دھرنے کے دوران پولیس اہلکار 32 کروڑ 60 لاکھ روپے ہضم کرگئے

اسلام آباد میں 2014ء میں ہونے والا دھرنا ابھی تک کسی کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ ہر روز اس حوالے سے کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے۔ تازہ ترین معاملہ اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے سرکاری اخراجات میں ہونے والے گھپلوں سے متعلق ہے۔آڈیٹرز نے پولیس کے حسابات کی جانچ پڑتال کے دوران اخراجات میں سنگین گھپلوں کا پتہ چلایا ہے۔آڈیٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں 2014 میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران اسلام آباد پولیس حکام نے پولیس اہلکاروں کو کھانے کی فراہمی کی مدمیں 32 کروڑ 60 لاکھ روپے کاخرچ دکھادیا۔آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں محکمہ پولیس کی جانب سے فنڈز میں گھپلوں پر سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں ۔پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی آڈیٹر جنرل کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ اسلام آباد پولیس نے اسلام آباد میں 2014 میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران مجموعی طورپر 69کروڑ54 لاکھ روپے خرچ کیے۔ یہ رقم اسلام آباد پولیس کو سپلیمنٹری گرانٹ کے طور پر فراہم کی گئی تھی۔رپورٹ کے مطابق اسلام آباد پولیس نے سپلیمنٹری گرانٹ کے طورپر ملنے والی اس رقم کا کیش بک میں اندراج نہیں کیااور اس کے اخراجات کا مناسب طورپر حساب بھی نہیں رکھاگیا۔اس طرح پولیس نے وفاقی خزانہ کے قواعد وضوابط کی کھلی خلاف ورزی کی ۔ اسلام آباد پولیس نے اس رقم کے حوالے سے اخراجات کے لیے جاری کیے جانے والے چیک کا بھی کوئی اندراج نہیں کیا اور نہ ہی اس حوالے سے کی جانے والی ادائیگیوں پر انکم ٹیکس کی کٹوتی کاکوئی حساب کتاب رکھا گیاہے۔
آڈٹ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کیش بک میں کوئی اندراج نہ کیے جانے اور اس حوالے سے جاری کیے گئے چیک وغیرہ کا کوئی حوالہ نہ ہونے کی وجہ سے گرانٹ میں پولیس کو ملنے والی پورے 69کروڑ54 لاکھ روپے کاخرچ مشکوک ہوگیاہے ،ناقدین کا کہناہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ دھرنے کے دوران آنے والے اخراجات کسی اور مد سے پورے کرکے یہ پوری رقم خورد برد کرلی گئی ہے۔آڈٹ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ اسلام آبا د پولیس حکام نے اس رقم میں سے پولیس اہلکاروں کو کھانے کی فراہمی کی مدمیں 32 کروڑ 60 لاکھ روپے کاخرچ دکھا یا ہے لیکن ان اخراجات کے حوالے سے بھی کوئی ایسا دستاویزی ثبوت نہیں ہے جس سے ان اخراجات کی تفصیل چیک کی جاسکے۔آڈیٹرز نے یہ بھی پتہ چلایا ہے کہ پولیس حکام نے پولیس اہلکاروں کو کھانے کی فراہمی کے لیے 16 اداروں کو ٹھیکہ دیاتھا لیکن یہ ٹھیکہ کھلے ٹینڈر طلب کرکے نہیں دیاگیا۔بلکہ پولیس حکام نے اپنے من پسند اداروں کو ٹھیکہ دیا اور دیگر افسران کا منہ بند رکھنے کے لیے ان کے من پسند اداروں کو بھی ٹھیکے میں شامل کرلیاگیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس کام کاٹھیکہ کسی ایک یا دو فرمز کودینے کے بجائے 16 اداروں کودیاگیاتاکہ کوئی متعلقہ افسر ناراض نہ ہواور اسے اس میں حصہ نہ ملنے کاشکوہ نہ رہے۔اس حوالے سے ٹھیکیداروں کو ادائی کا طریقۂ کار بھی پراسرار رکھا گیا اور ٹھیکیداروں کو ادائی چیک کے ذریعہ کرنے کے بجائے کیش کی گئی اور رقم کی ادائی اور وصولی کی کسی مجاز افسر سے تصدیق کرانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔آڈیٹرز نے اس طرح کے اخراجات کو غیر قانونی اور خلاف ضابطہ قرار دیاہے۔
پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی آڈیٹرز کی رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ دھرنے کے دوران پولیس افسران نے سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کے بجائے کرائے پر گاڑیاں حاصل کیں اور ان گاڑیوں کے کرائے کے طورپر 10 کروڑ 15 لاکھ روپے ادا کردیے گئے،گاڑیاں کرائے پر حاصل کرنے کے حوالے سے مروجہ قانون اور اصولوں پر عمل نہیں کیاگیا اس طرح یہ اخراجات بھی خلاف ضابطہ اور ناجائز تصور کیے جائیں گے۔
رپورٹ میں کہاگیاہے کہ محکمہ پولیس نے کھانا فراہم کرنے والے اداروں کو کی جانے والی ادائیگیوں پر ایکسائز اور انکم ٹیکس واضح نہیں کیا اور اس طرح سرکاری خزانے کو مجموعی طورپر 2 کروڑ18 لاکھ روپے کانقصان پہنچایاگیا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اخراجات میں اس طرح کی گڑ بڑ کی تفصیلی انکوائری کرکے ذمہ دار افسران کا تعین کیاجانا چاہئے اور ان سے سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرائی جانی چاہئے تاکہ آئندہ اس طرح کے گھپلوں کاامکان کم ہوجائے ۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ یہ رقم متعلقہ افسران سے وصول کرکے سرکاری خزانے میں ہرحال میں جمع کرائی جانی چاہئے۔
آڈیٹرجنرل کی رپورٹ میں دھرنے کے دوران دوسرے شہروں سے طلب کیے گئے پولیس افسران کی رہائش کے لیے ہوٹل کے کمرے حاصل کرنے اور ان کے حوالے سے ادائیگیوں میں بھی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے،اس کے علاوہ آڈیٹرز کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیاہے کہ اسلام آباد پولیس نے دھرنے کے دوران پولیس اہلکاروں کے لیے خیمے لگانے کاٹھیکہ پتھر توڑنے اور ریت سپلائی کرنے والے ایک ادارے کو دیا اور اس ادارے کو اس مد میں 11 لاکھ 90 ہزار روپے کی ادائیگی کردی گئی ،آڈیٹر جنرل اس ادائیگی کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے اس کی بھی انکوائری کرانے کی ہدایت کی ہے ،رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ پولیس نے ایک فرم کو کنٹینر فراہم کرنے کے لیے بھی 24 لاکھ روپے ادا کردئے یہ کنٹینر ز اگست میں حاصل کیے گئے تھے جبکہ اس کے ٹینڈر 10 نومبر کو طلب کیے گئے ، اس حوالے حاصل کیے گئے کنٹینرز کی کسی تعداد کا کوئی ذکرنہیں ہے جس سے معلوم ہوسکے کے مجموعی طورپر کتنے کنٹینر کتنے دن کے لیے حاصل کیے گئے تھے اور ان کاکرایہ کس حساب سے ادا کیاگیا،کنٹینرز کے حصول کے لیے ٹینڈر دھرنے کے تین ماہ بعد محض خانہ پری کے لیے طلب کیے گئے اور اس طرح اس مد میں ادائیگیوں کاکوئی باقاعدہ حساب کتاب موجود نہیں ہے ۔آڈیٹرز جنرل کی رپورٹ میں لکھا گیاہے کہ پولیس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں بے قاعدگی اور قانون کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ آڈیٹرز کی یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے باوجود ابھی تک حکومت نے اس حوالے سے ہونے والی مبینہ خورد برد کے خلاف ابھی تک کسی کارروائی کاآغاز نہیں کیاہے جس سے اس شبہ کوتقویت ملتی ہے کہ دیگر محکموں کی خورد برد کی طرح اس معاملے کو بھی خاموشی سے دبانے کی تیاری کی جارہی ہے۔