اسلامی اتحادی فوج پر اعتراضات اور شکوک وشبہات کے سائے


سعودی عرب کی زیر قیادت مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی کمان کا معاملہ اس اتحاد کے قیام کے بعد ہی سے پوری مسلم دنیا خاص طورپر پاکستان میں زیر بحث رہا ہے’ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں پاکستان نے اس اتحاد میں شمولیت سے گریز کی کوشش کی تھی لیکن بعد میں بوجوہ پاکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہوگیا، لیکن اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ۔ اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے مخالفین کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اتحاد صرف ایک مسلک کے ماننے والے مسلم ملکوں کا اتحاد ہے اور اس میں علاقے کے بڑے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ممالک ایران ، عراق اور شام وغیرہ کو الگ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی افادیت ہمیشہ مشکوک سمجھی جائے گی، پاکستان میںیہ ان دنوں ایک بڑا موضوع بحث ہے۔ حکومت اس صورت حال سے ناواقف نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے باربار اس حوالے سے وضاحتی بیانات جاری کئے جاتے رہے جس میں یہ یقین دہانیاں کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ اتحاد کسی ملک کے نہیں بلکہ صرف دہشت گردی کے خلاف ہے ،حال ہی میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت کے لیے سعودی حکومت نے پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی خدمات حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ درخواست کی تھی جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ اس بیان کے بعد پہلے بعض حلقوں خاص طور پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے قائدین کی طرف سے کچھ دبے الفاظ میں اور اب کھلے عام تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کے مطابق تہران نے بھی پاکستانی حکومت کی طرف سے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم عسکری اتحادی کی قیادت سنبھالنے کے لیے دیئے گئے اجازت نامے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کے مطابق پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اْنھیں اس معاملے پر تشویش ہے۔واضح رہے کہ ایران کے کسی عہدیدار کی طرف سے اس بارے میں سامنے آنے والا یہ پہلا ردعمل ہے۔
ایران کی جانب جنرل راحیل شریف کی تقرری پر تحفظات کے اظہار کے بعد سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان مسلم ممالک کے تنازعات میں فریق نہ بننے کی پالیسی پر کاربند ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں سیکریٹری خارجہ نے ایک دفعہ پھر واضح کیاکہ 41 رکنی اسلامی فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے، کسی ملک کے خلاف نہیں۔سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریٹائرڈ فوجی افسر کو کہیں بھی ملازمت کا حق حاصل ہے۔اویس لغاری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں سابق آرمی چیف کو سعودی اتحاد کی سربراہی سونپے جانے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ایران اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق امور زیربحث آئے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کسی طور ایرانی مفاد کے خلاف کام نہیں کرسکتے، ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی ممالک دہشت گردی کے خلاف اکھٹے ہوں۔ قائمہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ اسلامی اتحاد پر ایران کے تحفظات کا علم ہے اور علاقائی امن و دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں دونوں ممالک کی پارلیمانی کمیٹیاں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تاہم اسلامی اتحاد کے بعد ہمیں احتیاط سے فیصلے کرنے ہوں گے جبکہ کسی ایک طرف جھکاؤ اچھا نہیں ہوگا۔انہوں نے اس معاملے کو دفتر خارجہ کے لیے بھی چیلنج قرار دیا۔اویس لغاری کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے اسلامی اتحاد کی کمان سنبھالنے سے پاک-ایران تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اسے دیکھنا پڑے گا۔تہمینہ جنجوعہ نے اس موقع پر تسلیم کیا کہ ایران سے تعلقات میں توازن ضروری ہے کیونکہ ایران ہمسایہ مسلم برادر ملک ہے۔سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی-ایران تعلقات مشکلات کا شکار ہیں تاہم پاکستان کشیدگی کم کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔اسلامی فوجی اتحاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ عمان 41 واں ملک ہے جس نے اسلامی اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے اور عمان وہ ملک ہے جس کے پاکستان کی طرح ایران اور سعودی عرب سے بھی انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔
نومبر 2016 میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے مسلسل یہ بات زیر بحث رہی کہ وہ اسلامی اتحاد کی اس فوج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالیں گے، ابتدامیں سرکاری سطح پر کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی، تاہم گزشتہ ماہ کے آخر میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کو مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بنانے پر اصولی طور پر اتفاق ہوگیا۔
پاکستان کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور ماضی میں تہران اور ریاض کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے بھی پاکستانی قیادت کی طرف سے کوشش کی گئی تھی۔اْدھر پاکستان میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی ایک تنظیم ’’مجلس وحدت المسلمین‘‘ کے ایک رہنما علامہ امین شہیدی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سعودی قیادت میں بننے والے عسکری اتحاد کے خدوخال تاحال واضح نہیں، اس لیے اْن کے بقول جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو اس اتحاد کی کمان نہیں سنبھالنی چاہیے۔’’جس اتحاد کی شکل، ہیت، کام کرنے کے اسلوب و طریقہ کار اور اہداف واضح نہ ہوں اور اس کو نام دیا جائے 39 ممالک کی فوج کا، کیسے کوئی ملک اس میں آنکھ بند کر کے کودے۔‘‘اْن کا کہنا تھا کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ اس اتحاد کی قیادت کرنے والے کے اختیارات کیا ہوں گے۔
پاکستان میں حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف نے بھی سعودی اتحاد میں قائم عسکری اتحاد میں شمولیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے کو پارلیمان کے آئندہ اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔
دسمبر 2015میں سعودی عرب نے لگ بھگ 34 اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا جس کا ایک اہم مقصد دہشت گردی اور خاص طور پر شدت پسند تنظیم داعش کے خطرے سے نمٹنا بتایا گیا۔ اب اس اتحاد میں شامل ممالک کی تعداد 39 بتائی جاتی ہے۔لیکن اس عسکری اتحاد میں سعودی عرب کا حریف ملک ایران اور بعض دیگر شیعہ ریاستیں بشمول عراق و شام شامل نہیں۔
پاکستان میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسا فوجی اتحاد جس میں ایران اور دیگر شیعہ اکثریت والی ریاستیں شامل نہیں ہیں اس میں پاکستان کی شمولیت نہ صرف اسلام آباد اور تہران کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ پاکستان کی طرف سے مشرق وسطیٰ سے متعلق معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی پر بھی یہ پیش رفت اثر انداز ہو گی۔تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک کا عسکری اتحاد دہشت گرد کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے اور اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف عالمی کوشش کا حامی رہا ہے۔
حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ
نے ایک بیان میں کہا تھا کہ راحیل شریف بطور کمانڈر تمام مسلمان ممالک کو قریب لانے کا ذریعہ بنیں گے۔ تاہم ایسا معلوم ہوتاہے کہ تہمینہ جنجوعہ اور خواجہ آصف کے بیانات کے باوجود بد اعتمادی کی دھول آسانی سے نہیں بیٹھے گی ،اور اس حوالے سے غلط فہمیوں کا تدارک مستقبل قریب میں اس اتحادی فوج کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کی سمت دیکھ کر ہی ہوسکے گا۔