بارود سے لیس ہونے کے باعث اہداف پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔ یہ ایک ماڈر شیل ہے جسے لیزر اور جی پی ایس سے ہدایت ملتی ہیں۔ اسے اسرائیلی کمپنی ایلٹ نے تیار کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اسے پہلی بار اکتوبر 2023میں غزہ میں استعمال کیا گیا ۔یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال ہتھیاروں کو اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں زیادہ درست بناتا ہے اور اس سے غیر ضروری تباہی اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے ۔تاہم اقوام متحدہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس اور دیگر تنظیموں نے اسرائیل کی طرف سے جنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں بنیادی خدشات خودمختار ہتھیاروں کے نظام سے متعلق ہیں۔ ایسے نظام جو آپریٹنگ میکنزم کی بنیاد پر خودبخود کام کرتے ہیں۔ مسلح تصادم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال صرف ہتھیاروں اور ان کے آپریٹنگ میکنزم تک ہی محدود نہیں بلکہ اہداف کو جمع کرنے اور ان کی شناخت کے لیے بھی ابتدائی مراحل میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق گوسپل ایک ایسا نظام ہے جو خود کار آلات کے استعمال کی اجازت دیتا ہے تاکہ تیزی سے اہداف کا تعین کیا جا سکے ۔یہ نظام غزہ کی پٹی میں کام کرنے والے اسرائیلی انٹیلی جنس کے مختلف ہتھیاروں کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے حملے کے لیے اہداف تیار کرتا ہے۔ تاہم آئی ڈی ایف کے مطابق نشانہ بنانے کا فیصلہ افسران کے ہاتھ میں ہی رہتا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 24دسمبر 2023کو غزہ کے مرکز میں پناہ گزینوں کے لیے قائم المغازی کیمپ پر اسرائیل کے فضائی حملے میں کم از کم 86 افراد ہلاک ہوئے ۔آئی ڈی ایف جس نے بعد میں اس حملے میں غلط ہتھیاروں کے استعمال کا اعتراف کیا اورکہا کہ اس حملے میں ہونے والے نقصان پر افسوس ہے۔ اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار نے کہا تھا کہ اس حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کی قسم حملے کی نوعیت سے نہیں ملتی تھی جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا اور اس سے بچا جا سکتا تھا ۔اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے طیاروں نے اس علاقے سے ملحقہ دو اہداف کو نشانہ بنایا جہاں حماس کے کارکن موجود تھے ۔لیکن حملوں کے دوران اضافی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے لڑنے والی جنگ میں معصوم شہری مارے جا سکتے ہیں۔ اسرائیل جس تیزی سے جدید اسلحہ بنانے میں مصروف ہے اور جنگی میدان میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے جدید اسلحے کا استعمال کر رہا ہے اس پر مغربی دنیا نے خاموشی کیوں اپنا رکھی ہے جبکہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ حملوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں بڑے پیمانے میں اضافہ ہوا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے میزائلوں سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ اسرائیل کی آنکھوں کا کانٹا ہے۔ اس سے قبل ایران کولانگ رینج میزائل بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اسرائیل اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں! وجود اتوار 22 دسمبر 2024
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں!

عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق وجود اتوار 22 دسمبر 2024
عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق

پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟ وجود اتوار 22 دسمبر 2024
پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟

مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں وجود اتوار 22 دسمبر 2024
مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں

بھارت بنگلہ دیش چپقلش وجود هفته 21 دسمبر 2024
بھارت بنگلہ دیش چپقلش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر