... loading ...
جاوید محمود
گزشتہ روز یونان میں کشتی کے حادثے میں 40پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ یہ وہ بد نصیب پاکستانی ہیں جو اچھے مستقبل کی تلاش میں یورپ جا رہے تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے گزشتہ سال بھی یورپ جاتے ہوئے کشتی الٹ جانے کے نتیجے میں تقریبا 260 پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان ایسے ایجنٹوں کو لگام نہیں دیتی جو ان معصوم لوگوں کوسبز باغ دکھا کر غیر قانونی طریقے سے یورپ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔فائننشل ڈیلی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 3.275 ملین پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں یعنی پاکستان کی آبادی کا 1.3 فیصد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ صرف 2023 میں 0.9 ملین پاکستانیوں نے ملک چھوڑا جو کہ 1971 کے بعد سے اب تک کی دوسری سب سے زیادہ نقل مکانی ہے ۔مسئلہ زیادہ سنگین یہ ہے کہ وہ مستقل طور پر شفٹ ہو رہے ہیں اور واپس ا کر ملک کی خدمت نہیں کرنا چاہتے ۔پاکستان انسٹیٹیوٹ اف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی تحقیق کے مطابق 62 فیصد پاکستانی نوجوان بہتر تنخواہ اور عزت کے لیے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں ۔اس بات کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے ہمیں 1971میں واپس دیکھنا ہوگا،جب مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک بنا جہاں زیادہ تر صنعتیں قائم تھیں۔ بنگلہ دیش کی تقسیم کے بعد کارکن بے روزگار ہو گئے اور سڑکوں پر نکل آئے۔ وزیراعظم پاکستان نے مشرق وسطی کے ممالک کے ساتھ کچھ معاہدوں پر دستخط کیے اور اپنا انسانی سرمایہ برآمد کرنا شروع کیا۔ پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2023تک پاکستانی لیبر فورس کے 805088افراد نے ملک چھوڑا جس میں 7000اکاؤنٹنٹ 6500زرعی 3000ڈاکٹر 17000الیکٹریشن 8000 انجینئرزجبکہ000 20ٹیکنیکی ماہرین اور 356714غیر ہنرمند مزدور 21157اعلیٰ تعلیم یافتہ 43342انتہائی ہنرمندوں کو 2023 میں ملک چھوڑنا پڑا ،اگر کوئی شخص بیرون ملک جا کر اچھی خاصی رقم کماتا ہے اسے تین سے چار لاکھ تک محدود رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے بجائے وہ بیرون ملک پانچ سے چھ ہزار ڈالر کما سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں حکومت پاکستان کو سیاسی استحکام پر کام کرنا ہوگا اور برین ڈرین کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے معیشت کا چارٹر اور طویل المدتی پالیسیاں بنانا ہوں گی ۔دوسری بات یہ کہ پبلک سیکٹر کے پاس روزگار کے موقع بہت کم ہیں اور نجی شعبے کو ملک میں تعلیم یافتہ اور نیم ہنر مند نوجوانوں کو جذب کرنا چاہیے ۔حکومت کو ملازمتوں کے مواقع تک رسائی کو یقینی بنانے آئی ٹی کے شعبے میں تیکنیکی تربیت فراہم کرنے، تحقیق کی مناسب سہولیات کے ساتھ اس معاملے پر غالب آنے کے لیے کام کا محفوظ ماحول اور پیشہ ورانہ نظام قائم کرنے کے لیے پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی اور بے چینی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نوجوان ملک چھوڑنے کے لیے اپنی جان پہ کھیل کر روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک جا رہے ہیں، جب ملک میں انصاف نہ ہو حکمران بے حسی کی تصویر بنے ہوں۔ اپنے مفاد سے آگے انہیں کوئی نظر نہ آتا ہو، حکمرانوں کی خاندانی اجارہ داری قائم ہو تو ایسے میں محرومی اپنی راہ ہموار کرتی ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے جا طاقت کا استعمال کرتے ہوں ،اس صورتحال میں نوجوان تحفظ کی تلاش میں دوسرے ملک جانے کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں جب حکمران مفادات کے حصول میں اتنے اندھے ہو جائیں کہ انہیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہ آئے اور محروموں کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچیں۔
تصور کریں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی نے ایک بل منظور کیا ہے جس کے بعد صوبے کے اراکین اسمبلی وزراء اور اسمبلی عہدے داران کی تنخواہوں میں پانچ گنا سے 10گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اب رکن اسمبلی کی تنخواہ 76ہزار روپے سے بڑھ کر 4 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ وزراء اور دیگر عہدے داران کی تنخواہوں میں کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پنجاب کے صوبائی وزیر کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے تھی، جو اب نو لاکھ 60ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہے۔ وزرا کی تنخواہ میں لگ بھگ 10گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اسی طرح پنجاب اسمبل کی اسپیکر اور ڈپٹی ا سپیکر کی تنخواہوں میں بھی لگ بھگ آٹھ سے دس گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 25 ہزار سے بڑھاکر نو لاکھ 50ہزار روپے کر دی گئی ہے اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار سے بڑھا کر 7لاکھ 75 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ ایک پارلیمانی سیکریٹری کی تنخواہ جو پہلے 83ہزار روپے ماہانہ تھی، اب 4 لاکھ 51ہزار روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ کے مشیروں کی تنخواہ بھی ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے ۔خیال رہے کہ اراکین اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر کیا گیا ہے ۔ان کو ملنے والا ٹی اے ڈی اے، فری میڈیکل ،رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں ،اپسنلہ یونیورسٹی سوئیڈن کے پروفیسر اشوک سوئن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں قانون سازوں نے ایک ہی بار میں اپنی تنخواہوں میں پانچ گنا اور وزرا نے 10 گنا اضافہ کر لیا ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ پاکستان دیوالیہ ہے ۔آئی ایم ایف کے قرض آور شرائط پر گزارا کر رہا ہے لیکن شریفوں کو پرواہ نہیں۔ ایک ہی وقت میں اتنا زیادہ اضافہ اور ایک ایسے وقت میں جب پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے اور کفایت شعاری کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ اضافہ جسٹیفائیڈ نہیں لگتا ۔المیہ یہ ہے کہ ایک طرف نوجوانوں میں بے چینی اور مایوسی پھیل رہی ہے جبکہ دوسری طرف حکمرانوں کو شاہ خرچیوں سے فرصت نہیں اور انہوں نے یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔