یورپی یونین سے علیحدگی‘ اسپین اور برطانیہ کے درمیان جبرالٹر”مسئلہ کشمیر“بن گیا


جب سے برطانیہ نے بریگزٹ کے لیے یورپی یونین کے سربراہ ڈونلڈ ڈسک کو خط لکھ کریورپی یونین سے علیحدگی کی کارروائی کاباقاعدہ آغاز کیا ہے۔ اسپین نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جبرالٹر پر ایک دفعہ پھر اپنا دعویٰ دہرانا شروع کردیاہے اس طرح جبرالٹرپراب ایک نیا قضیہ سر اٹھا رہا ہے۔اب یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ایک چھوٹے سے پہاڑ کی وجہ سے دوملکوں کے درمیان جن میں ایک کاشمار دنیا کی ایک بڑی طاقت میں ہوتاہے اتنی کشیدگی کیوں ہے اور یہ چھوٹا سا پہاڑ اتنا اہم کیوں ہے؟
اسی طرح یہ سوال بھی اہمیت رکھتاہے کہ آخر جبرالٹر ’برطانوی‘ کیوں ہے؟اسپین کے جنوب میں واقع جبرالٹر(جبل الطارق) پر 711 سے لے کر 1462 تک مسلمانوں کی حکمرانی قائم رہی ۔ اس کے بعد باہمی تنازعات کے سبب جب مسلمان حکمران کمزور پڑے تو ا سپین نے اس علاقے پراپنی حکمرانی قائم کرلی۔ بعد ازاں1704 میں اینگلو ڈچ فوج نے اسے ا سپین سے چھین لیا لیکن9 سال بعد یعنی 1713 میں یہ برطانیہ میں شامل ہو گیا اور اس وقت سے آج تک اسے برطانوی علاقہ ہی تصور کیاجاتاہے۔
جبرالٹر کا رقبہ پانچ اعشاریہ نو کلو میٹر ہے اور اس کی شہرت کی بڑی وجہ اس پرموجود 1300 فٹ بلند چونے کا ایک پہاڑ ہے جسے راک آف جبرالٹر کہتے ہیں۔
اسپین اور جبرالٹر کے باشندے اب خود کو برطانوی شہری ہی تصور کرتے ہیں اور بظاہر برطانیہ کے ساتھ ہی رہنے کے خواہاں ہے ،جبرالٹرکے شہریوں کا موقف ہے کہ جبرالٹر کوا سپین میں تخت نشینی کے تنازع کے بعد برطانیہ نے حاصل کیا تھا۔
برطانیہ کا اب تک یہ موقف رہاہے کہ ایک معاہدے کے تحت ا سپین نے جبرالٹر کو اس کا حصہ بنا دیا تھا۔ برطانیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے زیادہ عرصے تک جبرالٹر پر حکمرانی کی ہے۔اسپین اور برطانیہ دونوں ہی ملک اپنے دعووں کے ثبوت میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہیں۔جبرالٹر جس کی آبادی 32, ہزار افراد پر مشتمل ہے، دعویدار ہے کہ اس کے پاس حقِ خود ارادیت ہے لیکن ا سپین اس بات کوتسلیم کرنے کوتیار نظر نہیں آتاکہ جبرالٹر کے رہنے والے برطانوی شہری ہیں اور انھوں نے 2002 میں 99 فیصد ووٹوں سے اس بات کو مسترد کر دیا تھا کہ جبرالٹر کی خود مختاری مشترکہ طور پر برطانیہ اورا سپین کے پاس ہو۔
اب ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ جبرالٹراتنا اہم کیوں ہے کہ برطانیہ اور اسپین سے کوئی بھی اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے ؟اس سوال کا جواب یہ کہ اگرچہ جبرالٹر بہت چھوٹا سا خط زمین ہے لیکن دفاعی نقطہ نظر سے اپنے محلِ وقوع کے باعث بہت اہم ہے۔ اس کے محل وقوع کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ جبرالٹر افریقہ کے شمالی ساحل سے صرف 12 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے محل وقوع کی اسی اہمیت کے سبب برطانیہ نے یہاں اپنا ایک فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے، یہ اس علاقے کی ایک اہم بندرگاہ ہے اور جہازوں کے اڑنے اور اترنے کے لیے یہاں ایک فضائی پٹی بھی موجود ہے۔
اپنے محل وقوع کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ میں جبرالٹرکو ایک اہم بحری اڈے کی حیثیت حاصل تھی ۔جبرالٹر کا محلِ وقوع تجارتی جہاز رانی، تیل کی ترسیل اور فوج سے متعلق سازوسامان کی منتقلی کے لیے بھی اسے اہم بنا دیتا ہے۔اسپین کا الزام ہے کہ جبرالٹر کارپوریٹ ٹیکس گزاروں کے لیے پناہ گاہ بن گیا ہے کیونکہ یہ کمپنیوں اور مالدار افراد کو بڑی بڑی رقوم کی ادائیگی سے بچاتا ہے۔اگرچہ یہ یورپی اتحاد کا حصہ ہے لیکن جبرالٹر یورپی اتحاد کے باہر سے درآمدات پر اپنے ٹیرف خود مقرر کر سکتا ہے۔
اسپین کی حکومت یہ بھی الزام عاید کرتی رہی ہے کہ جبرالٹر کی سرحد کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے جس سے ا سپین کے وسائل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس میں خاص طور پر سگریٹوں کی ا سمگلنگ ہے۔ جب سے برطانیہ نے یورپی اتحاد کو چھوڑنے کا عمل شروع کیا ہے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یورپی یونین کے مسودے کے مطابق مستقبل میں برطانیہ کے ساتھ جو بھی طے ہوگا وہ اسپین کی مرضی کے بغیر جبرالٹر پر لاگو نہیں ہوگا۔ یعنی سپین کو جبرالٹر پر ایک قسم کا ویٹو مل جائے گا۔
اطلاعات ہیں کہ سپین نے جو یورپی یونین کا رکن ہے، اس شرط کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کافی کوششیں کی ہیں اوراب بھی یورپی ممالک میں لابنگ میں مصروف ہے تاکہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل کر اس اتحاد کوکمزور کرنے کی سزا دی جاسکے۔
جبرالٹر نے الزام عائد کیا ہے کہ ا سپین، بریگزٹ کی آڑ میں اپنے علاقائی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جبرالٹر کے رہنے والے خود کوبرطانوی شہری تصور کرتے ہیںلیکن جبرالٹر کے عوام نے گذشتہ برس جون میں برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے موضوع پر ہونے والے ریفرنڈم کو 96 فیصد کی اکثریت سے مسترد کیا تھا کہ یورپی اتحاد سے علیحدگی کر لی جانی چاہیے۔بعض حلقوں نے برطانیہ پر تنقید کی ہے کہ بریگزٹ کے عمل کے آغاز کے لیے جو خط لکھا گیا اس میں جبرالٹر کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن وزرا کہتے ہیں کہ ایک علیحدہ دستاویز میں اس کا ذکر ہے اور یہ کہ برطانیہ جبرالٹر کے مفادات کے تحفظ کا پابند ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ بورس جانسن کا کہنا ہے ‘جبرالٹر کی خود مختاری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی آئے گی۔’جبکہ اسپین کہتا ہے کہ جبرالٹر کے بارے میں ‘برطانیہ میں تبصروں کا رنگ ڈھنگ’ اس کے لیے حیران کن ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یورپی ممالک اس مسئلے پر کس کے موقف کو اہمیت دیتے ہیں اور جبرالٹر پرکس کے حق کو تسلیم کرتے ہیں،تاہم عام خیال یہ ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے باوجود چونکہ بیشتر یورپی ممالک کے مفادات اب بھی برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہیں اس لئے وہ برطانیہ کی براہ راست مخالفت سے گریز کریں گے جبکہ اسپین کی حکومت یورپی ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ برطانیہ کو یورپی ممالک کو چھوڑ کر جانے کی سزا دینے کا یہ بہترین موقع ہے۔اس لئے انھیں اس مسئلے پر اسپین کا ساتھ دینا چاہئے۔