شمس الرحمٰن فاروقی کا اعتراض

shair

آج کل مذاکرات کا موسم ہے، چنانچہ ’’فریقین‘‘ کا لفظ بار بار پڑھنے اور سننے میں آرہا ہے۔ مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ’’فریقین‘‘ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ مثلاً یہ پڑھنے اور ٹی وی پر سننے میں آرہا ہے ’’تینوں فریقین‘‘، ’’چاروں فریقین‘‘ یا پھر ’’دونوں فریقین‘‘۔ فریقین کہتے ہی دو فریقوں کو ہیں اور یہ فریق کی جمع ہے، لیکن ایسی جمع نہیں کہ فریقین تین، چار ہوجائیں۔ اگر دو سے زائد ہوں تو بہتر ہے کہ ’’تینوں فریق‘‘ یا ’’چاروں فریق‘‘ کہا اور لکھا جائے۔ یہ بالکل ’’طرفین‘‘ اور ’’اطراف‘‘ کی طرح ہے۔ اخبارات میں ’’چاروں اطراف‘‘ لکھا جارہا ہے جب کہ اطراف کا مطلب ہے دو طرف۔ چاروں طرف کے لیے ’’اطراف و جوانب‘‘ کہا اور لکھا جاتا ہے۔ جوانب جانب کی جمع ہے۔ اسی سے جانب داری اور جنبہ داری ہے۔ جَنْب عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: پسلی، پہلو، طرف۔ ہمارا خیال ہے کہ جب ہم اطراف و جوانب کہتے ہیں تو اس کا مطلب آگے پیچھے، دائیں بائیں ہونا چاہیے، کیونکہ پسلیاں دائیں بائیں ہوتی ہیں۔ جانبین کا مطلب بھی دونوں طرف ہے۔ معروف شاعر جون ایلیا کو ’’جنبہ داری‘‘ کی ترکیب بہت پسند تھی، انہوں نے اپنے شعروں میں اس کو استعمال کیا ہے گو کہ خود ان کی پسلیاں آسانی سے گنی جا سکتی تھیں۔

ہمارے ایک صحافی سید عامر نے جانے کیا سمجھ کر ممولے کو شہباز سے لڑانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہم جیسے لوگ جو اردو زبان کو صرف معلومات کی باربرداری کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جن کا ادباء و شعراء سے کم ہی ملنا ملانا ہوتا ہے، آپ نے زبان ٹھیک کرنے کے لیے ایک خوبصورت سلسلہ ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ شروع کیا ہے جو اردو زبان کی بڑی خدمت ہے۔ آپ سے گفتگو کے دوران بات سے بات نکلی، اس دوران ’’ادب نوازی‘‘ کا ذکر بھی ہوگیا۔ اس حوالے سے اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق جناب شمس الرحمن فاروقی نے جنہوں نے زبان درست کرنے کے لیے کئی کتابیں لکھی ہیں، اپنی کتاب ’’روزمرہ الفاظ‘‘ میں ’’ادب نوازی‘‘ پر انتہائی سخت اعتراض کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’چونکہ ’’نواختن‘‘ کے معنی ’’بجانا‘‘ بھی ہے، اس سے بانسری نواز، سارنگی نواز، ستار نواز جیسے کلمات تو بالکل ٹھیک ہیں لیکن آج کل ’’ادب نواز‘‘ کا قبیح اور مربیانہ فقرہ بھی استعمال ہونے لگا ہے، گویا ادب کوئی باجا ہوا، اور جن صاحب کو ’’ادب نواز‘‘ کہا جارہا ہے وہ اسے بجاتے ہوں۔ یا پھر اگر ’’نواختن‘‘ کے معنی ’’نوازش کرنا، مہربانی کرنا‘‘ لیے جائیں تو گویا ادب کوئی یتیم بچہ یا بے سہارا شخص ہے اور جن صاحب کو ’’ادب نواز‘‘ کہا جارہا ہے وہ ادب پر مہربانی فرماتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دونوں ہی معنی ’’ادب‘‘ کے لیے نامناسب اور قابلِ اعتراض ہیں۔ ہم ادب دوست ہوسکتے ہیں، ادب پرست ہوسکتے ہیں، ادب شناس ہوسکتے ہیں، ’’ادب نواز‘‘ یا ’’ادب پرور‘‘ کہلانے کا استحقاق و مرتبہ نہیں رکھتے۔ بڑے سے بڑا شخص بھی ادب کو ’’نواز‘‘ نہیں سکتا اور نہ تنہا اس کی پرورش کرسکتا ہے۔ یہ سب استعمالات تکلیف دہ اور واجب الترک ہیں۔‘‘

یہ ایک حقیقت ہے کہ وہی زبانیں پھلتی، پھولتی اور پھیلتی ہیں جن میں انجذاب کی خاصیت ہو، یعنی دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنی زبان کے مزاج کے مطابق ڈھال لینا

اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ’’ادب نواز‘‘ کہنے پر تنقید کرنے کے ساتھ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ’’اردو نواز‘‘ کہنے کو بھی غلط قرار دیا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’ادب نواز‘‘ کے طرز پر بعض لوگوں نے ’’اردو نواز‘‘ بنا لیا ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ اردو دوست ہو سکتے ہیں، ورنہ ہمارا صحیح مقام ’’خادمِ اردو‘‘ کا ہے۔‘‘

پہلے ایک وضاحت کردیں کہ ممولہ ہم نے اپنے آپ کو کہا ہے۔ کہیں قارئین غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ شمس الرحمن فاروقی تو اب اعتراض کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ وہ بہرحال بڑے ادیب تھے اور اردو کے لیے ان کی خدمات نہایت وقیع ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا اعتراض بجا ہو۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ جو الفاظ اردو میں داخل ہوکر عام فہم ہوگئے اور غلط العام کے درجہ میں داخل ہوکر فصیح ہوگئے ان کو زبان سے خارج کرنا مناسب نہیں ہے۔ جناب شمس الرحمن فاروقی مرحوم سے بڑھ کر یہ کام ارشاد حسن خان نے کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہی زبانیں پھلتی، پھولتی اور پھیلتی ہیں جن میں انجذاب کی خاصیت ہو، یعنی دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنی زبان کے مزاج کے مطابق ڈھال لینا۔ عربی کے بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو اردو میں کسی اور معنی میں استعمال ہورہے ہیں۔ مثلاً جلوس، فرصت، رعایت، سبق وغیرہ۔ اب ایک عام اردو دان بھی ان الفاظ کے معانی وہی لیتا ہے جو اردو میں رائج ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کا یہ لکھنا بالکل درست ہے کہ ’’نواز‘‘ کا فارسی مصدر ’’نواختن‘‘ ہے جس کا مطلب ’’بجانا بھی‘‘ ہے۔ ان کے جملہ میں ’’بھی‘‘ پر توجہ دیجیے۔ اس کی بنیاد پر انہوں نے نواز ہی کو ادب سے لاتعلق کردیا اور ادب نواز کو قبیح قرار دے دیا۔ وہ بھارت کے ادیب تھے، اگر پاکستان میں ہوتے تو میاں نوازشریف ان کو ضرور نوازتے ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک لفظ کے کئی معانی اور محل استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں ایک لفظ ہے (فارسی) ’’جان نواز‘‘ جس کا مطلب ہے جان پر مہربانی کرنے والا، معشوق۔ اب کیا اسے جان کو بجانے والا سمجھا جائے!

شمس الرحمن فاروقی نے ادب کے لیے نواز کے استعمال پر تنقید کی ہے۔ ہمیں اس موقع پر ایک بڑے اچھے مزاح گو احمق پھپھوندوی کا شعر یاد آرہا ہے۔ موصوف کے نام سے قطع نظر انہیں اردو زبان پر بہت عبور تھا۔ ان کا شعر ہے:

ادب نوازی اہلِ ادب کا کیا کہنا
مشاعروں میں اب احمق بلائے جاتے ہیں

سید عامر فکرمند نہ ہوں اور ادب کو نوازتے رہیں۔ حضرت جوش ملیح آبادی نے بھی ’’رہنا‘‘ سے ’’رہائش‘‘ پر اعتراض کرکے اردو زبان سے ایک لفظ چھیننے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ ہوسکتا ہے لغوی اعتبار سے ’’رہائش‘‘ غلط ہو، لیکن اب یہ بھی فصیح کے درجہ میں ہے۔ سید عامر نے شمس الرحمن فاروقی کی تحریر کا عکس بھی بھیجا ہے۔ چھوٹا، منہ بڑی بات، وہ لکھتے ہیں کہ ’’ادب نواز کے طرز پر بعض لوگوں نے اردو نواز بنا لیا ہے‘‘۔ انہوں نے ’’طرز‘‘ کو مذکر لکھا ہے جبکہ یہ مونث ہے۔ (لغت دیکھ سکتے ہیں) علامہ اقبال کا شعر ہے:

تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

اس میں طرز مونث ہے۔ بزرگوں کی غلطیاں پکڑنی نہیں چاہئیں۔ ایک غلطی اور بھی عام ہے، وہ ہے ’’تا کے ساتھ تک‘‘۔ ایک جملہ ہے ’’ریلی مزار قائد تا تبت سینٹر تک‘‘۔ تا کے ساتھ تک نہیں آتا۔ کسی کو تک لکھنے کا شوق ہے تو ’’تا‘‘کی جگہ ’’سے‘‘ استعمال کرلے، کچھ حرج نہیں، ورنہ بغیر تک کے بات مکمل ہوجاتی ہے۔