اسحاق ڈار نے پاکستان کو قرضوں جال میں جکڑدیا‘سودقوم اداکرتی رہے گی

وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر نیب کی جانب سے قائم کردہ مقدمات اور نیب عدالت کی جانب سے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جانے کے بعد بظاہر یہی نظر آتاہے کہ اپنے سمدھی نواز شریف کی طرح انھیں بھی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ۔صورت خواہ کچھ بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ اسحاق ڈار نے اپنے سوا چار سالہ دور میں اس ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے اس طرح دبادیاہے کہ پوری قوم کو برسہابرس تک بھاری رقم سود کے طورپر ادا کرنا پڑے گی اور جو رقم اس ملک کے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونی چاہئے تھی وہ سود کی ادائیگی پر ضائع ہوتی رہے گی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دور میں لیے گئے قرضوں کاجائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وزیر خزانہ نے محض پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو خوبصورت کرکے پیش کرتے رہنے کے لیے قرض پر قرض حاصل کیا صورت حال کی سنگینی کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اسحاق ڈار نے صرف رواں سال کے دوران مختلف مالیاتی اداروں سے 2.5 ٹریلین روپے یعنی ڈھائی کھر ب روپے کے قرض حاصل کئے جس کے نتیجے میں رواں سال جون تک پاکستان پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 25.1 ٹریلین یعنی 25 کھرب 10 ارب روپے تک پہنچ گیا، قرضوں کے بوجھ میں اس اضافے کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں اور اس پر سود اور سروسز چارجز وغیرہ کی ادائیگی کابوجھ بھی بڑھتاچلاگیا اور اب ملک کو برسہابرس تک سود اور سروسز چارجز کی مد میں اپنی مجموعی قومی آمدنی کاایک بڑا حصہ ان مالیاتی اداروں کو ادا کرنے پر مجبور رہنا پڑے گا۔اگرچہ اب بھی حکومتی حلقے اس سنگین صورت حال کے باوجود اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسحاق ڈار کی کارکردگی خراب نہیں تھی لیکن اعدادوشمار ان دعووں کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔
اسحاق ڈار کی غلط منصوبہ بندی کاسب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ ان کے دور میں پاکستان پر غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی مالیت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور گزشتہ مالی سال کے اختتام تک اس کی مالیت 83 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔جس کے نتیجے میں اب ملک کو ہرسال ان قرضوں پر سود اور سروسنگ کی مد میں کم وبیش 8.2 بلین ڈالر یعنی کم وبیش8 ارب 20 کروڑ ڈالر ادا کرنا پڑیں اور اس ادائیگی کا سلسلہ قرضوں کی مکمل ادائیگی تک جاری رہے گا،جس کی وجہ سے اس بات کے خطرات اپنی جگہ موجودہیں کہ ملک کو کسی بھی مرحلے پر اس رقم کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑسکتاہے جس سے قرضوں کی مالیت میں مزید اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔اس صورت حال سے یہ ظاہرہوتاہے کہ اب پاکستان پر موجود قرضوں اور سود اور سروسنگ چارجز کی ادائیگی کے لیے ملک کو ہرسال اپنی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 78.7 فیصد حصہ عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کرنا پڑے گا ، جس کے بعد ملک کے بعد اپنی دفاعی ضروریات اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے مجموعی قومی پیداوار کا بمشکل 21 فیصد حصہ بچے گا ۔ یہ صورت حال پاکستان جیسے کم وسیلہ اور مسائل میں گھرے ہوئے ملک کے لیے کسی طرح بھی مناسب محفوظ قرار نہیں دی جاسکتی۔اس صورت حال کے پیش نظر اب یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان پرقرضوں کا بوجھ خطرناک حد سے بھی تجاوز کرچکاہے۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ اسحاق ڈار نے پوری قوم کو قرضوں کے ایسے جال میں جکڑ دیاہے جس سے باہر نکلنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن نظر آرہاہے۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی شرح نمو میں اضافہ ہواہے اور شرح نمو سنگل سے ڈبل ڈجٹ میں آگئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان پر واجبات کی شرح ملک کی اقتصادی شرح نمو سے کہیں زیادہ یعنی11 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اورماہر معاشیات اسد عمرنے گزشتہ روز اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ صورت حال خراب نہیں جیسا کہ ہم سوچ رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صورت حال خراب کی حد پار کرکے بدترین کی حد تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرض کے اس بوجھ کے علاوہ حکومت پر اندرونی قرضوں کابوجھ بھی 21.4 ٹریلین یعنی 21 کھرب 40 ارب روپے سے تجاوز کرچکاہے ،اسٹیٹ بینک پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت پر اندرونی قرضوں کی مجموعی مالیت میں 1.732 ٹریلین یعنی ایک کھرب 73 ارب20 کروڑ روپے کااضافہ ہوا۔قرضوں کے اس بوجھ کو چھپانے کے لیے وفاقی وزارت خزانہ نے گزشتہ سال دومرتبہ اندرونی قرضوں کی تعریف تبدیل کی ،وزار ت خزانہ کے دعوے کے مطابق ملک پر اندرونی قرضوں کابوجھ 19.64 ٹریلین یعنی 19 کھرب64 ارب روپے ہے لیکن حزب اختلاف کی پارٹیاں حکومت کے پیش کردہ ان اعدادوشمار کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے پیش کردہ ان اعدادوشمار کو چیلنج کرنے کافیصلہ کیاہے۔ملک پر واجب الادا قرضوں کی مالیت کی شرح ملک کی مجموعی ملکی پیداوار کے
67.2 فیصد کے مساوی ہے۔قرضوں کی یہ شرح ملکی قرضوں کے لیے خود پارلیمنٹ کی جانب سے مقرر کردہ سطح سے کہیں زیادہ اور پارلیمنٹ کے وضح کردہ اصولوں اور ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان پر واجب الادا قرضوں کے حوالے سے ان اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان اس وقت بارود کے ڈھیر پر بیٹھاہواہے اور اگر مارکیٹ کے دبائو کی وجہ سے کسی بھی وقت پاکستان کو اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی کرنے پر مجبور ہونا پڑا تو پاکستان پر واجب الادا قرضوں کی مالیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا ،جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان زیادہ دنوں تک اپنی کرنسی کی قیمت مصنوعی طورپر اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔کیونکہ ایسی صورت میں پاکستان کاتجارتی خسارہ بڑھتاچلاجائے گا اور پاکستان کو اس خسارے کاتوازن برقرار رکھنے کے لیے مزید قرض لینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔اس صورت حال یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ نااہل قرار دئے گئے وزیر اعظم نواز شریف کے سمدھی اس قوم کابال بال قرض میں جکڑچکے ہیں جس کی وجہ سے قوم طویل عرصے تک قرضوں پر سود ادا کرتے رہنے اور اس طرح پیداہونے والی مہنگائی پر ان کوکوسنے دیتی رہے گی۔