خوشی کا تعاقب

the-pusuit-of-happyness

علامہ اقبال نے کہا تھا ”جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی“ اور زیست کی حقیقت یہی ہے۔ یہ ’پیہم رواں، ہر دم جواں‘ تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی ”شبِ درد و سوز و غم“ بھی ہے ، یہاں تک کہ آپ منزلِ مقصود کو پا لیں، چاہے آپ کا مقصد کچھ بھی ہو۔امریکا کے معروف اسٹاک بروکر کرس گارڈنر کی زندگی علامہ اقبال کے ان تمام اشعار پر صادق آتی ہے۔ سخت غربت کے باوجود انہوں نے اپنی خودداری، عزم و ہمت اور بلند حوصلے کی بدولت ایک قابلِ رشک مقام حاصل کیا۔ ہالی ووڈ نے 2006ء میں ان کی زندگی پر Pursuit of Happyness یعنی ”خوشی کا تعاقب“ نامی یہ فلم بنائی جو ان کی آپ بیتی سے ماخوذ ہے، اس میں اپنی عملی زندگی کے آغاز میں پیش آنے والی مشکلات اور ایک کامیاب اور مشہور اسٹاک بروکر بننے تک کی زندگی دکھائی گئی۔

ہدایت کار گیبریل مچینو کی اس فلم میں کرس گارڈنر کا کردار معروف اداکار وِل اسمتھ نے ادا کیا ہے اور بلاشبہ اِس کا حق ادا کردیا ہے۔ عام طور پر ول اسمتھ کو ایکشن فلموں کا اداکار سمجھا جاتا ہے لیکن ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کے کردار میں بھی انہوں نے اپنے فن کی بلندیوں کو چھوا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا ہے، جس کے پاس کوئی ملازمت نہیں، جس کی بیوی غربت سے تنگ آ کر میکے چلی گئی ہے، جو مالک مکان کو کئی ماہ تک کرایہ دینے میں ناکام رہنے کے بعد بالآخر نکال دیا جاتا ہے، پھر امید کی ایک کرن نظر آتی ہے، جو موہوم ہوتی ہے لیکن گارڈنر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اِس کا تعاقب کرے گا، جس طرح اندھیری سرنگ میں جس سمت سے روشنی کی ایک کرن پھوٹے، بس اسی سمت سفر کرنا ہوتا ہے۔

کرس گارڈنر اپنی زندگی کی جمع پونجی ایک ایسی مشین پر خرچ کردیتا ہے، جو روایتی ایکس-رے مشین کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہے لیکن اس سے بہتر نتائج بھی دیتی ہے۔ لیکن بہت کم ادارے اس مشین کی خریداری پر آمادہ ہوتے یہاں تک کہ یہ مشینیں کرس کے لیے سفید ہاتھی بن جاتی ہیں۔ مالی مسائل سے تنگ آکر بالآخر کرس کی اہلیہ اسے چھوڑ جاتی ہے اور ایک جھگڑے کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ بیٹا کرسٹوفر اپنے باپ کے ساتھ رہے گا۔

یہاں سے کرس کی زندگی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ مالی تنگ دستی کے انہی ایام میں اس کی ملاقات ایک اسٹاک بروکر ادارے کے مینیجر سے ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب ’ریوبکس کیوب‘ جیسے پیچیدہ معمے کا شہرہ تھا۔ اسے اپنے وقت میں مشکل ترین کام سمجھا جاتا تھا جب ایک ملاقات میں کرس گارڈنر مینیجر کو یہ حل کرکے دکھا دیتا ہے۔ اس صلاحیت سے متاثر ہو کر مینیجر جے ٹوئسٹل اسے اپنے ادارے کی انٹرن شپ میں بلاتا ہے۔ لیکن انٹرویو سے قبل آخری رات کو، جب وہ کرائے کے معاملے پر جھگڑنے والے مالک مکان کے کہنے پر گھر میں رنگ و روغن کررہا ہوتا ہے، پولیس گھر کا دروازہ کھٹکٹاتی ہے اور ٹریفک چالان نہ بھرنے پر صبح تک کے لیے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ جب وہ صبح رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس انٹرویو کے لیے تیار ہونے کا سرے سے وقت نہیں ہوتا۔ اسی حلیے میں وہ ڈین وِٹر رینلڈز نامی ادارے میں پہنچ جاتا ہے، جہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے کوئی تنخواہ نہیں دی جائے گی اور 20 میں سے صرف ایک شخص کا ملازمت کے لیے انتخاب کیا جائے گا۔ یہ کرس کے لیے بہت مشکل فیصلہ ہوتا ہے لیکن ’مرتا کیا نہ کرتا‘، کرس اس کام کے لیے راضی ہوجاتا ہے اور خراب ترین حلیہ ہونے کے باوجود انٹرویو میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن اس انٹرن شپ سے اس کے حالات مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ گھر کا کرایہ ادا نہ کرپانے کی وجہ سے اسے نکال دیا جاتا ہے، تھوڑی بہت آمدنی محصولات کی مد میں حکومت بینک اکاؤنٹ سے کاٹ لیتی ہے۔ اس صورتحال میں جب جیب میں پھوٹی کوڑی نہ ہو، بچے کو اسکول پہنچانے ساتھ ساتھ کرس کو اسٹاک بروکنگ ادارے میں بغیر تنخواہ کے کام کرنا پڑتا اور اس دوران ملنے والے کھانے کے وقفے میں وہ ایکس-رے مشین بیچنے کی کوشش کرتا اور پھر شام کو بیٹے کو واپس لے کر کسی خیراتی ادارے میں ’پہلے آئیے، پہلے پائیے‘ کی بنیاد پر قطار میں لگ کر رات گزارنے کے لیے چھت لیتا۔ اس اعصاب شکن جدوجہد کے باوجود کرس ہمت و حوصلہ نہیں ہارتا، یہاں تک کہ اسے ایک رات ریلوے اسٹیشن کے غسل خانے میں بھی گزارنا پڑتی ہے، جو فلم کا سب سے غم ناک منظر ہے۔

ایک ایسے ادارے، جہاں اس سے ہزارہا گنا زیادہ سہولیات اور آسانیاں پانے والے افرادکام کرتے ہوں اور ان کے پاس ملازمت حاصل کرنے کے امتحان کو باآسانی پاس کرنے کے تمام وسائل بھی موجود ہوں، کرس کو سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے اپنے وقت کے منظم انداز میں استعمال کرنے کے لیے ایک نظام ترتیب دیا اور کئی حکمت عملیاں مرتب کرتے ہوئے بالآخر ان تمام مراحل سے بخوبی گزر گیا۔ یہاں تک کہ نتیجے کے روز جب 20 میں سے ایک کامیاب فرد کا نام ظاہر ہوتا ہے تو وہ کرس گارڈنر کا ہوتا ہے۔ ڈین وٹر رینلڈز میں ملازمت مل جانے کے بعد کرس کی زندگی کے اچھے دنوں کا آغاز ہوتا ہے اور فلم کا اختتام اس سطر کے ساتھ ہوتا ہے کہ بعد میں کرس نے اپنی بروکریج فرم قائم کی اور ارب پتی بنا۔

فلم ناقدین نے کہانی، بالخصوص ول اسمتھ کی اداکاری کو خوب سراہا بلکہ اسمتھ بہترین اداکار کے لیے آسکر ایوارڈز تب کے لیے نامزد ہوئے۔ اس کے علاوہ فلم نے باکس آفس پر بھی خوب کامیابیاں سمیٹیں اور مجموعی طور پر 30 کروڑ 42 لاکھ امریکی ڈالرز کی آمدنی حاصل کی۔