طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات کی تردید کردی

taliban
طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ قطر میں ہونے والے خفیہ مذاکرات کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔برطانوی اخبار گارجین نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ ماہ ستمبر سے دوبارہ شروع ہو ا ہے۔ اخبار کا اپنے مختلف ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ تھا کہ اس حوالے سے مذاکرات کے دو دور قطر میں مکمل ہو چکے ہیں۔ جبکہ قطر میں ہوئی ملاقاتوں میں ایک امریکی سفارت کار بھی شامل تھے۔ اس خبر کی تائید میں اخبار نے افغان صدارتی محل کے ذرائع کا بھی حوالہ دیا تھا ۔ جس کے تحت افغان انٹیلی جنس کے سربراہ محمد معصوم استانکزئی اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمار نے بھی قطر میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کی تھی۔
مگر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں اس قسم کے مذاکرات یا ملاقاتوں کو سرے سے ہی مسترد کردیا ہے۔ طالبان ترجمان نے 18 اکتوبر کو جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ “مغربی روزنامہ گارڈین نے بعض نامعلوم ذرائع کے بنیاد پر ایک رپورٹ شائع کی، کہ امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے مملکت قطر میں کابل انتظامیہ کے افراد سے ملاقات کی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ہم ملاقات اور بات چیت کی اس نوعیت کی رپورٹوں کی تردید کرتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے معصوم استانکزئی اور نہ ہی کابل انتطامیہ کے حکام سے ملاقات کی ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس بارے میں ہماری پالیسی بہت واضح ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان ایک بار پھر تمام ذرائع ابلاغ کو بتاتی ہے کہ اس نوعیت کی غیرمصدقہ رپورٹیں شائع کرنے سے گریز کریں۔”
طالبان کا اول روز سے موقف یہی ہے کہ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے بغیر وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
قبل ازیں پاکستان کی مدد سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان شروع ہونے والے پنڈی مذاکرات میں بھی افغان طالبان کی جانب سے یہی موقف اختیار کیا گیا تھا۔ مگر بات چیت کے اس عمل کے دوران میں امریکا کی جانب سے ایک ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملاعمر کو نشانا بنایا گیا تھا۔ جس کے بعد مذاکرات کا عمل مکمل طور پر رک گیا تھا۔ وجود کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ اخوند افغان حکومت اور امریکا سے کسی بھی سطح پر مذاکرات کے قائل نہیں ہیں۔اُن کی طرف سے امارت سنبھالنے کے بعد افغانستان میں ہونے والے حملوں میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ جس سے افغان حکومت خاصی پریشان دکھائی دیتی ہے۔