... loading ...
ریاض احمدچودھری
حال ہی میں مسلمان تجارتی اداروں اور ہوٹلوں کا بائیکاٹ، مسلمانوں کو کرائے پر مکان دینے سے انکار، مسلمان گھروں پر بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلانے کے بعد ‘اچھل کود کرنے والے گروپوں کی جانب سے نئے نئے دعوے سامنے آنا شروع ہو گئے، جو ہندو مفادات کی ٹھیکیداری کے دعوے کے ساتھ جگہ جگہ قدیم ہندو مندروں کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے تمام وسطی دور کی مساجد اور درگاہوں پر آثار قدیمہ کے سروے کرانے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔’ دستخط کنندگان کی مضبوط رائے ہے کہ صرف وزیر اعظم وہ واحد شخص ہیں جو ان ‘غیر قانونی، نقصان دہ سرگرمیوں’ کو روک سکتے ہیں! اب اس امید پر کیا کہا جائے؟ یہ خط عبادت گاہ (خصوصی ضابطہ) ایکٹ 1991 کو نافذ کرنے میں حکومت، پولیس اور عدالتوں کی ناکامی پر ایک مایوس کن ردعمل ہے، جس میں اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور جس کے مطابق ہندوستان میں امن، خوشحالی اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے عبادت گاہوں کا کردار ویسا ہی رہنا چاہیے جیسا کہ وہ 15 اگست 1947 کو موجود تھا۔اترکاشی میں ایسی ہی اچھل کود کرنے والے گروپوں کو اس مطالبے پر جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی کہ نجی ملکیت پر بنائی گئی ایک نئی مسجد انہیں ‘مسجد کی طرح نہیں لگتی’ تھی۔ انہوں نے اس بنیاد پر ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ اس میں کوئی گنبد نہیں تھا اور اس زمین کو اس بنیاد پر متنازعہ بنا دیا کہ اس کا استعمال مختلف تھا۔ ریاستی حکومت نے اْتراکھنڈ ہائی کورٹ کو یہ بتانے کے باوجود کہ اس ساخت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے ‘مہاپنچایت’ کی اجازت نہیں دی جائے گی، آخرکار ‘شرائط’ کے ساتھ اجازت دے دی گئی۔ بلا شبہ عدالت کو یہ بتایا جائے گا کہ شرائط پوری کی گئیں اور کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کی گئی۔
بھارت کی ریاست اتر پردیش میں 185 سال پرانی مسجد کا ایک حصہ تجاوزات کے نام پر شہید کر دیا گیا۔سپریم کورٹ نے بلڈوزر چلانے کو ناقابلِ قبول قرار دیا تھا پھر بھی کچھ دنوں بعد فتح پور ضلع میں حکام نے مسجد کا ایک حصہ منہدم کر دیا۔ضلعی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد کا مسمار کیا گیا حصہ غیر قانونی تھا۔پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کا دعویٰ ہے کہ 17 اگست کو مسجد کے کچھ حصوں کو غیر قانونی تعمیر کی وجہ سے ہٹانے کا نوٹس دیا گیا تھا۔ پی ڈبلیو ڈی کے مطابق مسجد کے عہدیداروں کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا جس پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم انہوں نے اس حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔دوسری جانب نوری مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نے پی ڈبلیو ڈی کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔نوری مسجد کی انتظامی کمیٹی کے متولی محمد معین خان نے کہا ہے کہ نوری مسجد 1839ء میں بنائی گئی تھی اور یہاں کی سڑک 1956ء میں بنائی گئی تھی، اس کے باوجود پی ڈبلیو ڈی مسجد کے کچھ حصوں کو غیر قانونی قرار دے رہا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ میں عبادت گاہ (خصوصی ضابطہ) قانون 1991 کے مختلف پہلوؤں کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ یہ قانون کسی عبادت گاہ کی نوعیت تبدیل کرنے یا 15 اگست 1947 کو موجودہ حالت سے مختلف حالت میں تبدیلی کے لیے مقدمہ درج کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔بی جے پی کے رہنما اشونی اپادھیائے نے اس معاملے میں عبادت گاہ قانون کی دفعات 2، 3، اور 4 کو منسوخ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دفعات شہریوں اور مذہبی گروہوں کو عبادت گاہ پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے قانونی حق سے محروم کرتی ہیں۔مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور مہاراشٹر کے ایم ایل اے جتیندر اوہاڈ نے اس قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے۔ ان کے مطابق، یہ قانون ملک کے امن و امان، بھائی چارے، اتحاد اور سیکولرزم کو محفوظ رکھتا ہے۔
جمعیت علماء ہند نے بھی اس قانون کے نفاذ کے لیے ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ دوسری جانب، گیان واپی مسجد انتظامیہ نے عدالت میں مداخلت کی درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہ قانون کے خلاف دائر درخواستیں چالاکی سے مسجد کو نشانہ بنانے کی کوشش ہیں۔یہ قانون 1991 میں کانگریس حکومت کے دور میں پی وی نرسمہا راؤ نے پیش کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق، 15 اگست 1947 سے پہلے موجود عبادت گاہوں کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں ایک سے تین سال تک قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس وقت ایودھیا کیس عدالت میں زیر سماعت تھا، اس لیے اسے اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے سروے کی اجازت دے کر عبادت گاہوں کے تنازعات کو بڑھا دیا ہے۔ دشینت دوے نے کہا کہ اس سے ملک میں مذہبی تنازعات بڑھیں گے اور عدالت کو اس پر روک لگانی چاہیے۔
جب 29 نومبر 2024 کو ایک مقامی عدالت نے راجستھان میں اجمیر شریف درگاہ کے سروے کا حکم دیا، تو دو دن بعد دہلی کے سابق نائب گورنر نجیب جنگ اور سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے 15 دیگر سول سروس افسران کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کو ایک کھلا خط لکھا جس میں ‘اس مخصوص ہم آہنگی والے مقام پر ایک نظریاتی حملے’ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس خط کے دستخط کنندگان میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔خط میں تسلیم کیا گیا کہ بین المذاہب تعلقات ہمیشہ اچھے نہیں رہے ہیں لیکن اس میں کہا گیا کہ ”گزشتہ 10 سالوں کے واقعات صاف طور پر مختلف ہیں کیونکہ ان میں کئی متعلقہ ریاستی حکومتوں اور ان کی انتظامیہ کا واضح طور پر جانبدارانہ کردار دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔”