... loading ...
سمیع اللہ ملک
قارئین کو اگر یاد ہو تو یکم اکتوبر2024 کو میں نے”گریٹر اسرائیل کامنصوبہ”کے عنوان سے جو آرٹیکل لکھا تھا اور اب شام سے بشار الاسد کے فرار اورموجودہ جاری حالات کو اسی تناظر کو دیکھ لیں تو خاکسار نے اپنے دلائل اورخدشات میں جو کچھ عرض کیا تھا، اس منظر نامہ کا آغاز ہو گیا ہے۔ تاہم حماس کے سات اکتوبر2023کے حملے کے بعد سے خطے میں جاری کشیدگی اور بدلتی صورت حال میں اسرائیل کے اس تصور کو پہلے سے کہیں زیادہ حقیقت کے قریب سمجھا جا رہا ہے۔ طاقت کے توازن میں تبدیلی اور علاقائی منظر نامے کی تشکیل نو اسرائیل کا کوئی نیا خواب نہیں ہے۔ وقت اور حالات نے میرے ناقدین کو ایک مرتبہ پھر کڑوے سچ کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
متعدد بین الاقوامی فورمز پر اسرائیلی حکام اپنے ملک اسرائیل کے نقشے پکڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام نقشوں میں کسی فلسطینی ریاست یا علاقے کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتین یاہو نے اپنی تقریر میں اسرائیل کے دو نقشے پیش کیے۔ ان میں سے ایک نقشے میں ان تمام ممالک کو سبز رنگ میں دکھایا گیا جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا حصہ ہیں یا اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال رکھنے کے خواہاں ہیں۔ سبز رنگ والے ممالک میں مصر، سوڈان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور اردن شامل ہیں۔ دوسرے نقشے میں نیتن یاہو نے نہ صرف ایران اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک شام، عراق، یمن اور لبنان کو سیاہ رنگ میں پیش کیا بلکہ ان علاقوں کو مکروہ کہہ کر مخاطب کیا۔
موجودہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے شام پر اپنے فضائی حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ عالمی میڈیا میں اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ وہ شام پر مشتبہ کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل بنانے والے مبینہ اہداف پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے بڑی مکاری سے ان حملوں کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اور اسرائیل ایسا ہونے سے روکنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج شام کے بھاری ا سٹریٹجک ہتھیاروں کو تباہ کر دے گی جن میں میزائل اور فضائی دفاعی نظام بھی شامل ہیں۔میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ پچھلے دو دنوں کے دوران اسرائیل نے شام میں درجنوں فضائی حملے کیے ہیں جن میں ایک حملہ دمشق میں مبینہ طور پور ایک ایسے مقام پر کیا گیا ہے جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اسے ایرانی سائنسدان راکٹ بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دمشق کے قریب کیے گئے ایک اسرائیلی فضائی حملے کے بعد شام سے آنے والی میڈیا رپورٹس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس حملے میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے ایک تحقیقی مرکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے نے شام میں حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کے مشتبہ ذخیرے محفوظ ہیں۔
برطانیہ میں قائم ایک مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر)نے پیر کو کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ساحلی اور جنوبی شام میں پھیلے متعدد مقامات پر راتوں رات حملے کیے ہیں۔ سابق حکومت کے خاتمے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیل نے شدید فضائی حملے شروع کیے اور جان بوجھ کر ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ڈپوز کو تباہ کر دیا جبکہ گذشتہ روز ہیئت تحریر الشام نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے متعلق اپنے ایک بیان میں ہتھیاروں اور حساس مقامات کی نگرانی میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کے لیے مکمل یقین دہانی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہمارا کیمیائی ہتھیاروں یا کسی بھی نوعیت کی تباہی پھیلانے کے ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ارادہ یا خواہش نہیں ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں ان سائٹس یا ہتھیاروں کو غیر ذمہ دارانہ ہاتھوں میں نہیں جانے دیں گے۔ ہم انہیں محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
یہ اعلان اس خدشے کے بعد سامنے آیا تھا کہ مبینہ طور پر حلب کے جنوب میں کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ شامی باغی گروہوں کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے کیمیکل واچ ڈاگ آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز(او پی سی ڈبلیو)کے مطابق کیمیائی ہتھیار ایک ایسا ہتھیار ہے جو اپنی زہریلی خصوصیات کے ساتھ کسی کو مارنے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ او پی سی ڈبلیو کے مطابق ایسے گولہ بارود، آلات اور دیگر سامان جو زہریلے کیمیکلز سے ہتھیار بنانے کے لیے خاص طور پر تیار کیے گئے ہوں وہ بھی کیمیائی ہتھیاروں کی تعریف میں شامل ہیں۔ یاد رہے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ممنوع ہے، چاہے کوئی جائز فوجی ہدف موجود ہو یا نہ ہو۔
کیمیائی ہتھیار(سی ڈبلیو )کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ زہریلے کیمیکلز کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے جو کسی بم یا توپ کے گولے جیسے ڈلیوری سسٹم کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے یا داغا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعریف تکنیکی طور پر درست ہے لیکن اس صورت میں اس میں صرف محدود چیزیں شامل ہوں گی جنہیں کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن(سی ڈبلیو سی)کے تحت کیمیائی ہتھیار قرار دیا گیا ہے۔سی ڈبلیو سی کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کی تعریف میں تمام زہریلے کیمیکلز اور ان کے پیش رو شامل ہیں ماسوائے تب جب انھیں کنونشن کی اجازت کے تحت دیے گئے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اس اجازت نامے میں مقدار کا تعین بھی شامل ہوتا ہے۔
کیمائی ہتھیار کتنی اقسام کے ہوتے ہیں؟
کیمیائی ہتھیاروں کی مختلف اقسام ہیں:
٭نرو ایجنٹس: اعصابی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں (جیسے: سارین، وی ایکس)
٭بلسٹر ایجنٹس: جلد، آنکھوں اور انسانی جھلیوں میں شدید جلن اور درد پیدا کرتے ہیں (جیسے: مسٹرڈ گیس)
٭چوکنگ ایجنٹس: سانس کے نظام کو متاثر کرتے ہیں(جیسے: فاسجین، کلورین)
٭بلڈ ایجنٹس: جسم کی آکسیجن استعمال کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں(جیسے: سائنائیڈ مرکبات)۔
٭رائٹ کنٹرول ایجنٹس: عارضی جلن پیدا کرنے والے غیر مہلک ایجنٹس (جیسے: آنسو گیس)
٭چوکنگ یا دم گھٹنے والے ایجنٹ جیسے فاسجین پھیپھڑوں اور نظام تنفس پر حملہ کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ مہلک نرو ایجنٹ ہوتے ہیں جو دماغ کے پیغامات کو جسم کے پٹھوں تک پہنچانے میں مداخلت کرتے ہیں۔ ان کا ایک چھوٹا سا قطرہ بھی بہت مہلک ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر 0.5 ملی گرام سے بھی کم ایک ایجنٹ ایک بالغ شخص کو مارنے کے لیے کافی ہے۔یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سارین کو سائینائیڈ سے 20 گنا زیادہ مہلک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کے چند منٹوں کے اندر ہی دم گھٹنے سے انسان کی موت ہو سکتی ہے۔ ان تمام کیمیکل ایجنٹوں کو توپ خانے کے گولوں، بموں اور میزائلوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کی مدد سے بشار الاسد نے کس طرح اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی؟بشار الاسد کی حکومت اور ان کے روسی اتحادیوں پر الزام ہے کہ انھوں نے مارچ 2011 سے شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران مخالفین کے خلاف کئی مرتبہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ تاہم اسد حکومت اور روس نے ان رپورٹس کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ تاہم فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ شام کے پاس کتنے کیمیائی ہتھیار موجود ہیں اور یہ کہاں ہیں۔ البتہ خیال کیا جاتا ہے کہ سابق صدر بشار الاسد نے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے رکھے ہوئے تھے اور 2013 میں انھوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے متعلق جو اعلان کیا تھا وہ غلط تھا۔
یاد رہے اگست 2013 میں دمشق کے قریب شامی حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے غوطہ میں کیے گئے ایک مبینہ کیمیائی حملے میں (جس میں نرو ایجنٹ سارین شامل تھا) 1400سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مغربی ممالک اور شامی حکومت کے مخالف گروہوں نے اس حملے کا ذمہ دار بشار الاسد حکومت کو ٹھہرایا تھا تاہم اسد نے اس حملے کا الزام حزب اختلاف پر عائد کیا تھا۔ دمشق نے اس وقت اس حملے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی تھی۔ اس وقت امریکہ نے شام کو فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی لیکن پھر اسد کے اہم اتحادی روس نے اسے ملک میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے پر رضامند کر لیا۔بین الاقوامی دبا اور دھمکیوں کے تحت بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو ختم کرنے پر رضامند ہوئے اور او پی سی ڈبلیو کے کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد شام میں 1300 ٹن کیمیکل کو تباہ کیے گئے تھے تاہم عالمی اداروں کے مطابق ملک میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے جاری رہے اور بعد میں ہتھیاروں کے معائنہ کاروں نے ایسے شواہد دریافت کیے جو او پی سی ڈبلیو کی نگرانی میں 1997 کے کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرتے تھے۔
2014 سے او پی سی ڈبلیو کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے شام میں زہریلے کیمیکلز کے استعمال کے الزامات کی تحقیقات کی ہیں۔ انھوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ ستمبر 2013 سے اپریل 2018 کے درمیان 37 واقعات میں کیمیکلز کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا یا ان حملوں میں ان کے کے استعمال کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے بین الاقوامی کمیشن برائے انکوائری کے مطابق شام میں 18 دیگر واقعات میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔2018 میں عالمی میڈیا کے تجزیے میں 164 رپورٹوں کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ 2014 سے 2018 کے درمیان شام کی خانہ جنگی میں کم از کم 106 بار کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ حملے شمال مغربی صوبے ادلب میں ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہمسایہ صوبوں حما اور حلب اور دمشق کے قریب مشرقی غوطہ کے علاقے میں بھی بہت سے واقعات میں کیمیائی حملے ہوئے۔ یاد رہے یہ تمام علاقے جنگ کے دوران مختلف اوقات میں اپوزیشن کے گڑھ رہے ہیں۔جن مقامات پر مبینہ کیمیائی حملوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ صوبہ حما میں کفر زیتا اور مشرقی غوطہ میں دوما تھے۔ دونوں قصبوں میں مخالف جنگجوں اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ سب سے مہلک واقعہ 4 اپریل 2017 کو صوبہ ادلب کے قصبے خان شیخون میں پیش آیا۔4اپریل 2017 کو شمالی شام کے خان شیخون میں گیس کے حملے میں تقریبا 100 افراد مارے گئے۔ او پی سی ڈبلیو اور اقوام ِ متحدہ کے مشترکہ تحقیقاتی مشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس دن رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد سارین سے متاثر ہوئی تھی لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا زہریلا کیمیکل کلورین تھا۔
اقوام متحدہ کے کیمیکل واچ ڈاگ آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز کی تحقیقات کے مطابق خانہ جنگی کے دوران شام کی حکومتی فورسز نے سرین نرو ایجنٹ اور کلورین بیرل بموں کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ او پی سی ڈبلیو کے مطابق ان کیانویسٹیگیشن اور آئڈینٹیفکیشن ٹیم (آئی آئی ٹی) کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ 4 فروری 2018 کی رات سراقب کے خلاف حملوں کے دوران ایلیٹ ٹائیگر فورسز یونٹ کے زیر کنٹرول شامی عرب فضائیہ کے فوجی ہیلی کاپٹر نے کم از کم ایک سلنڈر گرا کر قصبے کے مشرقی حصے کو نشانہ بنایا۔
یاد رہے کلورین کا دوہرا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے جائز پرامن مقاصد کے لیے بھی استعمال کی جاتا ہے لیکن سی ڈبلیو سی کے مطابق بطور ہتھیار اس کے استعمال پر پابندی ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ سلنڈر پھٹنے سے زہریلی گیس کلورین خارج ہوئی جو ایک بڑے علاقے میں پھیل گئی جس سے 12 افراد متاثر ہوئے تھے لیکن یہ معمہ ابھی تک تحقیق طلب ہے کہ دیگر 105 حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ جے آئی ایم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بلسٹر ایجنٹ سلفر مسٹرڈ پر مشتمل دو حملے نم نہاد داعش نے کیے تھے اور اعداد و شمار کے مطابق ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ داعش نے تین دیگر مبینہ حملے بھی کیے تھے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں اسرائیل کے عزائم کو نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ”وہ دجلہ اور فرات کے درمیان ہمارے وطن کی سرزمین ہتھیانے کا خواب دیکھتے ہیں اور کیونکہ وہ غزہ کو قبول نہیں کرنا چاہتے، وہ اس کا اظہار اپنے نقشوں سے کر رہے ہیں”۔ کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے ایک سینیئر فیلو کے مطابق اس وقت نیتن یاہو جو نئے مشرق وسطی کی صورت میں مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا مقصد فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کی کالونی بنانا ہے۔ اسرائیل خاص طور پر مغربی کنارے میں اپنے آباد کاری کے منصوبے کو توسیع دینے کے ارادوں سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ وہ عرب اور بین الاقوامی تنقید کے باوجود بستیوں کی تعداد بڑھانے کے ارادے کا اعلان کر چکا ہے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مطابق “اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت میں متعدد وزرا دو ریاستی حل پر یقین نہیں رکھتے اور اب ہم 1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد سے ایک فلسطینی ریاست سے دورنظر آتے ہیں۔لگتا یہ ہے امریکہ ان اسرائیلی نقشوں کو منظور نہیں کرے گا جن میں فلسطینی علاقے شامل نہ ہوں کیونکہ نئے مشرقِ وسطی کے بارے میں اسرائیلی نظریہ ایرانی خطرات سے پاک خطہ
قائم کرنا مقصود ہے لیکن سکیورٹی امور کے ماہر اور ریٹائرڈ اسرائیلی انٹیلیجنس افسر میری آئزن نے اس مؤقف کی نفی کی اور کہا کہ اسرائیل ایک نیا مشرق وسطیٰ مسلط کرنا نہیں چاہتا تاہم اسرائیل یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران کی سخت گیر حکومت مشرق وسطی کی علاقائی ترتیب پر اثر انداز نہ ہو۔دراصل نیتن یاہو کے الفاظ کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اب وہ اپنی اس تاریخی حیثیت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد متاثر ہوئی اور جس میں اسرائیل کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں کیے جانے والے ایک بڑے اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کی ہلاکت کو جنگ میں ایک اہم جغرافیائی اور سیاسی موڑ سمجھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ایران نے اسرائیل پر متعدد بیلسٹک میزائلوں سے یکم اکتوبر کو حملہ کیا۔ اس حملے کو ایران اپنی سرزمین پر حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا بدلہ قرار دے رہا ہے جبکہ اسرائیل نے اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امریکہ اپنی اسٹریٹیجک برتری کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث اس نے خطے میں اپنی فوج کی تعیناتی میں بھی خاطر خوا اضافہ کیا ہے تاہم یہ حمایت اس بات پر مشروط ہے کہ اسرائیل ان حدوں (سرخ لکیروں)کو عبور نہ کرے جن کا اعادہ امریکہ سرکاری سطح پر کرتا رہا ہے۔ وہ حدیں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا اور دو ریاستی حل کی جانب جانا ہیں۔تاہم ٹرمپ نے اپنے گزشتہ اقتدار میں خطے میں حالات معمول پر لانے کے منصوبوں کے تناظر میں اقتصادی اور فوجی سپورٹ کی پیشکش کی اور اس دوران عرب ممالک پر زور دیا کہ اسرائیل ان کے لیے علاقائی خطرہ نہیں بلکہ اس کے برعکس، ایران کا مقابلہ کرنے میں ایک سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ جس کے نتیجے میں مراکش، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدے پر دستخط کیے۔ لیکن سات اکتوبر 2023کے حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل غزہ جنگ کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے جو خطے میں شیعہ اکثریتی ایران کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور اثر و رسوخ کی مخالفت کرتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اس کی بالادستی سے خوفزدہ ہے۔
تاہم سعودی عرب نے فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون میں باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔ سات اکتوبر 2023 سے ہونے والی جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں نے مصر، شام، لبنان اور اردن سمیت دیگر عرب ممالک کی سوچ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ممالک نے 1948 میں فلسطین کی تقسیم کے فیصلے میں احتجاجاً اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔تاہم اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نصف رواں مالی سال کے دوران اسرائیل اور پانچ عرب ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک میں متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین اور مراکش شامل ہیں۔ اسرائیلی اخبار ماریو نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے پر رپورٹ کی ہے جس کے مطابق اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی راستہ سعودی عرب اور اردن سے گزر کر مصر تک پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیل کی گیس کو مصر کے کچھ پاور گرڈز کے لیے سپلائی کا ایک بڑا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
خطے کے دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ایک نئے علاقائی نظام کی تشکیل کے لیے سفارت کاری، اقتصادی شراکت داری اور ایک مضبوط دفاعی اور فوجی کارروائی کو یکجا کرنا چاہیے۔مڈل ایسٹ سینٹر کارنیگ نے تیزی سے بڑھتی علاقائی اور عالمی تبدیلیوں کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ صورتحال مزید عالمی تنازعات کو جنم دے رہی ہے۔ان کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں کو بین الاقوامی صورتحال سے الگ تھلگ نہیں دیکھا جا سکتا، اس سے امریکہ، روس، چین اور یورپ کی مقامی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔انہیں خدشہ ہے کہ علاقائی اور عالمی تبدیلیوں سے ہم جنگ کے رجحان کو ہوا دے رہے ہیں اور یہ خوف بھی لاحق ہے کہ کہیں ممکنہ جنگ دنیا کو تاریک کرنے کا سبب نہ بن جائے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔