... loading ...
ایم سرور صدیقی
آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے آئندہ دنیا میں جنگیں پانی کے لئے ہونگیں تو بے جانہ ہوگا ۔پانی ہمیشہ کے لئے انسانوںکی ضرورت رہاہے۔ دیہاتی علاقوںمیں تو آج بھی پانی کی تقسیم پر لڑائیاں ہونا معمول ہے ۔یہی وجہ ہے دریائوں،ندی نالوں اور آبی ذخائر کے آس پاس بستیاں آباد ہوجاتی ہیں۔ کہتے ہیں جب دنیا میں کچھ نہ تھا پانی تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی پانی ہی ہوگا ۔پانی زندگی کی علامت ہے اور قدرت کا بیش قیمت تحفہ بھی جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کرہ ٔ ارض پر ایک حصہ خشکی اور تین حصے پانی ہے اور خشکی کے نیچے بھی پانی ۔سوچنے کی بات ہے اللہ نے پانی کو کتنی فضیلت عطا کردی ۔آب ِ زم زم کو بھی پانی بنا دیا۔ اس کے باوجود لوگوں کی قسمت کا کیا کیجئے ۔اقوام ِ متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور نہ جانے کون کون سے اداروں کی حکمت ِ عملیاں،ایفی شنسیاں اور پھر حکومتوں کے اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی دنیاکی بیشترآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں ۔ یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں۔ یہ کتنے مزے کی بات ہے کہ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا ۔اس کو جس سانچے میں ڈالو ڈھل جاتاہے،،جس رنگ میںچاہو رنگ لو۔جو زورآور چاہے دوسروں کا پانی بند کردے پانی کی طرف سے کوئی مزاحمت کوئی احتجاج نہیں۔
دنیا کے زیادہ تر انسانوںکو پینے کے صاف پانی کے حصول کیلئے بہت تردد کرناپڑتاہے ۔اربوں کھربوں روپے ہرسال صاف پانی کے نام پر ہڑپ کرلئے جاتے ہیں ۔محض بنگلہ دیش، نیپال،برما ،بھارت، خلیجی ممالک ،افریقہ پرہی موقوف نہیں، دنیا میں ہر جگہ ایسے ہی ہوتا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ نو آبادیاتی ریاستوںاور ممالک میں اشرافیہ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ایک اور بات پاکستان میں تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آبادکے مضافاتی علاقے،چولستان اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے۔ بعض مقامات پر خواتین اور بچے کئی کئی میل دور پیدل چل کر اپنے گھروں میں پینے کیلئے پانی لاتے ہیں ۔خشک سالی سے ہر سال سینکڑوں افراد اور لاکھوں جانوربلک بلک اور تڑپ تڑپ کر بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ یہی حال بھارت کے دور دراز کے علاقوں،بنگلہ دیش کی زیادہ آبادی ،افریقی ممالک کے وسیع و عریض جنگلوں،صحرائوں اور آبادیوں کی حالت انتہائی ابترہے ،خلیج ،عرب ممالک اور اس سے جڑے ملکوں میں پینے کا پانی انتہائی کمیاب ہے ۔امیر عرب ممالک میں تو پینے کاپانی امپورٹ کیا جاتاہے ،باقی رہے مسائل کے مارے غریب ملکوں کے باشندے انہیں جو پانی مل جائے انہی سے اپنی پیاس بجھاکر خداکا شکرادا کرتے ہیں ۔قحط ،خشک سالی اور بنجرہوتی زمینوںکی حالت ِ زار دیکھ کر میڈیا اور عالمی سطح پر وقتی ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ دو چارفوٹو سیشن اور معاملہ ختم۔دنیا بھر میںہرسال پانی کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی۔ ماہرین کو شدید خطرات لاحق ہیں کہ پاکستان قلت آب کا شکار ہو رہاہے اور حکمران اس سلسلہ میں کچھ نہیں کررہے ۔نہ جانے ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ پا کستان آہستہ آہستہ بنجر ہوتاجارہاہے اور کسی کو اس کامطلق احساس نہیں۔ یہ انتہائی خوفناک بات ہے کہ اس وقت بھی ملک کی85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں آبی ذخائر کی کمی محسوس ہوتی جارہی ہے جس سے نمٹنے کے لئے1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا۔
پاکستان دنیا کے ان17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے5 ہزار6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور2025 تک 800کیوبک میٹر رہ جائے گا۔پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ملک میں استعمال ہونے والا80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے ، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشا استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے ، ملک کا92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور2030تک ملک کا کافی رقبہ خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیے۔ میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے ، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کا ضیاع روکنے کی سخت ضرورت ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات ، جنوبی پنجاب، چولستان اور تھرپارکر میں پانی کی شدید قلت کے باعث ہر سال درجنوں افراد بھوک اورپیاس سے دم توڑجاتے ہیں جبکہ متاثر ہونے والوںکی تعداد لاکھوںمیں ہے جوپانی کی بوند بوندکو ترس جاتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجاب کے مضافاتی علاقے جہلم،مری، میاںوالی ،اندرون ِ سندھ ، بلوچستان کے وسیع و عریض رقبہ اور شمالی علاقہ جات میں جانور اور انسان دونوں جوہڑوںکا پانی پینے پر مجبورہیں جس سے پیٹ، جگر، معدے کی بیماریاں پھیل جاتی ہیں لیکن حکمران اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے ۔پانی کی کمی کا شکارزیادہ تر علاقے زرخیز ہیں جنہیں ایک مربوط حکمت ِ عملی سے قابل ِ کاشت بنایا جاسکتاہے جو پاکستان کی زرعی ترقی میں سنگ ِ میل ثابت ہوگا۔