فلسطین اسرائیل تنازع پر ثالثی کی روسی پیشکش

شام میں ایران کی موجودگی پرراضی کرنے کیلیے روس نے پتا پھینک دیا،مغربی بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر پر آمادگی اسرائیل نے روس کو صاف بتادیاتھا کہ وہ شام میں ایران کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتاہے جسے تادیر برداشت نہیں کیا جائے گا ماسکومغربی بیت المقدس کو اب تک اسرائیل کادارالحکومت تسلیم نہیں کرتا، اسی لیے اس کا سفارت خانہ تل ابیب میں قائم ہے

روس نے اسرائیلی رہنمائوں کو پیشکش کی ہے کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے پر تیار ہوجائے توروس مغربی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلے گا ، یہ پیشکش گزشتہ دنوں شام پر امریکا کے اندھادھند میزائل حملوں کے بعد سامنے آئی ہے۔ اسرائیل، سعودی عرب اور برطانیہ نے جس کی حمایت اور روس وایران سمیت کئی ممالک نے جس کی مذمت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق روس نے اسرائیلی رہنمائوں کو فلسطین کا مسئلہ حل کرانے میں مدد دینے، فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے اور مشرقی بیت المقدس کو فلسطینیوںاور مغربی بیت المقدس کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کی پیشکش کے علاوہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پرامن بقائے باہمی کامعاہدہ کرانے کی بھی پیشکش کی ہے تاکہ دونوں ہی فریق جنگ اور کشیدگی سے پاک ماحول میں زندگی گزار سکیں اور ماضی کوفراموش کرکے اپنی بقا اورترقی کی راہ خود پیدا کرسکیں۔
اطلاعات کے مطابق شام جنگ میں ایران کی دلچسپی اور شام کی حکومت کی حمایت پراسرائیل میں بے چینی پائی جاتی ہے اور اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے روس کے صدر پوٹن کو صاف صاف بتادیاہے کہ اسرائیل شام میں ایران کی مستقل موجودگی کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتاہے اور وہ اسے تادیر برداشت نہیں کرے گا،اطلاعات کے مطابق روسی رہنمائوں نے نیتن یاہو کے اس انتباہ اور شام میں ایران کی موجودگی کے حوالے سے ان کی جانب سے ظاہر کردہ تشویش کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کاامن معاہدہ کرانے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی اورروس کی وزارت خارجہ نے سرکاری طورپر ایک بیان جاری کرکے یہ پیشکش کی کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کے لیے تیار ہوجائے تو روس بیت المقدس کے مغربی علاقے کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کو تیار ہے۔
روس کی وزارت خارجہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کواس کی پالیسی میں اہم اور حیران کن تبدیلی کے طورپر دیکھا جارہاہے۔ اگرچہ اس سے قبل بھی روس کا موقف یہی رہاہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کسی بھی امن معاہدے میں مشرقی بیت المقدس کو فلسطینیوں کا دارالحکومت تسلیم کیاجانا چاہئے لیکن روس نے اس حوالے سے کبھی مغربی بیت المقدس کے بارے میں کسی پالیسی کااظہار نہیں کیاتھا۔ روس مغربی بیت المقدس کو اب تک اسرائیل کادارالحکومت تسلیم نہیں کرتا اور اسرائیل میں روس کا سفارت خانہ بیت المقدس میں نہیں بلکہ تل ابیب میں قائم ہے۔
روس کی پالیسی یا موقف میں یہ تبدیلی روس کی جانب سے حال ہی میں اسرائیلی کابینہ کے اس فیصلے کی مذمت کے بعد سامنے آئی ہے جس میں ایمونا کی غیر قانونی چوکی سے بیدخل کئے گئے یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے نئی بستیاں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیاگیاتھا۔
روس کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ روس کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری تنازع اور کشیدگی کے ماحول اور اس حوالے سے کسی طرح کے مذاکرات اور بات چیت نہ ہونے پر شدید تشویش ہے کیونکہ اس سے خطے میں حالات بگڑتے ہی جارہے ہیںاور صورت حال بد سے بدتر شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہاگیاتھا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے عمل میں جمود کی وجہ سے مختلف ممالک کی جانب سے یکطرفہ اقدامات کی راہ کھل گئی ہے جس سے صورتحال میں بہتری کے بجائے مزید ابتری پیدا ہورہی ہے۔ اس سے فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل کامنصوبہ جسے پوری دنیا نے منظور کیاہے متاثر ہورہاہے۔روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہاگیاہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی پرامن پڑوسیوں کی طرح امن و سلامتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں،روس اقوام متحدہ کی منظور کردہ اسرائیلی اور فلسطینی ریاستوں کے نظریئے کی پوری طرح حمایت کرتاہے ،بیان میں کہاگیاہے کہ اس کے ساتھ ہی ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں ہم مشرقی بیت المقدس کو فلسطینیوں کادارالحکومت تسلیم کرتے ہیں وہیں امن معاہدے کی صورت میں مغربی بیت المقدس کو اسرائیل کادارالحکومت بھی تسلیم کرلیں گے۔تاہم فلسطینیوں اور اسرائیل کو اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے براہ راست مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے اور روس اس حوالے سے ہر ممکن معاونت کرنے کو تیار ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ کی ترجمان ایمانوئل ناہشون سے جب روس کی اس پیشکش کے حوالے سے تبصرہ کرنے کوکہاگیاتو انھوں نے فوری طورپر اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکام روس کی اس پیشکش کاجائزہ لے رہے ہیں جس کے بعد ہی اس پر کوئی تبصرہ کرنا یا رائے دینا ممکن ہوسکے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدہ کرانے کے حوالے سے روس کی اس بظاہر مخلصانہ پیشکش پر اسرائیلی حکام کیاردعمل ظاہر کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی وزارت خارجہ کے حکام روس کی اس پیش رفت کے کیامطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔