سیاسی جماعتوں کے خواتین سے اپنائے جانے والے رویے ماضی ‘ حال اور مستقبل کا جائزہ

انسانی تاریخ میں ہمیشہ عورت عتاب کاشکار رہی ہے اور جب کائنات تخلیق ہوئی تو پہلا قتل بھی ایک عورت کی وجہ سے ہوا عورت اس کائنات کی خوبصورت تخلیق ہے۔ عورت کی وجہ سے ہی یہ دنیا حسین اور پرکشش ہے اگر عورت کا وجود نہ ہو تو شاید کائنات کا وجود ہی ختم ہوجائے پیارے پاکستان کے قیام کے وقت محمد علی جناح کے ساتھ بھی خواتین کھڑی ہوگئیں ۔فاطمہ جناح اور رعنا لیاقت ایسی حوصلہ مند خواتین تھیں جو آنے والی خواتین کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتی تھیں قائداعظم اور خانزادہ لیاقت علی خان نے دونوں خواتین کو صف اول میں لاکر آنے والی نسلوں کے لیے پیغام دیا کہ اس ملک کی ترقی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی اہم کردار ہوگا۔ پھر آگے چل کر محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا اور حقیقت میں وہ اس الیکشن میں کامیاب بھی ہوگئی تھیں لیکن وقت کے ڈکٹیٹر ایوب خان نے ان کے خلاف غلیظ بہتان بازی کی اور دھاندلی کرکے ان کو ہروادیا اور خود ہی کامیاب بن کردس سال تک حکومت کرتا رہا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کا گورنر بنایا پھر بھٹو کے دور میں ہی بیگم نصرت بھٹو بھی متحرک خاتون اول کے طور پر پہچان بناچکی تھیں ضیاء الحق کے دور میں محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کوگرفتار کیاگیا ان کو سینٹرل جیل سکھر میں بند کیاگیا ۔دادو کی کلثوم چانڈیو صرف15برس کی تھیں مارشل لاء کے خلاف مظاہرہ کیا تو ان کو بھی گرفتار کیاگیا ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران درجنوں خواتین جیلوں میں گئیں پھر88ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو نوابشاہ سے منتخب ہوئے والے ایم پی اے رحیم بخش جمالی کے ہاتھوں ایک لیڈی ڈاکٹر فوزیہ بھٹو قتل ہوئیں محترمہ نے رحیم بخش جمالی کوگرفتار کرنے کا حکم دیا یوں وہ جیل چلاگیا اورطاقت کے بل بوتے رہا بھی ہوگیا۔ لیکن قدرت کاانتقام اپنی جگہ ایک حقیقت ہے دنیا نے دیکھاکہ کئی سال بعد وہی رحیم بخش جمالی نوابشاہ میں ایک مسجد میں نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل کردیاگیا۔90ء میں نوازشریف کی حکومت آئی سندھ میں جام صادق وزیراعلیٰ اور عرفان مروت مشیر داخلہ بنے تو انہوں نے خواتین کے لیے زمین تنگ کردی شہلا رضا اور راحیلہ ٹوانہ کو گرفتار کرکے سی آئی اے سینٹر صدر میں بدترین تشدد کیاگیا اس دورمیں بیگم نصرت بھٹو پر لاٹھی مار کرتشددکیاگیا جس سے ان کا سر پھٹ گیا محترمہ بینظیر بھٹوپر بھی حملہ کیاگیا مگر اعتزاز احسن اور فاروق لغاری نے آگے آکر ان کو بچالیا اس دور میں محترمہ کی سہیلی وینا حیات کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔
1993ء میں پی پی پی کی حکومت آئی تو المرتضیٰ پر فائرنگ کرکے بیگم نصرت بھٹو کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ایک کارکن شاہد رند آگے آگئے اور گولی اپنے سینے میں کھاکر موت کو گلے لگایا مگر بیگم نصرت بھٹو کے سامنے ڈھال بن گئے اس دور میں ایم کیوایم کے اسامہ قادری کو گرفتار کیاگیا ان کو رہا کرنے کے لیے ان کی ضعیف والدہ فیروزہ بیگم کو زبردستی صوبائی وزیر بنادیاگیا مگر جب انگریزی اخبار کے کالم نویس ارد شیرکا ؤس جی نے کالم لکھا اور چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ نے از خود نوٹس لیا تو فیروزہ بیگم نے استعفیٰ دے دیا اور واپس ایم کیوایم میں چلی گئیں ۔1997ء میں پھر نوازشریف کی حکومت آئی تو ایک مرتبہ پھرمحترمہ بینظیر بھٹوزیرعتاب آگئیں کے ای ایس سی کے ایم ڈی ملک شاہد حامد کو دن دہاڑے قتل کیاگیا ان کی اہلیہ بیگم شہناز حامد تن تنہا مقدمہ عدالتوں تک لے گئیں ایم کیوایم نے انہیں تنگ کرنے‘ ڈرانے‘ دھمکانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیاگیا مگر وہ چٹان کی طرح جم کر مقابلہ کرتی رہیں اوربالآخر 17 سال کی طویل جدوجہد کے بعد صولت مرزا کو پھانسی پر لٹکانے میں کامیاب ہوئیں اسی دور میں حکیم سعید کو بھی قتل کیاگیا لیکن قاتلوں نے حکیم سعید کی منہ بولی بیٹی سعدیہ راشد کو دھمکیاں دیں یوں وہ کیس سے پیچھے ہٹ گئیں پھر پرویزمشرف نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سب سے پہلے نوازشریف کی بہادر اہلیہ کلثوم نواز کو تشدد کا نشانہ بنایا حتیٰ کہ ایک مرتبہ ان کی کار کو لفٹر سے اٹھادیاگیا اس دور میں بھی کئی معاشقے منظر عام پر آئے مگر ڈکٹیٹر نے ان کودبادیا پھر اسی فوجی ڈکٹیٹر کے دور میں عالم اسلام کی پہلی خاتون و زیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو قتل کردی گئیں اور ان کے قاتلوں کو آج تک سزا نہیں ہوئی پھر پیپلزپارٹی حکومت میں آئی تو وہ بھی اپنی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کا کیس بھول گئیں تاہم اس دور میں ماڈل ایان علی کی ایوان صدر سے قربت کی خبریں منظر عام پر آئیں اب دوبارہ مسلم لیگ نون کی حکومت ہے اور سندھ میں دوسری مرتبہ پی پی نے حکومت بنائی ہے۔ اس وقت سندھ کابینہ میں ایک بھی خاتون وزیر نہیں ہیں ایک وزیر بیگم شمیم ممتاز تھیں ان کو بھی وزارت سے ہٹاکر مشیربنادیاگیا سندھ اسمبلی میں امداد پتافی جیسے وزیر نے بیہودہ زبان استعمال کرکے نصرت سحر عباسی کی توہین کی جب بختاور‘ آصفہ نے مذمت کی تو بلاول بھٹو زرداری نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا تو امداد پتافی نے شرمندگی میں دوپٹہ لے جاکر نصرت سحر عباسی کو اوڑھایا اور بہن کا درجہ دیا اب ایک مرتبہ پھر ایک خاتون عائشہ گلالئی نے عمران خان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے بیہودہ پیغامات بھیجے ہیں ماروی میمن نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمران خان نے ان کو بھی ایسے پیغماات بھیجے تھے لاہور میں عائشہ احمد ملک چیخ رہی ہیں کہ حمزہ شہباز نے ان سے شادی کی مگر اب
ان کو حق مہرنہیں دے رہا یہ سارے قصے بتاتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں کتنی بالغ اور سنجیدہ ہیں ؟
زین العابدین