صرف 10 ممالک حالت جنگ میں نہیں، عالمی امن اشاریہ

global-peace-index

اس وقت پوری دنیا میں صرف دس ممالک ایسے ہیں جو حالت جنگ میں نہیں ہیں اور کسی بھی تنازع سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے جاری کردہ گلوبل پیس انڈیکس 2016ءکے مطابق صرف بوٹسوانا، چلی، کوسٹاریکا، جاپان، موریشیئس، پاناما، قطر، سوئٹزرلینڈ،یوروگوئے اور ویت نام تنازعات سے پاک ہیں۔ آئس لینڈ دنیا کے پرامن ترین ممالک میں پہلے نمبر پر ہے جس کے بعد ڈنمارک، آسٹریا، نیوزی لینڈ، پرتگال، چیک جمہوریہ، سوئٹزرلینڈ، کینیڈا، جاپان اور سلووینیا کے نام ہیں جبکہ امریکا کہیں پیچھے ہے، 103 ویں نمبر پر۔ فلسطین، جو 163 ممالک کی درجہ بندی میں اس سال پہلی بار شامل کیا گیا ہے، 148 ویں نمبر پر ہے۔

جنگ زدہ شام فہرست میں سب سے نیچے ہے، جنوبی سوڈان، عراق، افغانستان، صومالیہ، یمن، وسطی افریقی جمہوریہ، یوکرین، سوڈان اور لیبیا سے بھی نیچے۔ 163 ممالک میں پاکستان کا نمبر 153 واں ہے اور وہ شمالی کوریا اور فلسطین جیسے علاقوں سے بھی پیچھے ہے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اشاریہ تین وسیع موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے، معاشرے میں حفاظت و تحفظ کی سطح، مقامی و بین الاقوامی تنازعات کا پھیلاؤ اور عسکریت پسندی کی سطح۔

گو کہ 81 ممالک نے امن کی جانب پیشقدمی کرتے ہوئے اپنی حالت بنائی ہے لیکن اس کو نقصان پہنچایا ہے باقی79 ممالک نے کہ جو مزید بے حال ہوئے۔ گزشتہ دہائی میں اوسط اسکور میں 2.44 کی کمی آئی ہے جس میں 77 ممالک بہتر ہوئے اور 85 ممالک کا حال خراب ہوا ہے۔ جو عالمی امن کی پیچیدہ صورت حال اور اس کی غیر مساوی تقسیم کو ظاہر کرتا ہے۔

وسطی و جنوبی امریکا معاشرے کی حفاظت میں بدستور بدترین مقام پر ہے۔ مجموعی طور پور یورپ سب سے پرامن خطہ ہے جبکہ مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ سب سے خطرناک۔

رپورٹ کے مطابق امریکا عالمی عسکری اخراجات کا بہت بڑا حصہ خرچ کرتا ہے، 38 فیصد۔ اس کے بعد چین کا نمبر ہے جو کہیں کم ہے اور کل عالمی پیداوار کے 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ فوجی اعتبار سے سب سے کم پرامن ممالک اسرائیل،روس، شمالی کوریا، شام اور امریکا ہیں۔

دہشت گردی کی سرگرمیوں نے دنیا بھر میں پانچ ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے، جس میں شام، عراق، نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔

مکمل رپورٹ یہاں دیکھی جا سکتی ہے

http://static.visionofhumanity.org/sites/default/files/GPI%202016%20Report_2.pdf