مغربی ممالک میں پھوٹ امریکا وبرطانیہ ناقابل بھروسہ قرار دے دیے گئے


امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ہی سے مغربی ممالک کے درمیان سنگین نوعیت کے اختلافات سر اٹھارہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سراقتدار آنے کے بعد یورپی ممالک پر نیٹو کے لیے رقم کی فراہمی میں اضافے کے بعد ہی سے یورپی ممالک امریکا سے ناراض نظر آرہے تھے اور نیٹو میں بھی ان کی دلچسپی کم ہوتی نظر آرہی تھی ،جبکہ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے نے پہلے ہی یورپی یونین کے دیگر ممالک کو پریشانی میں مبتلا کردیاتھا کیونکہ اب تک برطانیہ یورپی یونین کا وہ واحد ملک تھا جو ان تمام ممالک اور ان کے عوام کی خبر گیری کے فرائض احسن طورپر انجام دے سکتاتھا اور ایسا کر بھی رہاتھا جس کی وجہ سے غریب یورپی ممالک کے لوگ غول درغول بہتر مستقبل کی آس میں برطانیہ کا رخ کررہے تھے ۔اس کے علاوہ برطانیہ عالمی فورمز پر بھی یورپی یونین کی بھرپور انداز میں ترجمانی کے فرائض بھی ادا کرتاتھا اور یہ برطانیہ ہی تھا جس کی موجودگی اور فعال کردار کی وجہ سے امریکا یورپی یونین میں شامل دیگر ممالک پر زیادہ اثر انداز ہونے کی کوشش سے گریز کرتاتھا لیکن برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد منظر نامہ بالکل ہی تبدیل ہوکر رہ گیاہے ،خاص طورپر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے منظر ہی تبدیل کرکے رکھ دیاہے ، ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی یورپی ممالک کو جس طرح جھاڑ پلانا شروع کی ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امریکا یورپی ممالک کو اپنا طفیلی بنا کر رکھنا چاہتاہے۔
اس سنگین صورت حال میں یورپی ممالک کی نظریں اپنی برادری کے دو ہی ملکوں پر ٹھہرتی ہیں ایک فرانس اور دوسرے جرمنی ،کیونکہ برطانیہ کے بعد یورپ میں یہی دو ملک ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور فوجی اور مالی اعتبار سے اتنے مستحکم ہیں کہ دیگر چھوٹے یورپی ممالک کو چھوٹے موٹے بحرانوں سے نجات دلاسکتے ہیں۔فرانس میں صدارتی انتخاب میں میخرون کی کامیابی کے بعد اب فرانس کا رجحان بھی یورپی یونین سے علیحدگی کی جانب نظر آرہاہے ایسے میں ایک جرمنی رہ گیاہے جو مضبوط یورپی یونین کاحامی ہے اور یورپی یونین کے غریب ممالک کو سہارا فراہم کرنے کی کسی حد تک صلاحیت بھی رکھتاہے۔
جرمنی کی موجودہ چانسلر کو اس حوالے سے انتہائی بے باک اور منہ پھٹ کی حد تک لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے والی رہنما تصور کیاجاتاہے ،گزشتہ دنوںایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جرمنی کے عوام کو متنبہ کیاکہ وہ اپنے ووٹ کااستعمال انتہائی سوچ سمجھ کر کریں اور یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ اب دوسروں پر تکیہ کرنے کا وقت ختم ہوچکاہے،اب مغربی ممالک یورپی یونین کے مسئلے پر تقسیم ہوچکے ہیں ، اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آچکے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہیں،انہوں نے کہا کہ جرمنی کے عوام کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ برطانیہ اور امریکا دونوں ہی ناقابل بھروسہ ہیں ان پر کسی طرح کا اعتماد اور بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے اب یورپی عوام کو اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنا ہوں گے اور اپنی قسمت خود اپنے ہاتھ میں لے کر اچھے برے فیصلے کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اب برطانیہ اور امریکا کے ساتھ جرمنی کے تعلقات کا انحصار مناسب اور قابل قبول شرائط پر ہوگا اور ان تعلقات کے باوجود ہمیں اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے، ہمیں کسی کے اشارے پر یا کسی سے تعلقات کی بنیادپر اس کے فیصلے قبول کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اب جرمنی کو کلائمیٹ چینج یعنی آلودگی کے مسئلے پر بھی امریکا اور دیگر 6 بڑے صنعتی ممالک سے تنہا ہی بات کرنا ہوگی کیونکہ اس مسئلے پر کوئی واضح اور ٹھوس معاہدے کے بغیر ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا ایک ساتھ آگے چلنا آسان نہیں ہوگا ، انجیلا مرکل نے اس موقع پر یہ بھی واضح کردیا کہ تنہا جرمنی کے لیے امریکا اوردیگر 6 بڑے صنعتی ممالک سے تنہا بات کرنا آسان نہیں ہوگا ایسا اسی وقت ہوسکتاہے جب جرمنی کی حکومت کو اپنے عوام کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی حاصل ہو۔
اگرچہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی ممالک کے ساتھ اپنی بات چیت کو حوصلہ افزا، نتیجہ خیز اور مفید قرار دیاہے لیکن آلودگی کے اخراج سے متعلق معاہدے پر امریکا کے قائم رہنے کے حوالے سے انہوں نے ابھی تک کوئی مثبت بات نہیں کی ہے۔ گزشتہ دنوں ٹوئٹر پر انہوںنے لکھاتھا کہ وہ بہت جلد یہ ظاہر کردیں گے کہ امریکا آلودگی کے اخراج سے متعلق معاہدے پر قائم رہنا چاہتاہے یا نہیں ۔ اس کے برعکس وہ نیٹو کے اتحادی ممالک پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے اور نیٹوکے اخراجات کے لیے مناسب رقم ادا نہ کرنے کے مسلسل الزامات عاید کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کررہے ہیں کہ امریکا اب نیٹو کے اخراجات کے لیے اپنی حد سے زیادہ رقم ادا نہیں کرے گا۔اس لیے دیگر یورپی اتحادیوں کو یہ ادارہ قائم رکھنے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے اپنے حصے کی رقم ادا کرنا ہوگی۔یہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ اب نیٹو کے قیام کے لیے تیار کیے جانے والے منشور کی دفعہ 5 کا تذکرہ کرنے سے گریز کررہے ہیں جس میں واضح کیاگیاہے کہ نیٹو کے کسی بھی رکن پر حملے کی صورت میں نیٹو کی فوج اس کا دفاع کرے گی،ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویے سے یورپی ممالک میں امریکا کے حوالے سے بد اعتمادی کو فروغ مل رہاہے اور اس کے نتیجے میں مغربی ممالک کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے ۔اگر اس موقع پر جرمنی کے انتخابات میں انجیلا مرکل کامیابی حاصل نہیں کرپاتیں اور فرانس بدستور یورپی یونین سے اپنی راہیں جدا کرنے کی سوچ پر عمل پیرا رہا تو یورپی یونین کا وجود ختم ہوکر رہ جائے گا یا پھر یہ اتحاد ایک نمائشی اتحاد بن کر رہ جائے گا ۔
سیاسی مبصرین کاکہناہے کہ یورپی یونین کے ختم ہونے کا سب سے زیادہ نقصان امریکا کو اٹھانا پڑے گا اور اسے یورپی یونین میں شامل ممالک کی مجموعی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا جن کی حمایت کے بل پر وہ مختلف ممالک میں فوجی کارروائیوں کافیصلہ کرتا رہاہے ،جبکہ روس اس صورتحال کافائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا اور وہ چھوٹے یورپی ممالک کو جن میں سے بیشتر خود روس کا ہی حصہ تھے کے دفاع کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے وعدے پر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرسکتا ہے، اس طرح روس ایک دفعہ پھر ایک بڑی طاقت بن کر امریکا کے سامنے کھڑا ہوسکتاہے ،ایسی صورت میں امریکا کے لیے دنیا کی واحد سپر طاقت کی حیثیت سے اپنا وجود منوانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا ،غالبا ً یہی وجہ ہے کہ بعض تجزیہ کار ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کا گورباچوف قرار دے رہے ہیں جو امریکا کو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے برقرار رکھنے کے بجائے اس کی تقسیم کا ذریعہ بن جائیں گے اور اس طرح دنیا پر امریکا کے سپر طاقت ہونے کا دبدبہ ختم ہوجائے گا۔
ابن عماد بن عزیز