بھارتی صلاح کاروں پر تکیہ افغان حکام کی ناکامیوں کا ایک اہم سبب


گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان میں جوکچھ ہورہاہے اور طالبان اور داعش کے جنگجو جس طرح افغان فوج پر حاوی ہوتے نظر آرہے ہیں، اس سے ظاہرہوتاہے کہ بھارتی صلاح کاروں پر بھروسہ کرکے اور ان کے مشوروں پر عمل کرکے افغانستان تباہی کی جانب گامزن ہے، اور امریکا کی زیر قیادت اتحادی ممالک نے برسہابرس کی جدوجہد کے بعد جو کامیابیاں حاصل کی تھیں ان کا خاتمہ ہورہاہے۔عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بعض تبصرہ نگار وں کی نظر میں امریکا کے صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی پر فی الوقت زور نہ دینے کی حکمت عملی افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک اچھا فیصلہ ہے۔
اٹلانٹک کونسل نے افغانستان اور امریکی سلامتی کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں یہ سوال اٹھایاہے کہ کیا 11ستمبر2001ء کے حملوں کے 14سال بعد اب بھی افغانستان میں انسانی قربانیوں اور مالیاتی ،سیاسی ،فوجی اور انٹیلی جنس کے لیے سرمایہ کاری کا کوئی جواز باقی ہے؟اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ انسداد دہشتگردی کے لیے مضبوط ومسلسل شراکت اور فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کے تسلسل سے اس خطے سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔اس طویل المیعاد ہمہ جہت اور ہمہ اقسام کی حکمت عملی کے ذریعہ پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے پنجے گاڑنے سے روکنے میں مؤثرطور پر روکا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ خو د افغان حکمراں اس ملک پر اپنی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کریںاور بھارت یاکسی اور ملک کے صلاح کاروں کے مشورے پر آنکھ بند کرکے عمل کرنے کے بجائے خود زمینی حقائق کاجائزہ لے کر اپنی حکمت عملی تیار کریں اور پھر اس پر پوری طرح عملدرآمد کو یقینی بنائیں، افغان حکمرانوں کو اس بات کاجائزہ لینا چاہیے کہ مسلسل آپریشن اور طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کے باوجود ان کی طاقت کیوں نہیں ٹوٹ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ افغان اور امریکی حکومت کے مسلسل آپریشن کے باوجود افغانستان میں طالبان اور داعش کا پھلنا پھولنا اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان کے اندر بلکہ افغان حکومت کے اندر موجود کوئی مضبوط گروپ پس پردہ ان کی مدد اور معاونت کررہاہے اورجب تک اندرونی سطح پر ان کو مدد اور معاونت حاصل رہے گی ان کے خلاف کسی بھی آپریشن اور کارروائی کے مثبت اور مؤثر نتائج سامنے نہیں آسکتے۔ اس حوالے سے پاکستان کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے، جب تک پاکستان میں دہشت گردوںکے خلاف کارروائی دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں تک محدود رہی اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے، لیکن جب پاک فوج نے دہشت گردوں کے مددگاروں ،سہولت کاروںاور معاونین پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا، دہشت گردوں کی سرگرمیاں صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں، اگرچہ پاکستان سے ابھی تک دہشت گردوں کامکمل طورپر خاتمہ نہیں ہواہے اور وہ اب بھی نرم گوشے تلاش کرکے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں،لیکن اب ان کی یہ سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں جن کا جلد خاتمہ ہوجانا یقینی ہے۔
ایک مغربی تجزیہ کار کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی کے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ جنوبی اور مغربی ایشیائی ممالک،چین اوروسط ایشیائی ممالک کے ریاستی نظام کودہشت گردی اور انتہا پسندی سے خطرات لاحق ہیں ۔ان کایہ کہناوقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے کہ اسلامی ممالک کا فرض ہے کہ وہ اس صورتحال کو چیلنج کریں اور انتہاپسندی کامقابلہ کرکے اس کا خاتمہ کریں،سعودی عرب کے شاہ سلمان کی جانب سے امریکا عرب اسلامی کانفرنس کا انعقاد اسی حکمت عملی کا آغاز ہے۔تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت کو اس طرح کام کرنا چاہیے کہ اس کے مثبت اثرات نہ صرف افغان عوام پر ظاہر ہوں بلکہ بین الاقوامی برادری بھی انہیں محسوس کرسکے۔افغان حکومت اپنی ناکامیاں اور خامیاں دوسروں کے سر نہیں تھوپ سکتی اور دوسروں کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتی۔اسے نہ صرف یہ کہ خودکفالت کے حصول کاعمل جاری رکھنا چاہیے بلکہ اسے اس طرح تیز کرنا چاہیے کہ اس ملک میں بین الاقوامی برادری کاکردار بتدریج کم اور بالآخرختم کیاجاسکے۔اس بات کاتعین کہ کیا افغانستان اب بھی امریکا اور بین الاقوامی برادری کی سیاسی ، مالی اور فوجی امداد کامستحق ہے یا نہیں، بہت اہم اور نازک ہے اور اس کاتعین افغان حکومت اور حکمرانوں کی کارکردگی اور قول وعمل کو جانچ کرہی کیاجاسکتاہے۔ امریکا کا اسٹریٹیجک مقصد امریکی افواج کو لڑائی سے نکال کر افغانستان کی سلامتی اور سیکورٹی کی ذمہ داری ،افغان حکومت کے سپر د کردیناتھا۔ گزشتہ کئی سال سے امریکا کے فوجی افغانستان میں انسداد دہشت گردی اور ملک کے تحفظ کے لیے زیادہ ترافغان افواج کے تربیتی اور معاونت کے کاموں میں مصروف تھے۔لیکن افغانستان کے مختلف علاقوں میں فوجی ٹھکانوں اور چیک پوسٹوں پر طالبان اور داعش کے پے درپے حملوں نے یہ ثابت کردیاہے کہ امریکا اپنے مقصد میں یعنی افغان فوج کو افغانستان کی سلامتی اور سیکورٹی کا تحفظ کرنے کے قابل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے۔ طالبان کی جانب سے افغان حکومت پر اب بھی زبردست دبائو ہے اس صورت حال میں اب افغان حکمرانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ اتحادی افواج کی مدد اور تعاون کے بغیر طالبان کے چیلنج کامقابلہ کرسکتے ہیں؟ بدقسمتی سے صورتحال یہ ہے کہ افغان حکومت کی انٹیلی جنس دہشت گردوں کاپتہ چلانے میںبری طرح ناکام رہی ہے ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں موجود بھارتی صلاح کاروں نے انہیں ان کی اصل ذمہ داریوں سے ہٹا کر کسی اور جانب لگا رکھاہے اورافغان انٹیلی جنس کے ارکان بھارتی انٹیلی جنس کے بغل بچوں کی طرح پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔
افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کی حالیہ پے درپے کارروائیوں سے ثابت ہوگیا کہ اگر امریکی افواج فوری طورپر وہاں سے نکل جاتی ہیں تو افغانستان کی سلامتی کو شدید اور سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔فوج امریکی انٹیلی جنس کی صلاحیتوں کو جاری رکھنے کے لیے جو کہ انسداد دہشت گردی اور خود افغان حکومت کے معاملات چلانے کے لیے اہم ہے، انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔حالیہ واقعات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ خطرات بہت زیادہ ہیں اور پورے ملک میںسیکورٹی کی فراہمی آسان کام نہیں ہے ۔حالیہ واقعات سے افغان افواج میں موجود خامیوں کی نشاندہی ہوگئی ہے اور اب اس سے سبق سیکھا جانا چاہیے۔
ابن عماد بن عزیز