دہشت گردوں کی سرپرستی،افغان سفارتکار جی ایچ کیو طلب

پاکستان میں خودکش حملوں کا تازہ سلسلہ7 فروری کو بنوں سے شروع ہواتھا۔ پاکستانی حکام کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار کی دہشت گردی کی کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس کے خلاف پاکستان نے افغانستان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔گزشتہ 15 روز پاکستان پر بہت گراں گزرے ہیں، اس دوران ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک متعدد شہروں میں تواتر کے ساتھ کئی دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں کافی جانی نقصان ہو چکا ہے، جب کہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں بیشتر کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ لاہور میں ہونے والے خودکش دھماکے کی وجہ سے ابھی فضا سوگوار تھی کہ 16 فروری کو دہشت گردوں نے سہون شریف میں قلندر شہبار کے مزار کو نشانہ بنایا، جس میں 80 سے زائد زائرین جاں بحق ہوئے، جب کہ مزید 200 زخمی ہیں، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔صوفی درگاہوں پر حملہ اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ پچھلے سال نومبر کی 12 تاریخ کو بلوچستان کے شہر لسبیلہ میں معروف صوفی درگاہ شاہ نورانی پر خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں 52 زائرین جاں بحق جب کہ 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔پاکستانی حکام کے مطابق قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے، جس سے اْن علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی پاکستانی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار کی دہشت گرد کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جب کہ بتایا جاتا ہے صوبہ خراسان کی داعش بھی سر اٹھا رہی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ 2ہفتے کے دوران ہونے والے تمام دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کے ڈانڈے کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان سے ملتے ہیں اور یہ ثابت ہوتاہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے گروہ پاکستان میں داخل ہوکر اس طرح کی کارروائیاں کررہے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ جمعرات کو لعل شہبازقلندر کے مزار پر ہونے والا خود کش دھماکا جس میں کم وبیش 100 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں،اس کے بعد پاکستان کی فوج نے افغان سفارت خانے کے عہدیداروں کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر(جی ایچ کیو) میں بلا کر اْن سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر چھپے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغان سفارت خانے کے عہدیداروں کو اس طرح فوج کے صدر دفتر میں بلانا بظاہر ایک غیر معمولی اقدام ہے کیوں کہ عموماً احتجاج یا اس طرح کے پیغام کے لیے سفارت کاروں کو وزارت خارجہ بلایا جاتا ہے۔فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جمعہ کو ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ افغان عہدیداروں کو 76 ایسے دہشت گردوں کی فہرست فراہم کی گئی جو افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔پیغام کے مطابق ان دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی اور اْنھیں پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔فوج کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن افغان عہدیداروں کو ’جی ایچ کیو‘ بلایا گیا۔تاحال افغانستان کی طرف سے اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ خودکش حملوں کا یہ تازہ سلسلہ7 فروری کو بنوں سے شروع ہوا، جب ایک خودکش بمبار نے پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ضلع بنوں میں منڈان پولیس تھانے کی بیرونی دیوار سے بارود بھری گاڑی ٹکرا دی گئی۔ بنوں میں ہونے والے حملے میں تھانے کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچا۔ واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ صوبہ خیبر پختون خواکی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیا جو ابھی جاری ہے۔13فروری کو لاہور کے دھماکے میں دو پولیس اہل کار سمیت 13 افرادجاں بحق ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کے قریب ہونے والے اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں لاہور ٹریفک پولیس کے ڈی آئی جی کیپٹن (ریٹائرڈ) احمد مبین اور سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس زاہد گوندل شامل تھے۔15 فروری کو پشاور میں موٹر سائیکل پر سوار خودکش حملہ آور نے ایک سرکاری گاڑی کو نشانہ بنایا۔ واقعے کا ہدف سول جج تھے، جس میں ایک فرد ہلاک اور تین خواتین زخمی ہوئیں۔اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تحریک جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔اْسی روز قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں لیویز فورس کے تین اہل کار سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔ قبائلی انتظامیہ کے مطابق دو خودکش حملہ آوروں نے مرکزی قصبے غلنئی میں پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر پر حملے کی کوشش کی تھی۔ ادھر پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق بروقت کارروائی کرکے مہمند ایجنسی میں بدھ کو دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا گیا۔ادھر15 فروری کو مظفرآباد میں مبینہ طور پر موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے شیعہ تنظیم وحدت المسلمین کے آزاد کشمیر کے سکریٹری جنرل علامہ تصور الجوادی اور اْن کی اہلیہ پر گولی چلائی ، واقعے میں دونوں زخمی ہوئے۔16 فروری کو قلندر شہباز کے مزار پر حملے کے علاوہ پاکستان کے مزید دو شہروں میں خودکش حملے ہوئے، جن میں بلوچستان کے ضلع آواران کی تحصیل جھائومیں بم دھماکا شامل ہے، جس میں تین فوجی جاں بحق ہوئے۔ جمعرات ہی کے روزڈیرہ غازی خان میں دھماکا ہوا۔صوبہ پنجاب کے شہر خانیوال سے موصولہ خبر کے مطابق سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں چھ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ملک کی سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں ملک بھر میں ’’دہشت گردوں اور اْن کے معاونین کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرنے کے عزم کا اظہار‘‘ کیا گیا ہے، جب کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے یہ بیان آچکا ہے کہ ’’سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو ضائع نہیں ہونے دے گی‘‘۔وائس آف امریکا کو دیے گئے ایک انٹرویو میںخیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ’’پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کا نظام نافذ کیا گیا ہے، جس سے آمد و رفت کی چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغانستان سے جماعت الاحرار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان میں جماعت الاحرار کی پناہ گاہوں سے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں‘‘۔ادھر پاکستان میں تعینات افغان سفیر حضرت عمر زخیل وال نے لاہور اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ اْن کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغان سرحد کے قریب اپنے قبائلی علاقوں میں جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تو اْس میں تمام عسکریت پسند نہیں مارے گئے بلکہ اْن میں سے کچھ افغانستان کے اْن علاقوں میں منتقل ہوگئے جو کابل حکومت کے زیر کنٹرول نہیں ہیں۔