حکمت یارکی افغان افق پر واپسی کابل میں استقبالیہ جلسے نے دنیا کوحیران کردیا

ایک سال قبل مفاہمتی عمل اسلام آباد سے ہوا،افغان سفیر۔ افغان مصالحتی عمل کی ایک بڑی کامیابی کا آغازپاکستان سے ہوناخو ش آئند ہے ،تجزیہ کار‘ حکمت یار پاکستان سے جتنے بھی نالاں ہوں کم از کم بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے ،ان کابھارت سے متعلق خصوصا کشمیر پر موقف کافی سخت رہا ہے

افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور کافی عرصے سے زیر زمین رہنے والے جنگجو رہنماگلبدین حکمت یار نے گزشتہ دنوں کابل میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے افغانستان کے موجودہ نظام پر عدم اطمینان کا بھی اظہار کیا، گلبدین حکمت یار کے لیے منعقدہ تقریب میں تمام سیاسی قیادت نے شرکت کی۔کابل میں صدارتی محل میں وہ بڑی عزت اور احترام کے ساتھ داخل ہوئے،اس موقع پر انہیں دیکھ کر ایک تبصرہ نگار نے کہا کہ تقریبًا 70 سالہ حکمت یار ’کافی تازہ دم دکھائی دے رہے تھے۔ شایدوہ کسی اچھی جگہ روپوشی کے9سال گزار کر آئے ہیں۔‘ اگرچہ اس مدت کے دوران ان کے رشتہ دار اور تنظیمی اراکین اسلام آباد میں کافی عرصہ سے مقیم ہیں اورگلبدین حکمت یار اور افغان حکام کے درمیان مفاہمت کی بات چیت جس کے نتیجے میں انھیں انتہائی عزت واحترام کے ساتھ کابل کے صدارتی محل میں آنے کا موقع ملا یقیناً بات ان کے ان رشتہ داروں یا جماعت کے ساتھیوں ہی کے ذریعے شروع ہوئی ہوگی۔ لیکن حکمت یار خود کہاں رہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں تک حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ ان کی حیثیت کسی آگ لگی پتلون جیسی ہے جسے اتار دیں تو انسان ننگا ہو جائے گا اور نہ اتاریں تو اس سے زیادہ نقصان اٹھائے گا۔ فی الحال کابل حکام نے بظاہر یہ پتلون پہنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔گلبدین حکمت یار اتنا طویل عرصہ کہاں تھے کسی کو نہیں معلوم لیکن ان کی واپسی کا سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہوا۔ اس کا اعلان پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر ذاخلوال نے ایک ٹویٹ میں کیا۔ ان کا حکمت یار کی کابل میںموجودگی کے بارے میں کہنا تھا کہ اس عمل کا آغاز ایک برس قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ایک مختصر گفتگو سے ہوا تھا۔ یعنی افغان مصالحتی عمل کی ایک بڑی کامیابی کا آغاز یقینا پاکستان سے ہوا۔صدارتی محل میں ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے آغاز میں گلبدین حکمت یار نے روایت سے ہٹ کر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ معمول کے مطابق اپنے خطاب کا آغاز اپنے میزبانوں جیسا کہ افغان صدر اور دیگر اہم شخصیات کے نام لے کر نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ انہوں نے نہیں بتائی لیکن بظاہر لگتا ہے کہ افغان صدر کو مخاطب نہ کرکے انھوں نے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ نظام سے وہ مطمئن نہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ افغان لویہ جرگہ میں افغانستان کے لیے ‘اصل اسلامی آئین’ پیش کریں گے۔
سوویت یونین کے خلاف جدوجہد میں حکمت یار کے پاکستان، سعودی عرب اور امریکا سے تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایک منظم گروپ ہونے کی وجہ سے حزب اسلامی کو ایک وقت میں سب سے زیادہ عسکری امداد دی جاتی تھی۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کو ایک مرتبہ حکمت یار کو یہ دھمکی دینی پڑی تھی کہ انھیں بنانے والے وہ ہیں لہذا وہ انہیں گرا بھی سکتے ہیں۔ لیکن جب 90 کی دہائی میں اقتدار میں طاقت کے زور پر آنے کے باوجود حکمت یار کم از کم پشتونوں کے دل نہیں جیت سکے تو پاکستان نے منہ طالبان کی جانب موڑ لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تعلقات کی خرابی کے باعث انہیں ایران میں 6 سال تک پناہ لینی پڑی تھی۔ لیکن 2002 میں ایران کی جانب سے انہیں ملک سے نکالے جانے کے بعدوہ کہاں منتقل ہوئے یہ واضح نہیں ہوا لیکن یہ بات واضح ہے کہ انھوں نے پاکستان سے تعلق کبھی بھی مکمل طور پر نہیں توڑا تھا۔
عسکری طور پر تو حکمت یار کی کامیابیاں کوئی زیادہ قابل ذکر نہیں لیکن سیاسی طور پر ان کی جماعت کافی منظم رہی اور اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کی بڑی مثال کابل میں جمعے کے ایک بڑے اجتماع سے ان کا خطاب ہے۔ ہزاروں افراد کی جلسے میں شرکت نے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے۔ اس کی وجہ شاید طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کسی مضبوط افغان پارٹی کا سامنے نہ آنا ہے۔ کئی امریکی اب یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ شاید 2001 میں طالبان کے جانے کے بعد اْنہوں نے شخصیتوں یا جنگی سرداروں کے بجائے اگر سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی ہوتی تو آج افغانستان میں جمہوریت کی حالت قدرے بہتر ہوتی۔
حزب اسلامی کافی ہوشیار ثابت ہوئی۔ جنگی میدان میں موجودگی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے سیاسی میدان میں اپنی فعالیت بھی برقرار رکھی۔ ان کی جماعت ایک ایسی افغان جماعت ہے جو نسلی بنیادوں پر قائم نہیں بلکہ اس میں تاجک بھی ہیں اور ازبک بھی۔ مذہبی طور پر بھی اس میں بامیان کے شیعہ بھی شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے بقول ان کی جماعت کا تعلق ‘گراس روٹ’ سے ہے۔ حکمت یار کے انٹیلی جنس سربراہ وحدی اللہ صباون نے 2002 سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ خالد فاروقی اور عبدالہادی ارغندوال جیسے رہنماؤں نے اسے کابل میں مستحکم کیا اور بعد میں کابینہ کا حصہ بھی بنے۔
پاکستان کے لیے حکمت یار کی نموداری کیا معنی رکھتی ہے، اس حوالے سے صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ان کا دوبارہ افق پر آنا مثبت ثابت ہوسکتا ہے۔ ‘پاکستان سے ان کا اب کوئی تعلق ہے یا نہیں اس سے قطع نظر حکمت یار کابھارت سے متعلق خصوصا کشمیر پر ماضی میں موقف کافی سخت ثابت ہوا ہے۔ وہ پاکستان سے جتنے بھی نالاں ہوں کم از کم بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے۔لیکن خیال یہ ہے کہ اس نئے سیاسی منظرنامے میں بھارت بھی ان سے رابطے اور تعلق بنانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ فی الحال پاکستان کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ گھر پر بھی احسان اللہ احسان جیسے بدھو واپس لوٹ رہے ہیں اور سرحد پار بھی۔
ابن عماد بن عزیز